فکر و نظر

گاندھی کا آخری اپواس

آزادی کے بعد دلی میں خون خرابے کا سلسلہ جاری تھا ۔اس کی مخالفت میں گاندھی جی نے 12جنوری 1948کو اعلان کیا کہ وہ اگلے دن یا 13جنوری کو اپواس شروع کریں گے۔

Photo: PTI

Photo: PTI

دسمبر کا مہینہ۔  دہلی میں ٹھنڈ ابھی دستک دے رہی تھی اور دھوپ میں بیٹھنا اچھا معلوم ہوتا تھا۔ سامنے تین نوجوان تھے۔  ہندوستانی کہنا کافی نہیں۔  وہ مسلم نوجوان تھے۔  پہلی ملاقات میں یہ سوال اٹ پٹا تھا لیکن میں نے پوچھا، ” ہندوستان کے مسلم نوجوانوں کی پہلی فکر کیا ہے؟ “

“تحفظ “، کچھ دیر کی خاموشی کے بعد جواب آیا۔  ایسا نہیں کہ جواب میرے لئے خلافِ توقع ہو۔  پھر بھی جھٹکا لگا۔  معلوم ہے کہ ہندو نوجوان ہوتے تو اس سوال کا یہ جواب نہ ہوتا۔ تعلیم یا نوکری، یہی کہتے وہ۔  دلت ہوں تو کہیں‌گے، برابری اور عزت۔  لیکن مسلمانوں کے لئے یہ دوسرے درجے کی ضرورتیں ہیں۔ تحفظ ان کی ترجیح ہے۔

ان میں سے ایک نے اس کو سمجھاتے ہوئے ممبئی سے دہلی کے اپنے ریل سفر کے بارے میں بتایا۔ گجرات کا انتخاب ختم ہوا تھا، نتیجے آ چکے تھے اور جیسی ہندوستانی عادت ہے، پرجوش طریقے سے اس ڈبے میں بھی گجرات کے نتیجوں پر بحث گرم تھی۔ ” اس بحث میں میری کئی بار خواہش ہوئی حصہ لینے کی لیکن ہر بار میں نے خود کو قابو کیا۔  مجھے لگا کہ وہاں میری اپنی رائے ظاہر کرنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ ” ، اس نوجوان نے کہا۔یہ نوجوان ہندوستان کی آزادی کے  70ویںسال اس ملک میں اپنی جگہ کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ ایک مسلمان کے طور پر ہندوستان میں زندہ رہنا، یا محفوظ رہنا اب ایک اتفاق ہے۔  جو دلّی میں بیٹھے یہ نوجوان سوچ رہے تھے وہی بنگال سے راجسمند آئے تقریباً ناغیر تعلیم یافتہ مسلمان مزدور بھی کہہ رہے تھے۔

افرازل جب بنگال سے دور راجستھان کے راجسمند میں مزدوری کرنے آیا تو اس یقین کے ساتھ کہ ہندوستان میں ہر شہری کو کہیں بھی آنے جانے اور کام کرنے کی آزادی ہے۔ لیکن تقریباً مہینہ بھر پہلے جب اس کو کام دینے کے نام پر بلاکر شمبھوناتھ نے قتل کر دیا تو وہاں رہ رہے باقی مسلمان مزدوروں کا بھروسہ اٹھ گیا۔ وہ سب اپنے لوگوں کے درمیان لوٹ گئے۔  راجستھان، راجسمند، ہندوؤں کا پڑوس ان کے لئے اب محفوظ جگہ نہیں رہ گئی تھی۔

18 ستمبر کی شام۔  گاندھی جی دلّی کے دریاگنج میں ہیں۔  گھر اور دوکانیں بھائیں بھائیں کر رہی ہیں۔ کئی کو لوٹ لیا گیا ہے۔  اجڑی ہوئی گلیوں سے گزرتے ہوئے گاندھی جی آصف علی کے گھر پہنچتے ہیں۔ سو ایک مسلمان جمع ہیں۔  ہم ہندوستان میں ہی رہنا چاہتے ہیں، اس کے وفادار شہریوں کی طرح۔  لیکن تحفظ کی گارنٹی چاہیے۔

