خبریں

گولڈن گلوب تقریب میں انعامات سے زیادہ جنسی استحصال پر ہوئی گفتگو

75ویں گولڈن گلوب انعام تقریب میں جنسی استحصال کے خلاف ہالی ووڈ کے بڑے ایکٹرس کالے کپڑوں میں پہنچے۔

Photo: Reuters

Photo: Reuters

لاس انجلس : گولڈن گلوب انعام، 2018 میں جنسی استحصال کے خلاف ستاروں کا غصہ واضح طور پرنظر آیا۔ جنسی استحصال کی مخالفت میں ہالی ووڈ فنکار کالے کپڑے پہن‌کر ریڈ کارپیٹ پر پہنچے۔ٹیلی ویژن اور سینما میں لوگوں کی خدماتکو سرفراز کرنے والے 75ویں گولڈن گلوب انعام تقریب میں جنسی استحصال کے تمام معاملوں کے اجاگر ہونے کے بعد ایک نئے عہدکی شروعات کا بھی پیغام دیا گیا۔

دوسری طرف، فلم تھری بل بورڈس آؤٹ سلائڈ ایبّنگ میزوری اور بگ لٹل لائز نے اپنے نام کئی انعام کئے۔ہالی ووڈ میں بہترین خدمات کے لئے اوپرا ونفرے کو 75ویں گولڈن گلوب انعام میں سیسل بی۔ ڈیملے انعام سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز حاصل کرنے والی وہ پہلی افریقی امریکی خاتون ہیں۔

اس انعام کی شروعات سال 1952 میں ہوئی تھی اور یہ اعزاز حاصل کرنے والی 63 سالہ اوپرا 15ویں خاتون ہیں۔اوپرا نے انعام لیتے ہوئے اپنی تقریر میں ہالی ووڈ میں جاری جنسی استحصال کی بحث کو آگے بڑھایا اور کہا کہ اس معاملے میں میڈیا نے ایک اہم کردار نبھایا ہے۔

اوپرا نے میڈیا کی گھیرابندی کی جانے کی بات کو مانتے ہوئے کہا کہ اب ایسا ماحول ہے جہاں خواتین کو # می ٹو بولنے کا حق ہے اور مرد سن رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ لڑائی ہالی ووڈ تک محدود نہیں ہے اور کئی ایسی خواتین ہیں جنہوں نے اس کے لئے لڑائی لڑی لیکن ان کے نام کبھی سامنے نہیں آ پائیں‌گے۔حال ہی میں ہاروی وائنسٹین اور کیون سپیسی جیسے بڑے ہالی ووڈ شخصیتوں پر جنسی استحصال کے الزام لگے ہیں جس کے بعد سے لگاتار یہ مدعا گفتگو کا موضوع بنا ہوا ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر مہینے میں ہالی ووڈ ڈائرکٹر ہاروی وائنسٹین پر لگے جنسی استحصال کے کئی الزامات کے بعد سوشل میڈیا پر # می ٹو اور # ٹائمس اپ پہل کی شروعات ہوئی تھی۔ہاروی وائنسٹین پر ایک کے بعد ایک کئی ہالی ووڈ اداکارہ نے جنسی استحصال کے الزام لگائے تھے۔ گزشتہ سال پانچ اکتوبر کو دی نیویارک ٹائمس نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں امریکی فلم پروڈیوسر پر اداکارہ کےجنسی استحصال کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

اس کو لےکر سب سے پہلے ہالی ووڈ اداکارائیں-روز میکگووین اور ایشلے جوڈ سامنے آئی تھیں۔ ایک ٹوئٹر پوسٹ میں میکگووین نے ہاروی پر ان سے ریپ کرنے کا الزام لگایا تھا۔ دی نیویارکر رسالہ کے مطابق ہاروی پر 13 سے زیادہ خواتین نے جنسی استحصال کا الزام لگایا تھا۔ان میں گوینیتھ پالٹرو اور انجلینا جولی جیسی اہم اداکارائیں بھی شامل ہیں۔ دونوں اداکارہ نے کہا تھا کہ ہاروی نے ان کا استحصال کیا تھا۔اس کے بعد سوشل میڈیا پر خواتین نے # می ٹو مہم کی شروعات کی تھی اور جنسی استحصال سے جڑے تجربات کو شیئر کیا تھا۔

