خبریں

2017 میں زیادہ تر ممالک کی جی ڈی پی بڑھی، بےروزگاری گھٹی لیکن ہندوستان میں ایسا نہیں ہوا

2017 کو ایک ایسے سال کے طور پر یاد کیا جائے‌گا، جس میں ہندوستانی معیشت کو اپنے ہی ہاتھوں بھاری نقصان پہنچایا گیا۔

Photo: Reuters

Photo: Reuters

ہو سکتا ہے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی آنے والے وقت میں 2017 میں سیاسی معیشت میں آئی رکاوٹوں کو ایک ایسے برے خواب کے طور پر دیکھیں، جس سے ہمیشہ بچا جانا چاہئے۔ کئی معنوں میں 2017 کو ایک ایسے سال کے طور پر یاد کیا جائے‌گا، جس میں ہندوستانی معیشت کو اپنے ہی ہاتھوں بھاری نقصان پہنچایا گیا، جس سے مجموعی گھریلو مصنوعات (جی ڈی پی) میں تیز گراوٹ آئی اور پہلے سے ہی نئے روزگار کے مورچےپر جاری خراب حالت اور بدتر ہوئی۔نوٹ بندی کے بعد زراعتی آمدنی بھی اور سب سے نچلی سطح  کی طرف پہنچ گئی۔ یہاں یاد کیا جا سکتا ہے کہ کیسے 2017 کی شروعات میں ربی کے موسم میں کسانوں کو تقریباً تمام پیداوار کے لئے 30 سے 40 فیصد کم قیمت سے ہی اطمینان کرنا پڑا، جس کی وجہ منڈی میں نقدی کی کمی تھی۔

زراعتی آمدنی کو ہوئے نقصان کا سیاسی اوراقتصادی رد عمل ،سوراشٹر میں بی جے پی کے 2002 سے اب تک کے سب سے خراب مظاہرہ ہے، جہاں منھجولے کسانوں نے، جن میں پاٹیدار اہم تھے، کافی غصے کے ساتھ ووٹ دیا۔ انتخابی تشہیر کی قیادت کرنے والے مودی نے اپنی پارٹی کی پارلیامانی جماعت کے رہنماؤں کے سامنے منظور کیا کہ ‘ صرف میں یہ بات جانتا ہوں کہ اس بار گجرات میں جیت حاصل کرنا کتنا مشکل تھا۔ ‘لیکن،سوراشٹر میں بی جے پی کی بھاری شکست کی جو وجہ مودی نے بتائی، وہ خود کو مغالطہ‌ میںرکھنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے جیسے معمولی بی جے پی کارکنوں نے 30 سال تک ذات کی سیاست کو پیچھے دھکیلنے کے لئے انتہائی محنت کی، لیکن جیسا کہ مودی نے آگاہ کرنے والے لہجے میں کہا، گجرات میں ایک بار پھر ذات سر اٹھا رہی ہے۔

جو بات وزیر اعظم سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں، بھلے ایسا جان بوجھ کر کیا جا رہا ہو یا کسی اور وجہ سے، وہ یہ ہے کہ منجھلے کسان وسط، شمالی اور مغربی ہندوستان کے مختلف حصوں میں ایک ہی طرح سے بغاوت کا پرچم بلند کر رہے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے، جہاں 2014 میں بی جے پی نے لوک سبھا کی 90 فیصدی سیٹوں پر جیت درج کی تھی۔یہ بات سچ ہے کہ یہ کسان متوسط برادریوں کی نمائندگی کرتے ہیں، جس کی بنیاد پر وہ منظم ہو رہے ہیں تاکہ وہ اپنی اقتصادی شکایتوں کو لےکر آواز اٹھا سکیں۔ مہاراشٹر میں ایسا مراٹھوں کے درمیان اور مغربی اتر پردیش اور راجستھان میں جاٹوں کے درمیان بھی ہو رہا ہے۔

راجستھان میں حال ہی میں ہوئے مقامی انتخابات میں کسانوں اور اقتصادی نظام  کے ان کی معاو ن جماعتوں نے غصے میں بی جے پی کے خلاف ووٹ کیا۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں جہاں بی جے پی کا ووٹ فیصد قریب 56 فیصد تھا، وہیں مقامی بلدیاتی اور پنچایت کے انتخابات میں یہ قریب 15 فیصد کم ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس یہاں بی جے پی سے کہیں زیادہ سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی۔اسی طرح سے حال ہی میں اترپردیش نگر پنچایت کے انتخابات میں جو دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان کی زمین ہے، بی جے پی کو 13 فیصد سے کم ووٹ ملے۔ جاٹ کسانوں کے دبدبے والے مغربی اتر پردیش میں آدتیہ ناتھ کے ذریعے چنے گئے امیدواروں کو آزاد اوراپوزیشن کےدوسرے امیدواروں نے اچھی شکست دی۔