گاندھی جواب دیتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ اعلان کر دینا چاہیے کہ وہ کسی بھی صورت میں اپنے گھر چھوڑ‌کر نہیں جائیں‌گے۔ ان کا محافظ خدا ہے۔ لیکن وہ خود تب تک چین سے نہیں بیٹھیں‌گے جب تک ہندستان میں رہنے کے خواہش مند ہر مسلمان واپس اپنے گھر تحفظ اور امن کے احساس کے ساتھ نہیں لوٹ آتا۔

گاندھی نے کہا کہ وہ دراصل پاکستان کے پنجاب کے راستے میں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایسے حالات قائم ہوں کہ جو ہندو اور سکھ وہاں سے گھر بار چھوڑنے کو مجبور ہوئے تھے، وہ واپس اپنی جگہ لوٹ سکیں۔  لیکن بیچ راستے میں ان کو دلّی میں رکنا پڑا ہے۔  وہ تب تک دلّی نہیں چھوڑیں‌گے جب تک یہاں امن بحال نہیں ہو جاتا اور ہر مسلمان محفوظ محسوس نہیں کرتا۔

9 ستمبر، 1947 کو دلّی پہنچتے ہی گاندھی نے فیصلہ کر لیا۔  وہ کلکتہ سے آ رہے تھے اور ارادہ پاکستان کے پنجاب جانے کا تھا۔ ان کو شاہدرا اسٹیشن پر لینے آئے تھے ولّبھ بھائی پٹیل، راج کماری امرت کور اور کچھ دوسرے لوگ۔  سردار کا چہرہ بجھا ہوا تھا۔  ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں تھی۔ دلّی پر بھی پژمردگی چھائی ہوئی تھی۔

گاندھی نے وہی کیا جو نواکھالی اور کلکتہ میں کیا تھا۔ سبزی منڈی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، پرانا قلعہ، ہمایوں کا مقبرہ، دیوان ہال رفیوجی کیمپ، واویل کینٹین کیمپ، کنگسوے کیمپ، جامع مسجد، ریج، عیدگاہ، موتیاخان۔ 80چھو رہا وہ بوڑھا روز روز انسانی بےرحمی کی نئی نئی نشانیوں کو دیکھنے، اپنی روح پر نئے نئے زخم لینے ان تمام جگہوں کا چکر لگاتارہا۔

14 ستمبر کو گاندھی نے اپنے دعائیہ جلسہ میں عید گاہ اور موتیاخان کے کیمپ کے اپنے دورے کا ذکر کیا۔ ایک بہت ہی بوڑھا آدمی ملا جس کے جسم پر صرف چمڑا اور ہڈی تھی۔  اس کو کئی جگہ چاقوؤں سے مارا گیا تھا۔  اس کے بغل میں ایک عورت بھی ویسے ہی زخمی پڑی تھی۔  ان کا سر شرم سے جھک گیا۔

پاکستان سے سب کچھ لٹاکر آئے ہندو اور سکھ پناہ گزین غصے میں جل رہے تھے۔ گاندھی کی یہ اپیل ان کی سمجھ سے پرے تھی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو حفاظت اور عزت سے رہنے کا حق ہے۔  ادھر ڈان اخبار اس سے چڑھا ہوا تھا کہ گاندھی روز روز جنّاح اور لیاقت علی خان سے یہ کیوں پوچھ رہے تھے کہ پاکستان میں ہندوؤں اور سکھوں کی حفاظت کے ان کے وعدے کا کیا ہوا۔  اخبار ان کو یہ کہہ رہا تھا کہ ہندوستان میں۔  مسلمان محفوظ نہیں ہیں اور گاندھی اور ان کے دوستوں کو ان کی فکر کرنی چاہیے۔

