حقوق انسانی

کیا طلاق ثلاثہ قانون کی مخالفت محض اس لئے کی جائے کہ یہ بی جے پی حکومت کی پہل ہے؟

قانون کی ضرورت کو مسترد کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ٹرپل طلاق کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود ٹرپل طلاق ہو رہا ہے۔

Bharatiya-Muslim-Mahila-Andolan

پارلیامنٹ کے اس سیشن میں Muslim Women [Protection of Rights on Marriage] Bill 2017 بل پارلیامنٹ میں منظور ہو گیا۔ اب راجیہ سبھا میں اس بل کو پیش کیا جائے‌گا۔ تین  طلاق سے متعلققانون کا امکان پیداہو گیا ہے۔ ملک میں مسلمان  عورتوں کو خاندانی معاملوں میں قانونی تحفظ کی سمت میں یہ بہت اہم قدم ہے۔ ویسے مسلم خواتین کے خاندانی معاملوں اور بالخصوص تین طلاق کے موضوعپر ہمیشہ سے سیاسی اور پدری نظام حاوی رہا ہے۔ اس تناظر میں یہ بل منظور ہونا ہندوستانی جمہوریت کا ایک اہم اور تاریخی پڑاؤ ہے۔

پچھلے کچھ سالوں میں خود مسلمان عورتوں نے ٹرپل طلاق کے خلاف مہم چھیڑ‌ کر اس بل کو ممکن بنایا ہے۔ سپریم کورٹ میں عرضی کے ذریعے عام عورتوں نے بڑی بڑی مذہبی اور پدری طاقتوں کو کھلا چیلنج دیا ہے۔ ملک بھر میں عورتوں نے اس قانون کا استقبال کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ قانون مسلم عورتوں کی جمہوری توقعات پر کتنا کھرا اترے‌گا۔ کیا یہ قانون مسلم عورتوں  کو جینڈر جسٹس یعنی کہ جنسی انصاف اور مساوات کی جانب لے جائے‌گا۔ ان باتوں کا جائزہ لئے بنا ہی کچھ طبقوں میں بل کی مخالفت پُرجوش طریقے سے شروع ہوگئی ہے۔

بل کا تجزیہ کرنے سے پہلے یہاں کچھ حقیقتوں کو دوہرانا ضروری ہے۔ حیرانی کی بات ہے کی شادی اور فیملی سے جڑے معاملوں میں ہمارے ملک کی مسلم خواتین کے ساتھ آزادی کے 70 سالوں کے بعد بھی قانونی امتیازہوتا آیا ہے۔ مرد سربراہ مذہبی طاقتوں کے لئے یہ امتیاز کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ملک کا آئین خاندانی معاملوں میں ہر شہری کو مذہبی قانون پر عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسی کے سبب ملک میں ہندو شادی ایکٹ، 1955 ؛ ہندو سکسیشن ایکٹ، 1956 اور کرسچین شادی ایکٹ [جس میں 2000 میں ترمیم ہوا] جیسے قانون نافذ ہیں۔ ان تمام قانون میں پارلیامنٹ نے لگاتار اصلاح کئے ہیںتاکہ جینڈر جسٹس کا مقصد حاصل ہو سکے۔ دوسری طرف ملک کے مسلم سماج پر شریعت اپلی کیشن ایکٹ، 1937 یعنی کہ انگریز حکومت کے زمانے کا قانون نافذ ہے۔ اور اس میں آج تک کوئی اصلاح یا ترمیم نہیں ہوئی ہے۔ اسی کے سبب ہمارے ملک میں ٹرپل طلاق، حلالہ اور کثیرازدواجی جیسی خاتون مخالف روایتیں چلتی آئی ہیں۔ انصاف کے قرآنی  اور آئینی اصولوں کے باوجود مسلم خاتون کے ساتھ کھلے عام ناانصافی ہوتی آئی ہے۔ قدامت پرست اورمردانہ ذہنیت کی مذہبی تنظیموںکے تسلط کے سبب مسلم خواتین کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ یہ ایسی  سازش ہے جس میں مذہبی تنظیموںکے علاوہ سیاسی طبقہ پوری طرح سے شامل رہا ہے۔ یہاں بات صرف کسی خاص سیاسی پارٹی کی نہیں ہے ؛ اس سازش میں پورا سیاسی طبقہ پوری طرح سے شامل ہے۔ موجودہ بل کو اس روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ویسے تو ٹرپل طلاق کی عرضی 2016 میں سپریم کورٹ میں دائر ہوئی۔ لیکن اس سے پہلے ایک لمبے عرصے سے مسلم خواتین قانون کی دہائی لگاتار لگاتی آئی ہے۔ ہندوستانی مسلم خاتون تحریک اور بالخصوص تملناڈو اور کیرل کی کچھ خاتون تنظیموں نے لگاتار کہا ہے کہ قانون ہماری ضرورت ہی نہیں بلکہ ہمارا آئینی حق بھی ہے۔ دسمبر 2012 میں ممبئی میں مسلم خواتین کے قومی اجلاس میں ہم نے ٹرپل طلاق کو ختم کرنےکا اعلان کیا تھا اور اس وقت کے وزیر اعظم کو خط بھی لکھا تھا۔ اس خط میں مسلم خواتین کے تحفظ کے لئے قانون ضروری ہے کہا گیا تھا۔ اس وقت کے نائب-صدر سے ہمارے نمائندہ وفد نے دلّی میں ملاقات کے ساتھ بیٹھک بھی کی تھی۔ اس کے بعد سے لےکر لگاتار مسلم خواتین انصاف کے لئے احتجاج کرتی آئی ہیں۔ جب معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تب تک ملک میں ٹرپل طلاق کے خلاف ایک عام رائے قریب قریب بن چکی تھی۔ شاعرہ بانو اب 1986 کا شاہ بانو کی طرح  اکیلی نہیں تھی۔ اس کو ملک کی تمام مسلم خواتین کا تعاون تھا ؛ یہی نہیں بلکہ ملک کی تمام خاتون آبادی اس کے ساتھ تھی! یہ کہنا غیرواجب نہیں ہوگا کی اسی خاتون ہم آہنگی کے سبب سپریم کورٹ کا فیصلہ ممکن ہو سکا۔ آئینی اہتمام تو 1986 میں بھی موجود تھے! مسلم خواتین کے احتجاج کے نتیجے میں یہ تبدیلی ممکن ہو پائی ہے۔

