ادبستان

عینی آپا کے ہندوستان میں ہنومان بھی یا علی بولتے تھے

ادبی میدان میں عورت اور مرد کی تخصیص انھیں قطعی نا پسند تھی۔ عینی نے اپنی ساری زندگی عورت سے جڑےان ٹیبوز کو توڑا جس کے تحت عورت کمزور تصور کی جاتی ہے اور بغیر ہم سفر کے اس دنیا میں اس کا رہنا تقریباً ناممکن تصور کیا جاتا ہے۔

Photo: Dawn

Photo: Dawn

اپنے جاندار قہقہوں کے لیے جانی جانے والی قرۃالعین حیدر سے میری واقفیت ان کی تحریروں کے علاوہ  ایک لفظ “بوگس”سے جڑی ہے ۔ اپنے انٹرویوز میں وہ اسے خوب استعمال کرتی تھیں ۔یہ سب بوگس باتیں ہیں ،بوگس لوگ؛ دراصل بوگس باتیں بوگس لوگ انھیں پسند نہیں تھے۔مجھے یہ لفظ بنداس، حاضر جواب ،خوب قہقہے لگانے والی عینی کی شخصیت کو بہت سوٹ کرتا ہوا لگا۔ان کی تحریروں،انٹر ویوز کو پڑھتے ہوئےذہن میں ان کی جو تصویر بنتی تھی اس میں اس لفظ “بوگس”کا بھی کافی عمل دخل تھا۔

عینی آپا کے نام سے مشہور،حاضر جواب ،اور بے باک انداز کی مالک قرۃالعین حیدر(پ:20 جنوری28/1926و:21اگست 2007)علی گڑھ اتر پردیش میں پیدا ہوئیں۔ والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے جانے مانے فکشن نگار تھے۔والدہ بھی نذر سجاد حیدر کے نام سے لکھتی تھی۔اپنے گھرکے ادبی ماحول اور اپنی ابتدائی تخلیقی کاوشوں کے متعلق آصف فرخی کو دیے ایک انٹرویو میں کہتی ہیں؛

“ادب تو ہمارے لیے بالکل ایک گھریلو…گھر کی چیز تھی ۔اس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ میں بہت سوچ بچار کروں۔ کیا کہتے ہیں جیسے بطخ پانی میں تیرنا شروع کر دیتی ہے ایسے ہی میں نے لکھنا شروع کر دیا۔”

ابتدائی و ثانوی تعلیم دہرہ دون ،لاہور ،لکھنؤمیں ہوئی؛ ایم اے لکھنؤ یونیورسٹی سے کیا۔افسانہ،ناول، ناولٹ ،رپورتاژ،مضامین کے علاوہ ترجمے بھی کیے، بچوں کی کہانیاں بھی لکھیں؛اس میں ترجمےبھی شامل ہیں۔اپنی اردو تحریروں کےانگریزی ترجمے بھی خود کیے۔اس کے علاو ہ امپرنٹ اور السٹرٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں ملازمت کے دوران انگریزی میں بھی کافی کچھ لکھا۔ان کی تحریروں کے کئی زبانوں میں تراجم بھی کیے گئے۔عینی کے مطابق ان  کا‘فرسٹ لو لکھنے کے بجائےموسیقی تھی’۔لیکن ادبی میدان میں بھی انھوں نے مختلف رنگ کے گل بوٹے کھلائے۔میرے بھی صنم خانے،سفینہٴغم دل،آگ کا دریا،آخر شب کے ہم سفر،کار جہاں درازہے،گردش رنگ چمن،چاندنی بیگم، شاہ راہ حریر(ناول)،ستاروں سے آگے،شیشے کے گھر،پت جھڑ کی آواز، روشنی کی رفتار (افسانوی مجموعے)وغیرہ کے علاوہ ناولٹ، مضامین،خطوط،رپورتاژ ،تراجم پر مشتمل ایک بڑا ادبی ذخیرہ تخلیق کیا۔