گاندھی نے ڈان کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ تو صرف جنّاح اور لیاقت صاحب کو ان کی بات کی یاد دلا رہے ہیں۔  یہ صاف ہے کہ پاکستان کے افسر اقلیتی ہندوؤں اور سکھوں کی حفاظت میں ناکام رہے ہیں۔ وہ نہرو اور پٹیل کی حکومت کے بارے میں اتنا کہہ سکتے ہیں کہ وہ یہاں مسلمانوں کے تحفظ کے لئے جو کر سکتے ہیں، ایمانداری سے کر رہے ہیں۔

14 ستمبر کی رات بارش ہوئی۔  اگلی شام اپنےدعائیہ جلسہ میں گاندھی نے کہا، ” کل رات جب بارش کی بوندوں کی آواز آئی، جو کسی اور موقع پر کانوں کو پیاری سی معلوم پڑتی ہے، جاں فزااور خوش کن ؛ میرا دل دلّی کے کھلے کیمپوں میں پڑے ہوئے ہزاروں ہزار پناہ گزینوں کی طرف چلا گیا… کچھ جگہوں پر تو وہ گھٹنے گھٹنے پانی میں ہوں‌گے۔ “

” کیا یہ سب کچھ یقینی تھا؟ ”  ، گاندھی نے پوچھا اور خودہی جواب دیا، ” نہیں۔ “

پاکستان سے ضرور سوال کیا جانا چاہیے لیکن کس منھ سے؟  دلّی کے ہندو اور سکھ جو یہاں کے مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں وہ پاکستان سے انصاف مانگنے کے کام کو مشکل بنا رہا ہے۔

جو انصاف چاہتے ہیں، ان کو انصاف کرنا چاہیے، ان کے ہاتھ صاف ہونے چاہیے۔  ہندو اور سکھ اگر ان مسلمانوں کو واپس بلا سکیں جن کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا ہے تو یہ بڑی بہادری کی بات ہوگی۔  اگر پاکستان سے ہندوؤں اور سکھوں کو ہندوستان آنے پر مجبور ہونا پڑا ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ ہندوستان سے مسلمان ادھر نہ جائیں۔

گاندھی کی بات کو غصہ اور نفرت کے درمیان سمجھنا مشکل تھا۔  دلّی میں خوں ریزی رک نہیں رہی تھی۔  سڑکوں پر گاندھی مردہ باد کے نعرے سنے جا سکتے تھے۔  کناٹ پلیس کی مسجد میں مورتیاں رکھ دی گئی تھیں اور مہرولی کی درگاہ پر قبضہ کر لیا گیا تھا۔

ذاکر حسین نے بنا کسی تلخی کے بتایا تھا کہ کیسے ان پر جان لیوا حملہ ہوا اور اگر ایک سکھ اور ہندو نہ ہوتے تو ان کا بچنا ناممکن تھا۔گاندھی کے دعائیہ جلسہ میں قرآن کی آیتیں پڑھنے پر اعتراض ہوا اور انہوں نے دعا روک دی۔  آخر وہ ایک روحانی پیغام کو کسی پر بھی کیسے تھوپ سکتے تھے؟

” کروں یا مروں “۔  دلّی آتے ہی گاندھی نے یہ فیصلہ کر لیا تھا۔  کیا جو کیا جانا تھا، پورا کیا جا چکا تھا؟  گاندھی کی انسانیت کی سادی آواز ان سنی ان کے پاس لوٹ رہی تھی۔گاندھی اپنے اندر لوٹ گئے۔  اپنی اس ننھی آواز کو توجہ سے سننے جو جانے کب سے ان کو بلا رہی تھی لیکن اس کی طرف سے انہوں نے کان بند کر رکھے تھے کہ کہیں وہ شیطان کی آواز نہ ہو!