قانون کی ضرورت کو مسترد کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ٹرپل طلاق کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود ٹرپل طلاق ہو رہا ہے۔ یہ دکھاتا ہے کہ ایک واضح قانون کی ضرورت ہے۔ لیکن کیوں کہ ان لوگوں کے لئے خواتین کی تکلیف زیادہ معنی نہیں رکھتی وہ اس بل کو ٹھکرا رہے ہیں۔ اس سے وہ اپنا  پدری تسلط برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی موقع کا استعمال کرکے بی جے پی حکومت سے لڑنا چاہتے ہیں۔ نہ ہی انھوں نے کبھی ٹرپل طلاق کے خلاف مسلم خاتون کےاحتجاج کی حمایت کی۔اس بل کے خاص پوائنٹس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اس کے مطابق اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو ٹرپل طلاق یعنی کی طلاقِ بدعت دیتا ہے تو اس کو قانونی جرم مانا جائے‌گا۔ یہ ایک cognizable جرم یعنی کی سنگین جرم مانا جائے‌گا جس کی سزا تین سال تک جیل ہو سکتی ہے۔ یہ جرم non-bailable ہوگا یعنی ضمانت نہیں مل سکتی۔ ساتھ ہی یہاں متاثرہ بیوی کے لئے subsistence allowance یا خرچہ یا گزارا کی بات بھی کہی گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بچّوں کو ماں کے سپرد کیا جائے‌گا یعنی کہ بچّے ماں کے ساتھ رہیں‌گے۔

TripleTalaqProtest_PTIGuj

پارلیامنٹ میں جب یہ بل پیش کیا گیا تو کئی رکن پارلیامنٹ نے اپنے اپنے رد عمل دیے۔ ٹرپل طلاق پر قانون لانےکی مرکزی حکومت کی کوشش قابل تعریف ہے۔ ساتھ ہی کانگریس پارٹی اور دیگر حزب مخالف کے ذریعے قانون کو حمایت بھی قابل تعریف ہے۔ کانگریس پارٹی اور دیگر کچھ پارٹیوں کے رکن پارلیامنٹ نے قانون کی ضرورت سے اتفاق دکھاتے ہوئے بل میں اصلاح کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے قانون بنانے کے عمل میں وسیع بحث و مباحثے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس بل کو پارلیامنٹکی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کیا جانا چاہیے۔ کل ملاکر شام تک سبھی مشوروں کو خارج کر دیا گیا اور بل اکثریت سے منظور کر لیاگیا۔ ایک طرح سے پارلیامنٹ نے مانا کہ مسلم خاتون کے لئے قانون ہونا چاہیے۔