فوٹو: نیادور

فوٹو: نیادور

قیام پاکستان کے بعد پاکستان چلی گئیں لیکن ناول ‘آگ کا دریا’ کی اشاعت کے بعد پاکستان میں رہنا ان کے لیے مشکل ہو گیا اور وہ واپس ہندوستان چلی آئیں۔1964سے68تک وہ امپرنٹ،بمبئی کی مینجنگ ایڈیٹر رہیں۔انگریزی ہفتہ وار“السٹرٹیڈویکلی آف انڈیا“کی مدیر معاون رہیں۔ہندوستان سمیت بیرون ملک کی کئی یونیورسٹیوں سےبطور وزیٹنگ پروفیسر وابستہ رہیں۔افسانوی مجموعے پت جھڑ کی آوازپر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔فراق گورکھپوری کے بعداردو میں گیان پیٹھ ایوارڈ پانے والی دوسری ادیب عینی ہیں ۔پدم شری،پدم بھوشن، بھارت گورو،اقبال سمان،غالب ایوارڈ کے علاوہ کئی اعزازات و انعامات سے نوازا گیا۔

اپنی تخلیقی دنیا میں ہندوستان کے مشترکہ کلچرکے علاوہ نوآبادیاتی کلچرکوموضوع بنانے والی عینی دراصل تہذیب و تمدن کے ملواں رنگوں کی شیدائی تھیں، انھیں مختلف کلچر سے محبت تھی شاید یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان میں نہیں رہ پائیں۔ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کے مختلف رنگوں نے انہیں یہیں کا بنا دیا۔کہتی ہیں؛

“مجھے بھی بچپن میں ہولی کھیلنے ،دیوالی کے دیے جلاکر گانے کا شوق تھا ـــ مجھے پیانو بجانے کا بھی شوق تھا۔ڈانس بھی کرتی تھی ــــپینٹنگ بھی کرتیـــفٹ بال کھیلتی تھیــــگانا بھی سننے کا شوق تھا۔”

یہی وہ کلچر بھی ہے جس میں عینی نے پرورش پائی، اس کے متعلق لکھتی ہیں؛

میرا بچپن مشرقی اضلاع میں گذرا جو رامائن کی سر زمین ہے جہاں ہر تیسرے آدمی کا نام رام اور تیسری عورت کا نام سیتا ہے۔

 شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں تہذیب و ثقافت کے ایسے نمونے ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں جن میں ہندوستان کی روح بستی ہے۔یہ دلکش تصویریں ہندوستان کے مشترکہ کلچر سے عبارت ہیں۔ وہ تصویریں جن کے رنگ اب مدھم پڑنے لگے ہیں؛

“مسلمان بچے برسات کی دعا مانگنے کے لیے منہ نیلا پیلا کیے گلی گلی ٹین بجاتے پھرتے اور چلاتے ——برسو رام دھڑاکے سے بڑھیا مر گئی فاقے سے۔ گڑیوں کی بارات نکلتی تو وظیفہ کیا جاتا —— ہاتھی گھوڑا پالکی —جے کنہیا لال کی ۔ مسلمان پردہ دار عورتیں جنھوں نے ساری عمر کسی ہندو سے بات نہ کی تھی ۔ رات کو جب ڈھولک لے کر بیٹھتیں تو لہک لہک کر الاپتیں —— بھری گگری موری ڈھرکائی شام —— کرشن کنہیا کے اس تصور سے ان لوگوں کے اسلام پر کوئی حرف نہ آتا تھا۔یہ گیت اور کجریاں اور خیال،یہ محاورے، یہ زبان ،ان سب کی بڑی پیاری اور دلآویزمشترکہ میراث تھی۔ یہ معاشرہ جس کا دائرہ مرزا پور اور جون پور سے لے کر لکھنؤ اور دلی تک پھیلا ہوا تھا۔ایک مکمل اور واضح تصویر تھا۔جس میں آٹھ سو سال کے تہذیبی ارتقاء نے بڑے گمبھیر اور بڑے خوبصورت رنگ بھرے تھے۔

لیکن یہ تصویر جلد ہی دھندلی پڑنے لگی اور یہ سب عینی نےبھی اپنی آنکھوں سے دیکھا،ان کے یہاں اس غم کا بیانیہ بھی ملتا ہے۔جب تہذیب و ثقافت کے یہ چشمے سوکھ گئے ، بہتی ہوئی ندیوں کی جگہ ریت کے میدانوں نے لے لی۔وہ تہذیب جو محبت کے رنگوں سے تشکیل ہوئی تھی جس میں مذہب اور کسی دوسرے رنگ کی تخصیص شامل نہیں تھی۔ لیکن اب وہ وقت ختم ہو چکا تھا اب تو تمدن بھی غدار ٹھہرایا جا چکا تھا۔جس کا جواب ان کی تحریروں میں کچھ یوں نظر آتا ہے؛

