خبریں

اہم مدعوں کی سماعت کے لئے آئینی بنچ کی تشکیل، چیف جسٹس کی تنقید کرنے والے جج شامل نہیں 

 چیف جسٹس  دیپک مشرا کی صدارت میں ہوئی بنچ کی تشکیل۔  17 جنوری کو بنچ اہم معاملوں کی سماعت شروع کرے‌گی۔

Photo: PTI

Photo: PTI

نئی دہلی : سپریم کورٹ میں اہم معاملوں کی سماعت کو لےکر چیف جسٹس دیپک مشرا اور چار سب سے سینئر ججوں کے درمیان ایک طرح سے اختلاف ابھرنے کے درمیان سپریم کورٹ نے سوموار کو سی جے آئی کی صدارت میں پانچ ججوں کی آئینی بینچ کی تشکیل کا اعلان کیا جس میں یہ چاروں جج شامل نہیں ہیں۔چاروں جج  جسٹس جےچیلمیشور، جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس مدن بی لوکور اور جسٹس کورین جوزف میں سے کسی کا نام پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے ممبروں میں نہیں ہے۔

سرکاری معلومات کے مطابق، پانچ ججوں کی بنچ میں سی جے آئی دیپک مشرا، جسٹس اے کے سیکری، جسٹس اےایم کھانولکر، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس اشوک بھوشن شامل ہیں۔  یہ آئینی بنچ17 جنوری سے کئی اہم معاملوں پر سماعت شروع کرے‌گی۔اس بیچ عدالت کے ذرائع نے کہا کہ اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی ہے کہ سی جے آئی نے سوموار کو ان چار ججوں سے ملاقات کی یا نہیں جنہوں نے 12 جنوری کو پریس کانفرنس میں سی جے آئی کے خلاف الزام لگائے تھے۔منگل کو  کام کی فہرست کے مطابق پانچ ججوں کی بنچ آدھار قانون کے آئینی جواز کو چیلنج دینے والے معاملے اور رضامندی سے بالغ لزبین کے درمیان جنسی تعلقات کو جرم کے زمرہ سے باہر رکھنے کے فیصلے کو چیلنج دینے سے جڑے اہم معاملوں میں سماعت کرے‌گی۔

انہیں ججوں نے گزشتہ سال 10 اکتوبر سے آئینی بنچ کے مختلف معاملوں میں سماعت کی تھی۔  ان میں انتظامی حقوق شعبے کو لےکر مرکز اور دہلی حکومت کے درمیان ٹکراؤ کا معاملہ بھی ہے۔بنچ کیرل کے سبری مالا مندر میں 10 سے 50 سال کی عمر کی خواتین کے داخل ہونے پر روک‌کے متنازع مدعے پر بھی سماعت کرے‌گی اور اس قانونی سوال پر سماعت پھر شروع کرے‌گی کہ کیا کوئی پارسی خاتون دوسرے مذہب کے آدمی سے شادی کے بعد اپنی مذہبی شناخت کھو دے‌گی۔

آئینی بنچ جن دیگر معاملوں کو دیکھے‌گی ان میں مجرمانہ مقدمہ کا سامنا کر رہے کسی عوامی نمائندہ کے نااہل ہونے سے متعلق سوال پر عرضیاں بھی ہیں۔ان تمام معاملوں کو پہلے عدالت  کی بڑی بنچوں کو بھیجا گیا تھا۔  منگل کا روزانہ کام کی فہرست کے مطابق جسٹس لویا کی موت کے معاملے میں تفتیش کی دو مفاد عامہ عرضیاں جسٹس ارون مشرا کی صدارت والی ایک بنچکے سامنے درج فہرست ہے جن کے خلاف ایک سینئر وکیل نے عوامی طور پر اعتراض کئے تھے۔