خبریں

اے ایم یو میں دہشت گردی، جگنیش کی پریس کانفرنس  اور مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کا سچ

سال نو کی شروعات پر ہی دی ریپبلک ٹی وی نے کئی ہنگامہ خیز خبریں اپنے چینل پر چلائی ہیں اور ٹوئٹر پر ٹرینڈ شروع کیے ہیں ۔

fake_AMU

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)کے طالب علم  منان بشیر وانی کے مبینہ طور پر دہشتگرد تنظیم حزب المجاہدین میں شامل ہونے کی خبروں کے بعد ایک خبر میڈیا میں یہ چلائی گئی کہ منان کے روم پارٹنر مزمل حسین بھی  گمشدہ ہیں ! ٹائمز آ ف انڈیا ، فرسٹ پوسٹ ،  اے بی پی نیوز،  اور نیوز ایکس جیسے ذمہ دار اداروں نے اس خبر کو کثرت سےشائع کیا۔ علی گڑھ کے مقامی اخبارات نے بھی خوب زہر اگلا  اور یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی کہ مزمل حسین کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا جائے ! سب سے پہلے فری پریس کشمیر ویب سائٹ نے اس فیک نیوز کی تردید میں خبر شائع کی۔

اس کے بعد الٹ نیوز نے واضح کیا کہ مزمل حسین نے مسلم یونیورسٹی سے ماسٹرز کی سند حاصل کرنے کے بعد ریسرچ میں داخلہ لیا تھا لیکن بیچ میں ہی وہ پی ایچ ڈی چھوڈ کر ناگپور چلے گئے اور ایک مائننگ کمپنی میں ملازم ہو گئے ۔الٹ نیوز نے یہ بھی واضح کیا کہ مزمل حسین نے اپنے چیئرمین اور اپنے سپروائزر کوپہلے ہی مطلع کیا تھا لیکن میڈیا نے بنا کسی بنیاد پر انکی زندگی کے ساتھ مذاق کرنے کی بری کوشش کی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، باراملا  پولیس اور علی گڑھ کے ایس پی اتل شریواستو کے انکشاف کے بعد بھی ٹائمز اف انڈیا اور دوسرے پورٹلوں نے اس خبر کو ڈیلیٹ نہیں کیا ہے ، یہ میڈیا کی بد عنوانی کی زندہ مثال ہے !

Fake_Jignesh_Republic

سال نو کی شروعات پر ہی دی ریپبلک ٹی وی نے کئی ہنگامہ خیز خبریں اپنے چینل پر چلائی ہیں اور ٹوئٹر پر ٹرینڈ شروع کیے ہے ۔ ہم ان میں سے ایک اہم فیک نیوز کی بات کر رہے ہیں جو ریپبلک ٹیوی کے مطابق ان کی اہم ترجیحات میں تھی۔ ریپبلک نے دعویٰ کیا کہ 5 جنوری کو ہونے والی جگنیش میوانی کی کانفرنس کو کانگریس  پارٹی منعقد کر رہی ہے اور اس میں راہل گاندھی خود  ملوث ہیں ! ریپبلک کے چیف ایڈیٹر ارنب گوسوامی نے خود اس خبر کو اپنے چینل پر پیش کیا، انہوں نے ٹوئٹر پر بھی  CongSponsorsJignesh # کا ٹرینڈ چلایا ! ان کا دعویٰ تھا کہ راہل گاندھی کے قریبی شخص النکار سوائی نے جگنیش کی پریس کانفرنس کا اہتمام کیا ہے جو دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں ہونی تھی۔

ارنب گوسوامی کا یہ دعویٰ اس وقت خارج ہو گیا جب الٹ نیوز میں اپنی تحقیق سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔ معلوم ہوا کہ پریس کلب میں جگنیش کی کانفرنس کے لئے بکنگ کرنے والے شخص کا نام رضا حیدر ہے۔ رضا حیدر فری لانس صحافی ہیں جو دہلی میں مقیم ہیں ، رضا حیدر پریس کلب آف انڈیا کے ممبر بھی ہیں، جس کی وجہ سے ہی جگنیش نے انکو فون کرکے کہا تھا کہ وہ  پریس کلب میں 5  جنوری کی بکنگ کر دیں ۔ الٹ نیوز نے بکنگ کی رسید اور اس میں بکنگ کی رقم کو بھی عام کیا جو6825   روپے ہے ۔ الٹ نیوز نے کانگریس پارٹی کے دفتر میں بھی فون کیا اور رندیپ سرجیوالا نے ریپبلک ٹی وی کو خارج کر دیا۔