12 جنوری، 1948۔ اپنے روزانہ کے دعائیہ جلسہ میں گاندھی نے اعلان کیا کہ اگلی صبح سے وہ غیرمتعینہ اپواس کریں ۔  ان کا فیصلہ ہو چکا تھا۔  ان کے لوگوں نے ان کو سننے سے انکار کر دیا تھا۔  وہ ناکام ثابت ہوئے تھے۔  لیکن کیا ان کو خود کو لاچار محسوس کرنا چاہیے؟عدم تشدد جس کا اصول ہو اس کے پاس تلوار کی جگہ اس کا جسم ہی ہے۔  ہرطرف وہ ناکام ہو جانے کے بعد گاندھی نے اپنے جسم کو داؤ پر لگانے کا فیصلہ کیا۔گاندھی کے اس اپواس کی خبر نے سنسنی پھیلا دی۔  ان کے قریبی دوست بھی ان کے فیصلے سے ناواقف تھے۔

گاندھی کے بیٹے دیوداس گاندھی نے والد سے عدم اتفاق کرتے ہوئے لکھا کہ وہ خود سب کو صبر کی نصیحت دیتے رہے تھے لیکن آج وہ خود بیقراری کے شکار ہو گئے معلوم پڑتے ہیں۔  ابتک زندہ رہ‌کر انہوں نے لاکھوں مسلمانوں کی جان بچائی ہے۔  اگر وہ زندہ رہیں‌گے اور تو لاکھوں بچیں‌گے۔  لیکن اگر اس اپواس میں وہ نہیں بچے تو پھر ان کے مشن کا کیا ہوگا!

گاندھی نے اپنے بیٹے کو اپنا خیرخواہ دوست کہتے ہوئے یہ ماننے سے انکار کیا کہ روزے کا ان کا فیصلہ ہڑبڑی کا تھا۔  یہ جلدبازی میں لیا گیا فیصلہ معلوم پڑتا ہے لیکن اس کے پیچھے چار دنوں کے غور و فکر کانتیجہ تھا۔

جو ان کی جان کی فکر کرتے ہیں لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کی حفاظت سے گریز کرتے ہیں ان کو گاندھی نے کہا کہ ان کا مرنا بہتر ہے اس کی جگہ کہ وہ اس طرح ہندوستان، ہندو اور سکھ مذہب اور اسلام کی بربادی دیکھنے کو زندہ رہیں۔اپواس ان کا تبھی ٹوٹے‌گا جب ان کو یقین ہو جائے کہ ہندوؤں اور سکھوں نے بنا کسی زبردستی کے مسلمانوں کو حفاظت اور عزت سے دلّی میں رہنے کا بھروسہ دلایا ہے۔

کیا گاندھی کی بات سنی جائے‌گی؟  کیا ان کے اپواس کا کوئی نتیجہ ہوگا؟  گاندھی نے کہا کہ سچے دل سے کیا گیا اپواس اپنا انعام خود ہے۔  اپواس کے فیصلے سے ان کو فوراً راحت ملی اور وہ اس خوفناک اتھل پتھل سے نکل آئے جو ستمبر سے ان کے دل میں چل رہی تھی۔  اپنے بیٹے کو انہوں نے کہا کہ ایشور نے یہ اپواس ان کو سجھایا ہے۔  وہی اس کو ختم کر سکتا ہے، اگر اس نے چاہا اور جب چاہا میرے لئے صرف یہ دعا کرو کہ میں جینے کے لالچ کا شکار ہوکر بیچ میں اپواس توڑ نہ دوں۔

13 جنوری کو دوپہر ان کے اپواس کا آغاز ہوا۔  اس کے پہلے انہوں نے اپنا روزانہ کا کام کاج نمٹایا۔  نہرو، پٹیل اور آزاد کا، ان سے  صلاح مشورہ ہوا۔  بڑلا ہاؤس کے میدان میں کچھ لوگ جمع تھے۔  ان کا من پسند بھجن ” ویشنو جن ” کے ساتھ ” when I survey the wondrous cross ” گایا گیا اور پھر قرآن، گرو گرنتھ صاحب سے آیت اور وچن پڑھے گئے۔

گاندھی کا اپواس اس طرح شروع ہوا جو ان کا آخری اپواس ثابت ہونے والا تھا۔