حقوق انسانی

کیا روہنگیا مہاجرین کی میانمار واپسی ممکن ہو سکے گی؟

بنگلہ دیش میں موجود روہنگیا مہاجرین کی میانمار واپسی کے حوالے سے میانمار اور بنگلہ دیش کے حکام نے مذاکرات کیے ہیں۔ تاہم اس بارے میں شکوک پائے جاتے ہیں کہ آیا ان مسلم اقلیتی مہاجرین کی واپسی ممکن ہو سکے گی؟

میانمار کی فوج پر اس کریک ڈاؤن کے دوران بہت سی روہنگیا مسلم خواتین کے ریپ کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں

میانمار کی فوج پر اس کریک ڈاؤن کے دوران بہت سی روہنگیا مسلم خواتین کے ریپ کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں

خبررساں ادارے اے ایف پی نے بنگلہ دیشی حکام کے حوالے سے پندرہ جنوری بروز پیر بتایا کہ میانمار اور بنگلہ دیشی حکام نے روہنگیا مہاجرین کی میانمار واپسی کے حوالے سے مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کے باعث ساڑھے چھ لاکھ سے زائد روہنگیا باشندے میانمار سے بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

عالمی دباؤ کی وجہ سے میانمار کی حکومت نے عہد ظاہر کیا ہے کہ وہ ان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کرے گی۔ تاہم کہا گیا ہے کہ ان مہاجرین کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ راکھین ریاست سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔

امدادی اداروں نے کہا ہے کہ بہت سے روہنگیا مسلمان افراد کے لیے یہ ثابت کرنا مشکل ہو گا کہ ان کا تعلق میانمار کے مغربی صوبے راکھین سے ہی ہے۔ اس تناظر میں یہ امر اہم ہے کہ ان روہنگیا افراد کو میانمار کی شہریت حاصل نہیں ہے اور بہت سے روہنگیا افراد کے لیے یہ شواہد فراہم کرنا مشکل ہو سکتا ہے کہ وہ گزشتہ برس شروع ہونے والے ریاستی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ہی میانمار سے نکل کر بنگلہ دیش گئے تھے۔

دوسری طرف بہت سے روہنگیا مہاجرین نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا ہے کہ وہ دوبارہ راکھین نہیں جانا چاہتے کیونکہ وہاں ان کے گھر بار اور ملازمت کے مواقع ختم کیے جا چکے ہیں۔ یہ مہاجرین خوفزدہ ہیں کہ اگر وہ واپس گئے تو انہیں ایک مرتبہ پھر تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

Rohingya_Reutures

میانمار اور بنگلہ دیش کے حکام نے تصدیق کر دی ہے کہ پیر کے دن دونوں ممالک کے نمائندوں نے میانمار کے دارالحکومت نیپیداو میں ملاقات کی، جس میں روہنگیا مہاجرین کی میانمار واپسی سے متعلق مذاکرات کیے گئے۔ ان دونوں ممالک نے گزشتہ برس نومبر میں ایک ڈیل کو حتمی شکل دی تھی، جس کے تحت تئیس جنوری سے ان مہاجرین کی بنگلہ دیش سے واپسی کا عمل شروع کیا جانا ہے۔ اس ڈیل کے تحت اکتوبر سن دو ہزار سولہ کے بعد میانمار سے بنگلہ دیش جانے والے روہنگیا مہاجرین کی واپسی ممکن بنانے کی کوشش کی جائے گی۔

یہ امر اہم ہے کہ اس ڈیل کے تحت اُن دو لاکھ روہنگیا مہاجرین کی وطن واپسی کی کوشش نہیں کی جائے گی، جنہوں نے سن دو ہزار سولہ سے پہلے بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کی تھی۔ گزشتہ ماہ ہی ڈھاکا حکومت نے بتایا تھا کہ ایک لاکھ روہنگیا مہاجرین کے کوائف میانمار کے حوالے کر دیے گئے تھے تاکہ ان کی وطن واپسی کا عمل شروع کیا جا سکے۔ میانمار نے البتہ ابھی تک عوامی سطح پر یہ تسلیم نہیں کیا کہ ان مہاجرین کی واپسی کے لیے اقدامات شروع کیے جا چکے ہیں۔

تاہم میانمار کی سرپرستی میں چلنے والے ادارے ’گلوبل نیو لائٹ‘ نے پیر کے دن کہا ہے کہ حکومت روہنگیا مہاجرین کی واپسی کی خاطر اقدامات کر رہی ہے اور اس تناظر میں راکھین میں 124 ایکڑ رقبے پر قریب تیس ہزار افراد کے لیے عارضی پناہ گاہیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان 645 عارضی شیلٹر ہاؤسز میں واپس میانمار پہنچنے والے روہنگیا باشندوں کو ٹھکانہ میسر آ سکے گا۔ اس ادارے کے مطابق ساتھ ہی یہ کوشش بھی کی جائے گی کہ جلد ہی ان افراد کو رہائش اور روزگار کے مستقل مواقع بھی فراہم کیے جائیں۔