خبریں

مقدمے کا ڈر دکھا کر اظہار رائےکی آزادی کو دبایا نہیں جا سکتا

کسی سرمایہ کاری کے بھلےبرے پر ظاہر کی گئی رائے کو اڈانی گروپ کے ذریعے ہتک عزت کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟

The-Wire-Adani

پچھلے ہفتہ اڈانی گروپ نے دی وائر کی ویب سائٹ پر شائع ایک مضمون کو ہٹانے کی مانگ کرتے ہوئے اس کے خلاف 100 کروڑ روپے کا ایک سول ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا۔ ساتھ ہی اس مضمون کو اڈانی گروپ کی توہین کرنے والا بتاتے ہوئے اس موضوع پر آگے کوئی اسٹوری چھاپنے سے روک لگانے کی مانگ بھی کی۔

اس مضمون میں اڑیسہ میں اڈانی گروپ کے ذریعے حمایت یافتہ ایک ایل این جی ٹرمینل منصوبہ میں انڈین آئل کارپوریشن (آئی او سی) اور گیس اتھارٹی آف انڈیا لمیٹیڈ (گیل) جیسی پبلک سیکٹر کمپنیوں کے ذریعے 49 فیصد اکویٹی سرمایہ کاری کے فیصلے کی اقتصادی سمجھداری پر سوال اٹھایا گیا ہے۔

اسی طرح سے آئی او سی نے الگ سے گجرات میں جی ایس پی سی ایل این جی نام کے ایک ایل این جی ٹرمینل میں بھی 50 فیصد کی حصےداری خریدی ہے۔ یہ اڈانی گروپ اور گجرات اسٹیٹ پیٹرولیم کارپوریشن (جی ایس پی سی) کے درمیان کاایک مشترکہ بزنس ہے۔

دی وائر کا مضمون ایک سیدھا سا اور کسی کے بھی دل میں فطری طور پر اٹھنے والا سوال پوچھتا ہے : پبلک سیکٹر کی کسی کمپنی کو ٹیکس دہندگان کا پیسہ کسی منصوبہ کی 49 فیصد حصےداری خریدنے میں کیوں خرچ کرنا چاہیے، جبکہ وہ 51 فیصد حصےداری لےکر اس کے پورے مینجمنٹکو اپنے ہاتھوں میں لے سکتی تھی۔

49 فیصد حصےداری خریدنے کے بعد بھی اس منصوبہ کا کنٹرول نجی کھلاڑی کے ہاتھوں میں رہنے دینا یقینی طور پر یہ سوال اٹھاتا ہے کہ آخر اس سے حکومت یا اس پبلک سیکٹر کی کمپنی کو کیا حاصل ہو رہا ہے؟آئی او سی کے ایک سابق صدر، جو اپنے نام کو اجاگر کرنا نہیں چاہتے تھے، نے دی وائر کو بتایا کہ اڈانی کے منصوبہ میں کسی قسم کا انتظاماتی کنٹرول لئے بغیر 49 فیصد حصےداری خریدنے سے آئی او سی کو کوئی پالیسی کی بنیاد پر فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔

ہمارا یہ ماننا ہے کہ ان کا نظریہ کافی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ انہوں نے آئی او سی کے اعلیٰ عہدے پر کام کیا ہے اور وہ بھی کمپنی کے مفادات کو اتنی ہی اچھی طرح سے سمجھتے ہیں، جتنی اچھی طرح سے موجودہ نظام سمجھتا ہے۔سوال ہے، کسی سرمایہ کاری سے ہونے والے فائدوں یا اس کی خامیوں کے بارے میں محض اپنی رائے رکھنا اس منصوبہ پر پورا کنٹرول رکھنے والے پرائیویٹ پارٹنر اڈانی گروپ کی ہتک عزت کرنے والا کیسے مانا جا سکتا ہے؟

ویسے بھی، کسی بھی نظریہ سے ان سرمایہ کاری کے فائدے کو لےکر اٹھنے والے سوالوں کا جواب دینے کی ذمہ داری حکومت ہند یا پیٹرولیم اور قدرتی گیس وزارت کی ہی بنتی ہے، نہ کہ کسی اور کی، اس لئے اس معاملے میں اڈانی گروپ کے ذریعے دی وائر کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرنا تھوڑا عجیب ہے۔