ویڈیو :2017میں ہندوستانی معیشت کیسی رہی اور 2018میں اس کے سامنے اہم چیلنجز پر دی وائر کے بانی مدیر ایم کے وینو کے ساتھ امت سنگھ کی بات چیت

یاد کیجئے کہ 2014 کے لوک سبھا اور 2017 کی اسمبلی انتخابات میں جاٹ پوری طرح بی جے پی کے پیچھے صف بندی کر چکے تھے۔ تو کیا وزیر اعظم اب بھی یہ دلیل دیں‌گے کہ گجرات کی ہی طرح کئی بی جے پی حکومتی ریاستوں میں ذات اپنا سر اٹھا رہی ہے؟ اگر ایسا ہے، تو وزیر اعظم کو یقیناً فکر کرنی چاہیے اور  اس صورتحال کی وضاحت کرنے کے لئے دوسرے اسباب کی کھوج کرنی چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ 2017 میں زراعتی معیشت میں گراوٹ دیکھی گئی، جس کی وجہ کافی حد تک نوٹ بندی کے اثرات کو کہا جا سکتا ہے۔ دکھ کی بات ہے کہ جب نومبر، 2016 میں نوٹ بندی کا اعلان کیا گیا تھا تب دو لگاتار قحط کے سال کے بعد زراعت کے شعبے نے اصلاح کی طرف چھوٹے چھوٹے قدم بڑھانا شروع ہی کیے تھے۔

زراعتی آمدنی میں گراوٹ کے طور پر اس کا پورا اثر اصل میں 2017 کی پہلی چھ ماہی میں دکھائی دیا۔ کل ملاکر زراعتی آمدنی میں اضافہ زیرو سے کچھ ہی اوپر دکھائی دے رہا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بی جے پی حکومت میں Minimum Support Price  میں اضافہ افراط زر سے بھی کم ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کسانوں کا ایک بڑا گروہ اور کئی زراعتی مصنوعات Minimum Support Price  کے دائرے سے باہر ہیں، جس نے حالات کو بدتر بنا دیا ہے۔اس نے  معیشت پر اثر ڈالا اور جی ڈی پی کی ترقی کی شرح گھٹ کر اپریل جون کے سہ ماہی میں 5.7 فیصد رہ گئی۔ دیہی مانگ میں صحت مند اصلاح کے امکان کافی کم ہیں کیونکہ جولائی ستمبر کی سہ ماہی کے تھوڑے سے بہتر ہوئے اعداد و شمار میں بھی زراعت کے شعبے کی کارکردگی خراب رہی۔ہندوستان کے اہم Chief Statistician کا کہنا ہے کہ جی ڈی پی  اضافہ میں تبدیلی ہو سکتی ہے، کیونکہ اس میں Unorganised Sector کے اعداد و شمار اور لاکھوں Unlisted  چھوٹی کمپنیوں کے اعداد و شمار بعد میں جوڑے جائیں‌گے۔

Central Statistical Organisation نے یہ خبردار کیا ہے کہ مینوفیکچرنگ شعبے میں 7 فیصد کا اضافہ (جولائی ستمبر) اسٹاک ایکسچینج میںListed اور سیبی میں رجسٹرڈ بڑی کمپنیوں کے آسانی سے دستیاب اعداد و شمار پر مبنی ہے۔مگر ساتھ ہی اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مینوفیکچرنگ شعبے میں اضافہ کی شرح کا اعداد و شمار نکالتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں موجود چھوٹی Unlisted کمپنیوں کو 20 فیصد Weightage دیا جاتاہے، جن کا اصل اعداد و شمار بعد میں آئے‌گا۔ ریزرو بینک کے ذریعے اس شعبے کے لئے ایک سیمپل اسٹڈی نے اس میں 50 فیصد سے زیادہ کی گراوٹ دکھائی ہے۔