fake_Aadhar

4 جنوری کو ٹریبیون اخبار نے آدھار کارڈ کے تعلق سے ایک اہم خبر شائع کی تھی۔ ٹریبیون کی صحافی  رچنا کھیرا  نے لکھا تھا کہ صرف 500 روپے کی معمولی سی قیمت پر ملک کے لاکھوں لوگوں کا ڈیٹا چرایا اور بیچا جا سکتا ہے، اور سرکار ڈیٹا کی حفاظت جو دعوے کرتی ہے، وہ جھوٹے ہیں ! خبر کے شائع ہونے کے بعد حکومت کے وزیر برائے الیکٹرانکس و ای ٹی روی شنکر پرساد نے کہا کہ حکومت میڈیا کی آزادی کے لئے فکرمند ہے اور آدھار ڈیٹا میں جو بھی خامیاں نظر آئیں ہیں اسکے تعلق سے نامعلوم افراد کے خلاف رپورٹ درج کی جا چکی ہے ۔ روی شنکر نے یہ بات اپنے ٹوئٹر کے ذریعے کہی تھی جس کی حقیقت اس کے برعکس تھی۔ دراصل جو رپورٹ درج کی گئی تھی اس کے پہلے ورق پر نا معلوم افراد کی بات درج ہے لیکن اس کے دوسرے ورق پر ٹریبیون اخبار اور صحافی رچنا کا نام صاف طور پر لکھا گیا ہے۔ معمول کے حساب سے میڈیا کو ایسی ایف آئی آر میں گواہ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس رپورٹ میں میڈیا کو ہی مجرم قرار دے دیا گیا تھا اور یہ لکھا گیا تھا کہ ٹریبیون اور رچنا براہ راست آدھار ڈیٹا کی چوری میں ملوث پاے گئے ہیں !

بھیما کورےگاؤں معاملے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک تصویر بہت وائرل ہوئی اور تصویر کو وائرل کرنے میں زعفرانی فکر کی ویب سائٹوں اور افراد کا اہم کردار رہا۔ تصویر میں دکھایا گیا کہ بھیما کورےگاؤں ریلی میں پاکستانی پرچم بھی نظر آرہا ہے۔ ان پرچموں کو فوراً پاکستان سے جوڑکر یہ رنگ دے دیا گیا کہ بھیما کورےگاؤں میں ہندوستانی دلتوں کا مظاہرہ وطن مخالف تھا !سب سے پہلے یہ کام پوسٹ کارڈ نیوز کے مہیش ہیگڈے نے اپنے ٹوئٹ میں کیا۔ الٹ نیوز نے اس پر اپنی تحقیق میں یہ پایا کہ وہ پرچم پاکستان کے نہیں تھے، بلکہ وہ سبز رنگ کے عام پرچم تھے جن پر چاند اور ستارہ بنا ہوتا ہے اور اکثر مسلمان گھروں میں موجود ہوتا ہے۔

fn_BhiamaKoreGaon

پچھلے دنوں مرکزی وزیر گریراج سنگھ نے یہ بیان دیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور آبادی میں اضافہ کرکے ملک پر قبضہ کرنے کا یہ طریقہ ہندوستانی سماج کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ! ایسا ہی ایک بیان راجستھان کے بنواری سنگھل نے بھی دیا تھا۔ حکومت میں بیٹھے ذمّہ دار لوگوں کو اس طرح کے فرقہ پرست بیان دینے سے بچنا چاہیے !  بوم لائیو نے اپنی تفتیش میں پایا کہ گریراج کے یہ دعوے حقیقت کے برعکس ہیں. حقیقت یہ ہے کہ ہندو اور مسلمانوں دونوں میں فرٹیلٹی پچھلے بیس سال میں برابر ی سے کم ہوئی ہے   اور جس طرح کا ڈر اور خوف کا ماحول گریراج اکثریت طبقے میں پھیلا رہے ہیں وو قابل غور ہے !

(مضمون نگار علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں ریسرچ اسکالر ہیں )