“سنو،ہمارے پاس یقین ہے اور کامل اعتماد جسے اس محبت نے تخلیق کیا ہے جو غداری کے نام سے یاد کی جاتی ہے ۔یہ غداری محض یاسمین کے پھولوں کی آرزوہے۔”

Photo: Tribune, Pakistan

Photo: Tribune, Pakistan

ہندوستان کے مشترکہ کلچر سے عینی کی محبت ان کی تخلیقات میں جھلکتی ہے۔یہ مشترکہ کلچر ہندوستان کی پہچان بھی ہے جسے گم ہوتے دیکھ عینی دکھی بھی ہوتی تھیں ، حالانکہ انھیں اس بات کی خوشی بھی تھی کہ گاؤں میں اب بھی بہت حد تک یہ کلچر زندہ ہے۔جمیل اختر کی مرتب کردہ کتاب نوائے سروش(جو ان کے مختلف انٹرویوز پر مشتمل ہے)کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں؛

“ہمارے ڈرائیورنے ایک لطیفہ بیان کیا کہ ایک بار کارڈ بورڈ کے پہاڑ کو بڑھئی نے کیلوں کے ذریعہ نہایت سختی سے جڑ دیا تھا ۔کئی لڑکے ہنومان جی بنے تھے ان سب نے باری باری وہ پہاڑ اکھیڑنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئے جب ایک مسلمان لڑکے کی باری آئی جو ہنومان جی بنا تھا اس نے آگے جاکر زور سے ایک نعرہ لگایا “یا علی”اور پہاڑ اکھیڑ دیا بہت تالیاں بجیں۔چنانچہ “یا علی”پکارنے والے ہنومان جی کی یہ کلچر بہت اچھی طرح پھل پھول رہی تھی مگر 1947ء میں لوگ گڑ بڑا گئے۔”

 آگے لکھتی ہیں؛

یہ تعزیوں ،پیروں ،فقیروں اور درگاہوں اور رام لیلاؤں کی کلچر ہماری اصل کلچر ہے اور بڑی نعمت ہے اور اسے ہر گز ہرگزمٹنے نہیں دینا چاہئے۔ نہ یہ بدعت ہے نہ اوہام پرستی ،نہ شرک ،نہ بت پرستی ،یہ محض ہمارے عوام کا تہذیبی سرمایہ ہے۔

ان کی تحریروں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کی تخلیقی دنیا بھی تہذیب کے انھیں رنگوں سے تشکیل ہوئی ہے۔ اپنے ناول آگ کا دریا میں انھوں نے تاریخ و تمدن کی ہزار سالہ تاریخ کے بدلتے دھاروں کو پیش کیا ہے۔

اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو، ہاؤسنگ سوسائٹی ، کارمن ، پت جھڑ کی آواز، سیتا ہرن،یاد کی اک دھنک جلےجیسی تحریروں میں عورت کی روح کو رقم کرنے والی عینی کی تخلیقی دنیا بہت وسیع ہے۔تاریخ ، تہذیب و ثقافت،ادب اور آرٹ کے مشاہدے کی نظر سب کے پاس نہیں ہوتی۔ شوق دیدار نے عینی کے اندر وہ نظر پیدا کی۔عینی نے نہ صرف اسے دیکھا،سمجھا بلکہ رقم بھی کیا۔ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور مختلف علوم و فنون کے بیانیے ان کی تحریروں میں موجود ہیں۔ وہ کہتی بھی تھی کہ “ایک ادیب کی ذمہ داری دوسرے فنکاروں سے زیادہ ہوتی ہے۔ ”ان کی تحریریں اس بات کا ثبوت ہے کہ انھوں نے اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا ہے۔ جیلانی بانو لکھتی ہیں: “ساری دنیا کی—خاص طور سے بر صغیر کی بدلتی ہوئی تہذیبی، سیاسی ،سماجی رنگارنگی ان کے فن میں نظر آتی ہے”۔