# می ٹو مہم کے بعد نئے سال کی شروعات میں ہالی ووڈ کی اے-لسٹرس اور اداکاراؤں نے فلم انڈسٹری میں موجود ادارہ جاتی جنسی استحصال کے خلاف جدو جہد کے لئے مہم شروع کی ہے۔یہ قدم خاص طور سے ہاروی وائنسٹین کے مبینہ جنسی بدسلوکی کے معاملوں کے بعد اٹھایا گیا ہے۔ اس مہم میں 300 سے زیادہ خاتون ہالی ووڈ فنکار، ہدایت کار، کہانی نگار، پروڈیوسر وغیرہ شامل ہیں۔

اس نئی مہم کا نام ٹائمس اپ ہے۔ اس مہم کا ریز ودرسپون، نکول کڈمین، مارگوٹ رابی، جینیفر اینسٹن، ایشلے جوڈ، امریکہ فریرا، نتالی پورٹمین، شونڈا رائمس، جل سولووے، ڈونا لینگلی، ایما اسٹون اور کیری واشنگٹن جیسے بڑے ناموں سمیت سیکڑوں لوگ حمایت کر رہے ہیں۔

اوپرا ونفرے، نکول کڈمین اور فرانسس میکڈورمینڈ جیسے کئی ستاروں نے یہاں انعام حاصل کرتے ہوئے اپنے خطاب میں، سماج میں تبدیلی کی ضرورت، صنفی اور ذاتی مساوات کی بات کہی۔انعام کے لئے منتظمین کا شکریہ ادا کرنے کے بعد اوپرا نے کہا، ‘ آج میں ان خواتین کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے سالوں تک ظلم و ستم جھیلی۔ یہ وہ خواتین ہیں جن کے نام ہم کبھی نہیں جان پائیں‌گے۔ ان میں گھریلو کامگار اور کھیتوں میں کام کرنے والی ہیں۔ کارخانوں اور ریستوراں میں کام کرنے والی ہیں۔ یہ تعلیمی اداروں، انجینئرنگ، میڈیکل اور سائنس کے شعبے میں کام کر رہی ہیں ؛ یہ تکنیک، سیاست اور کاروباری دنیا کا حصہ ہیں ؛ یہ اولمپک میں حصہ لینے والی کھلاڑی ہیں اور ملیٹری میں شامل فوجی ہیں۔ ‘

Photo: Reuters

Photo: Reuters

انہوں نے آگے کہا، ‘ اس لئے جو بھی خواتین یہاں مجھے دیکھ رہی ہیں وہ جان لیں کہ یہ افق پر ایک نئے دن کی شروعات ہے! اور نئے دن کی شروعات تب ہوتی ہے جب بہت ساری درخشندہ اور  شاندار  خواتین، جن میں سے تمام آج یہاں موجود ہیں اور کچھ غیر معمولی مرد ایک بڑی لڑائی لڑ رہے ہیں تاکہ وہ رہنما بن سکیں، جو ہمیں اس وقت تک لے جائیں جہاں کسی کو می ٹو کہنے کی ضرورت نہ پڑے۔ ‘

اداکارہ نکول کڈمین کو ٹی وی شوبگ لٹل لائز میں ان کی بہترین اداکاری کے لئے بہترین اداکارہ کے انعام سے نوازا گیا۔اس موقع پر جنسی استحصال کے معاملوں کے چلتے گزشتہ دنوں گفتگو میں رہے ہالی ووڈ پر بلاواسطہ طور پر بات کرتے ہوئے نکول نے کہا کہ صحیح طرح کی کہانیاں بیان کرنا ضروری ہے۔