ہم اس بل کو آئینی جینڈر جسٹس اور جمہوری نظریے سے دیکھتے ہیں۔ اس بل میں دو اصلاحوں کی گنجائش ضرور ہے۔ پہلا یہ کہ اس بل میں طلاق کا دستورعمل [procedure] درج کرنا صحیح رہے‌گا۔ جب کہا جا رہا ہے کہ ٹرپل طلاق غیر قانونی ہے تو یہ بھی کہا جانا چاہیے کہطلاق کا صحیح طریقہ کیا ہوگا۔ طلاقِ احسن پر مبنی طریقہ درست ہوگا یعنی کہ طلاق سے پہلے کم سے کم 90 دنوں تک شوہر-بیوی میں مکالمہ، صلح، ثالثی کی کوشش ہو۔ ہندو شادی ایکٹ میں طلاق سے پہلے 6 مہینے کا کُلنگ پیریڈ قانونی شرط ہے۔ مسلم شادی میں بھی اس کا اہتمام صحیح رہے‌گا۔ 90 دنوں کے بعد بھی اگر صلح نہیں ہوتی ہے اور طلاق کی نوبت آتی ہے تو پھر بیوی کے لئے گھر، خرچہ، بچّوں کی سرپرستی بھی ملنی چاہیے۔ دوسری اصلاح  یہ کہ اگر شوہر قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کو سزا ضرور ملے۔ لیکن اس کا جرم non-cognizable ہو اور مقدمہ درج کرنے کا حق بیوی کو ہو۔ وہ چاہے تو مقدمہ درج کروائے اور کورٹ شوہر کو جیل یا دیگر سزا دے ؛ اور اس کو ضمانتی جرم بنایا جائے۔ اس اصلاح سے قانون کے غلط استعمال کے خدشہ کاحل نکل سکتا ہے۔ قانون کا مقصد جینڈر جسٹس ہے اور ساتھ ہی جرم کرنے والے کو سزا بھی۔ قانون کا عمل صحیح ہونے سے اور سزا کے ڈر سے ہی جرم کم ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی ازدواجی تعلقات درست بھی ہو سکتے ہیں۔

اب کیا اس قانون کو محض اس لئے ٹھکرا دیا جائے کہ یہ بی جے پی حکومت کی پہل کا نتیجہ ہے؟ لیکن کئی مخالفوں کو تو یہ قانون بھی حکومت کی مخالفت کا موقع ہی لگ رہا ہے۔ ایسا تو نہیں ہے کہ خاتون حقوق کے دیگر قوانین میں جیل کی سزا نہیں ہے۔ Bigamy قانون میں سات سال تک کی جیل کی سزا ہے۔ 494 IPC کے مطابق اگر کوئی ہندو، جین، سکھ شوہر دوسری شادی کرتا ہے تو اس کی پہلی بیوی کے مقدمہ درج کرنے پر اس کو 7 سال تک جیل اور جرمانہ ہے۔ جہیز قانون اور گھریلو تشدد قانون میں بھی شوہر کو جیل کی سزا ہے۔ تو پھر کچھ لوگ ٹرپل طلاق قانون کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں! شاید وہ متاثر خاتون کی حالت سے واقف نہیں ہیں ؛ یا پھر ان کو اس کی جانکاری نہیں ہے ؛ یا پھر وہ پدرانہ ذہنیت کا شکار ہیں ؛ یا پھر انھوں نے بی جے پی حکومت کے ہر قدم کی مخالفت کرنے کی ٹھان لی ہے ؛ یا پھر یہ سارے بےوجہ لگ رہے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ شوہر کو جیل نہیں ہونی چاہیے، چاہے خاتون روتی بلکتی رہے۔ شوہر چاہے تو زبانی طلاق دےکر بیوی کی پوری زندگی تباہ کر دے لیکن اس کو تین سال کے لیے جیل بھیجنا زیادتی ہوگی! خاندانی قانون ہر خاتون کا آئینی حق ہے۔ اس کو اس قانون سے محروم رکھنا کیسے جائز ہو سکتا ہے!

(مضمون نگاربھارتیہ مسلم مہیلا آندولن سے وابستہ ہیں)