اس کے ساتھ ہی یہ بھی دھیان میں رکھا جانا چاہیے کہ پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ منصوبوں پر، خاص طورپر اگر وہ بنیادی ڈھانچے کے شعبے کے ہوں، میڈیا میں باقاعدہ بحث ہوتی رہی ہیں۔ایسا ان منصوبوں کی پیچیدگی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے اور اس سبب بھی ہوتا ہے کہ سی اے جی جیسے آئینی اداروں کے علاوہ دیگر سرکاری آڈیٹروںکے ذریعے بھی ان کی تفتیش باقاعدہ طور پر اور ضروری طریقے سے ہوتی ہے۔

حال کے برسو ں میں سڑکیں، ہوائی اڈے، تیل کی کھوج اور بنیادی ڈھانچے سے متعلق پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ منصوبوں پر میڈیا میں کافی کچھ لکھا گیا ہے اور ان پر اچھی خاصی بحث بھی چلی ہیں۔اس لئے ہمارا یہ ماننا ہے کہ پبلک سیکٹر کی تیل کمپنیوں کی سرمایہ کاری کو لےکر اٹھائے گئے کچھ سوالوں کے جواب میں اڈانی گروپ کے ذریعے دائر کیا گیا سول ہتک عزت کا مقدمہ اس موضوع پر صلاح و مشورہ اور مباحث کو روکنے کی  ایک کوشش ہے۔

دلچسپ یہ ہے کہ میڈیا کا گلا گھونٹنے کی یہ کوشش ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب کئی بڑے کارپوریٹ گروپ بھاری قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور بینکوں سے پیسہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ نقد کے ڈھیر پر بیٹھی پبلک سیکٹر کی کمپنیاں، خاص طور پر تیل شعبے کی کمپنیاں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی کمی کی بھرپائی کر رہی ہیں اور کئی معاملوں میں ایسی سرمایہ کاری نجی شعبے کے ساتھ ساجھےداری میں ہو رہی ہیں۔

لیکن ہمارے ذریعے اٹھایا جانے والا سوال یہ ہے کہ آخر یہ سرمایہ کاری کس طرح کی شرطوں پر ہو رہی ہے؟ یہ ایک بےحد جائز سوال ہے۔ اس کو ہتک عزت کرنے والا قرار دینا، بڑی رقم والی ہتک عزت کے مقدموں سے ڈرانے کی نئی حکمت عملی کی ہی ایک اور مثال نظر آتی ہے۔ انگریزی میں جس کو سلیپ(اسٹریٹجک لا سوٹ اگینسٹ پبلک پارٹ سپیشن یعنی عوام شراکت داری کو روکنے کے لئے حکمت عملی کے تحتمقدمےبازی) کا نام دیا گیا ہے۔

میڈیا کو ڈرانے اور حکومت اور بڑے پیشہ۔ورانہ سوالوں کے درمیان سانٹھ۔گانٹھ کو لےکر پریشان کرنے والے سوالوں کو عوامی بحثوں سے دور رکھنے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر ‘ سلیپ ‘ کا استعمال پہلے کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ  کیا جا رہا ہے۔میڈیا کے ذریعے ٹیکس دہندگان کے پیسے کے پبلک-پرائیویٹ منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کو لےکر حکومت سے جواب مانگے جانے پر کارپوریٹ گروپوں کے ذریعے ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرنا، بلاشبہ بےحد حیران کرنے والا ہے۔

میڈیا کے پاس مفاد عامہ سے جڑے معاملوں میں حکومت اور کارپوریٹ گھرانوں سے سوال پوچھنے کا پورا حق ہے۔ کبھی کبھی کارپوریٹوں کے ذریعے رپورٹنگ کی ویسی چھوٹی-موٹی چوک کو کافی طول دیا جاتا ہے، جو اصل میں میڈیا کے ذریعے اٹھائے گئے اصلی سوال کا مرکزی حصہ نہیں ہوتا۔

اس تناظر میں  ہتک عزت کے مقدمہ میں سپریم کورٹ کا حالیہ تبصرہ کافی اہم ہے۔ سپریم کورٹ نے زبانی طور پر اس بات پر زور دیا کہ میڈیا کو اظہار کی آزادی کا پوری طرح سے استعمال کرنا چاہیے اور کسی گھوٹالہ یا اس میں شامل لوگوں کی رپورٹنگ کے دوران ہوئی چھوٹی-موٹی چوک کو ہتک عزت کرنے والا نہیں کہا جا سکتا ہے۔