یہ گراوٹ 2017 کے پہلے سہ ماہی میں چھوٹی اکائیوں کی فروخت اور پیداوار میں ہے۔ یہ جی ایس ٹی کے نافذ ہونے سے پہلے کا اعداد و شمار ہے، جس نے چھوٹے انٹرپرائز کو اور چوٹ پہنچانے کا کام کیا ہے۔ یہ یاد رکھا جانا چاہیے کہ یہ چھوٹے انٹرپرائز ہندوستان کے ایکسپورٹ سپلائی چین کا اہم حصہ ہے۔ اس لئے یہ ماننا ناغلط نہیں ہوگا کہ جب مینوفیکچرنگ شعبے کے لئے آخری اعداد و شمار آئیں‌گے، تو اسشعبے میں اضافےکے موجودہ اندازوں کو کم کرنا پڑ سکتا ہے۔جی ڈی پی نکالنے کے موجودہ طریقے میں ایک بڑی غلطی جی ایس ٹی سے جڑے رکاوٹ کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ سی ایس او نے ریاستوں کے ذریعے پیٹرولیم پر وصول کیے گئے ویٹ کے ایک حصے کا استعمال Service Sector، جیسے چھوٹے کاروبار، ریستوراں اور ہوٹل وغیرہ کے اضافے کے اشاریے کے طور پر کیا ہے۔

ایسا اس لئے ہے کیونکہ چھوٹے کاروباروں، ریستوراں اور ہوٹل کے لئے  جی ایس ٹی کے اعداد و شمارموجودہ وقت میں کافی کچّا ہے۔ اس لئے سی ایس او نے پیٹرول / ڈیزل پر ویٹ کے  اعداد و شمار کے ایک حصے کا استعمال ان انٹرپرائز میں اضافہ کا اندازہ لگانے کے لئے کیا ہے۔ہندوستان کے سابق Chief Statistician پرونب سین کا کہنا ہے کہ یہ پوری طرح سے غلط ہے کیونکہ پیٹرولیم ریٹیل ٹیکس تیل کمپنیوں پر لگایا جاتا ہے، جو بنیادی طور پر مینوفیکچرنگ کمپنیاں ہیں۔ ان کے ویٹ کو چھوٹے کاروبارکی پیداوارکا اندازہ لگانے کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے، جو اس مالی سال میں نوٹ بندی کی مار سے جوجھتی رہی۔ اس لئے کسی کو یہ حقیقت میں نہیں پتا ہے کہ2017-18 کے لئے جی ڈی پی کے اصلی اعداد و شمار کیا ہوں‌گے۔

جی ایس ٹی کی وجہسے پیدا ہوئے اقتصادی جھٹکوں اور بدانتظامیوں نے ابھرتے ہوئے ایشیائی اور لیٹن امریکی بازاروں کے دوستوں کے درمیان ہندوستان کے ایکسپورٹ کو اس کے امکان کے حساب سے مظاہرہ کرنے سے روک دیا۔ 2017 میں چین، بنگلہ دیش، ویتنام، تائیوان اور جنوبی کوریا نے عالمی کاروبار اور پیداوار میں آئے اصلاح کا فائدہ اٹھایا ہے، لیکن ہندوستان اس معاملے میں پیچھے چھوٹ گیا۔ٹائمس آف انڈیا میں حال ہی میں شائع ایک آرٹیکل میں مارگن اسٹینلے کے ایمرجنگ مارکیٹ انویسٹ مینٹ کے صدر روچیر شرما نے بتایا ہے کہ اس سال دنیا کی تین چوتھائی معیشت کی جی ڈی پی میں اچھا اضافہ دیکھا گیا اور بےروزگاری میں کمی آئی۔ لیکن ہندوستان باقی کے ایک چوتھائی ممالک میں ہے، جنہوں نے ان دونوں شعبوں میں اچھا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔

شرما کا کہنا ہے کہ کئی ترقی یافتہ ممالک میں بےروزگاری کئی دہائیوں میں سب سے نچلی سطح پر ہے۔ یہاں تک کہ چین، برازیل اور روس جیسے ترقی پذیر ممالک بھی اس مورچے پر اصلاحکر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایکسپورٹ کے مورچے پر ہندوستان کا امید سے کم مظاہرے کی وجہ مضبوط ہوتے روپے کو نہیں دیا جا سکتا ہے، کیوں کہ ابھرتے ہوئے بازاروں کی دوسری کرنسیاں بھی ڈالر کے مقابلے مضبوط ہوئی ہیں۔

آخر میں مصنوعات اور روزگار کے شعبے میں دنیا بھر میں ہوئے اضافہ سے ہندوستان کے اچھوتے رہ جانے کی واحد ممکنہ وجہ نوٹ بندی کے جھٹکے اور جی ایس ٹی کی خراب عمل آوری کو مانا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ یاد کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح سے مودی اور جیٹلی نے 2014 میں یہ اعلان کیا تھا کہ ہندوستان کو چھوڑ‌کر دوسرے تمام برکس ممالک کی حالت پتلی ہے۔ وہ ہر چیز کا الزام یو پی اے پر لگایا کرتے تھے۔ لیکن، اس بار لگتا ہے پوری کہانی بدل گئی ہے۔