اس ٹی وی شو میں نکول ایک تعلیم یافتہ، دولتمند خاتون کے کردار میں ہے جو ایک توہین آمیز شادی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس کو بہترین لمیٹیڈ سریز ٹی وی مووی کا انعام بھی ملا۔گولڈن گلوب انعام 2018 کے میزبان سیٹھ میئرس نے بہت ہی آسانی کے ساتھ ہالی ووڈ کی کچھ طاقتور اور اب بدنام ہو چکیں ہستیوں پر طعنہ مارا۔ وہیں ہالی ووڈ کی زیادہ تر عظیم شخصیتیں یہاں ریڈ کارپیٹ پر کالے کپڑے پہنے پہنچیں۔

گولڈن گلوب انعام تقریب میں کالے کپڑے پہنے سیٹھ میئرس نے ستاروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا، ‘ یہ 2018 ہے اور آخرکار میری جوانا (نشیلی اشیا) قابل قبول ہے لیکن جنسی استحصال نہیں۔ ‘میئرس نے کہا، ‘ گڈ ایوننگ خواتین اور  بقیہ حضرات ایک نیا زمانہ آ رہا ہے اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کیونکہ ہالی ووڈ میں گورے مرد کو اتنا گھبرائے کئی سال ہو چکے ہیں۔ ‘

Photo: Reuters

Photo: Reuters

میئرس نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر بھی نشانہ سادھا اور کہا کہ گلوب انعامات کے منتظمین ہالی ووڈ فارین پریس تین لفظوں  کی نمائندگی کرتی ہے جو پی۔اوجی۔یوایس ٹرمپ کےٹوئٹر آئی۔ڈی کو ناراض کر سکتی ہے۔گولڈن گلوب انعام ہالی ووڈ کا پہلا ایسا انعام تقریب ہے جس میں فیشن کے مقام پر جنسی استحصال کے مدعے پر توجہ دی گئی۔

اس دوران تقریب میں ہالی ووڈ عظیم ٹائمس اپ کی پہل اور # میٹو مہم کی حمایت کرنے کے لئے ریڈ کارپیٹ پر کالے کپڑے پہن کرپہنچے۔ٹائمس اپ کی پہل ہالی ووڈ کی شونڈا رہمس، ریز ودرسپون، ایوا لانگریا، کپری واشنگٹن جیسی طاقتور خواتین نے جنسی استحصال کے خلاف شروع کی ہیں۔ٹارانا برک نے # میٹو مہم کی شروعات سال 2006 میں سماج میں جنسی استحصال اور جنسی حملوں کے متعلق بیداری پھیلانے کے لئے کی تھی۔ وہ بھی تقریب میں کالے کپڑے پہن‌کر پہنچیں۔

درین اثنا  امریکی ٹیلی ویژن اور تفریحی دنیا کی نامی شخصیت اوپرا ونفرے کے گولڈن گلوب انعام تقریب میں کی گئی تقریر کے بعد 2020 کے صدر انتخاب میں ان کی ممکنہ امّیدواری کو لےکر گفتگو شروع ہو گئی ہے۔غالباً عوام صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے کام کاج سے خوش نہیں ہیں اور ایسے میں صدر انتخاب کی امّیدواری کے تناظر میں اوپرا ونفرے کے امکان کو خارج نہیں کیا جا سکتا۔امریکہ کے سابق صدر براک اوباما کے 2012 کی انتخابی مہم آئی اووا کے ڈائریکٹر بریڈ اینڈرسن نے کہا، ‘ دیکھیے، یہ سب بےکار کی باتیں ہیں۔ ‘ حالانکہ انہوں نے اوپرا کے انتخاب میں کھڑے ہونے کے خیال کی حمایت کی، جو یہ بھی اشارہ دیتا ہے کہ ٹرمپ کی امّیدواری نے سیاسی معیاری اصول کیسے بدل دیے ہیں۔انہوں نے کہا، ‘ اس وقت میں سیاست مضحکہ خیز ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)