ادبی میدان میں عورت اور مرد کی تخصیص انھیں قطعی نا پسند تھی۔ عینی نے اپنی ساری زندگی عورت سے جڑےان ٹیبوز کو توڑا جس کے تحت عورت کمزور تصور کی جاتی ہے اور بغیر ہم سفر کے اس دنیا میں اس کا رہنا تقریباً ناممکن تصور کیا جاتا ہے۔ عینی نے اپنی زندگی میں اس تصور کو تو توڑا ہی وہ ادب میں بھی اس کی قائل نہ تھیں کہ ادیب پر عورت یا مرد ہونے کی اضافی شرط مسلط کی جائے ۔نقادوں کے اس رویے کے متعلق کہتی ہیں کہ نقادوں نے انھیں اس ریل کے ڈبے کی طرف دھکیل دیا ہے جو صرف عورتوں کے لیے ہوتا ہے۔سلطانہ مہر کو دیے ایک انٹرویو میں کہتی ہیں: “ہمارے نقاد لکھنے والی خواتین کا اتنا احترام کرتے ہیں کہ ان کی الگ قومیت تسلیم کر لی گئی ہے ۔ادب کی دنیا میں تو فرض کر لیا گیا ہے کہ دنیا کے ہر موضوع پر مرد کو لکھنے کی آزادی ہے ۔عورت صرف اپنے دل کی بات،اپنے گھر کی بات کے سوا اور کچھ نہیں کہہ سکتی——اس لیے مردنقادوں کو ادیب عورت کے بارے میں لکھتے وقت اپنے قلم میں ہمدردی کی مٹھاس گھولنا پڑتی ہے۔”وہ اس بات سے بھی خاصی کبیدہ خاطر نظر آتی ہیں کہ نقاد صرف جنس کو موضوع بنانے والی خواتین کو باغی افسانہ نگار مانتے ہیں۔ کیونکہ نئی تکنیک میں لکھی گئی تحریریں انھیں سمجھ ہی نہیں آتی۔ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ نقادوں نے خاتون لکھنے والیوں کو اگنور کیا ہے۔

ادب کو کسی خاص ٹیگ لائن (ترقی پسندادب یا جمالیاتی ادب اور اسی طرح کے دوسرے ٹیگذ)کے تحت پڑھنے کے رویے کو وہ صحیح نہیں مانتی۔ آزادئ نسواں اوراردوکےمتعلق اپنےخیالات کا اظہارکرتےہوئےکہتی ہیں: “جب آپ بات کرتے ہیںWomen’s Liberationکی تو سب سے بڑا WOMEN’S LIBتو اردو میں شروع ہوا تھا اور خود عورتوں نے کیا تھا۔اس کا اب کوئی تذکرہ نہیں کرتا۔”

عینی کے یہاں جس ماحول و کلچر کی کثرت ملتی ہے،اس کو بعض دفعہ تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ لیکن میری ناقص رائے کے مطابق ان کے گھر میں جس ماحول اور کلچر کا بول بالا تھا ، جسے انھوں نے زیادہ قریب سے دیکھا تھا وہ ان کے یہاں زیادہ نظر آتا ہے۔ حالانکہ انھوں نےاگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو،ہاؤسنگ سوسائٹی ،پت جھڑ کی آواز، سیتا ہرن اور کارمن جیسے افسانے/ناولٹ بھی لکھے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر ان کی تحریروں میں کسی مخصوص کلچر کا ذکرکثرت سے ہے تو لوگوں کو اس سے چڑ کیوں ہے؟ایسا نہیں ہے کہ عینی کا مشاہدہ کسی کنویں میں بند تھا اپنے گھر کے علاوہ بھی انھوں نے دنیا دیکھی تھی،مختلف کلچر ،ادب ،آرٹ کا مطالعہ کیا تھا اور وہ سب ان کی تخلیقی دنیا کا حصہ ہے،ان کی تحریروں میں نظر بھی آتا ہے۔

انھوں نےانگریزی مخلوط انڈین کلچر کو لکھا ضرور ہے لیکن وہ کسی English Syndromeمیں مبتلا نہیں تھیں۔ انگلش کو لے کر یا اس زبان میں لکھی تحریروں کو لے کر کسی تفاخر کے احساس میں گرفتار نظر نہیں آتی۔آصف فرخی کے ایک سوال کے جواب میں کہتی ہیں: “میں جس معاشرے میں پیدا ہوئی ، یہ بہت اچھا معاشرہ ہے ، جو زبان میں بولتی ہوں ،بڑی اچھی زبان ہے ۔اس سے زیادہ اچھی زبان کوئی ہو نہیں سکتی ۔اس کا جو ادب ہے ،کیا کہنے۔”یہ عینی  کی محبت ہی تھی جس نے اپنی زبان اور معاشرے سے ان کا رشتہ کبھی ٹوٹنے نہیں دیا۔بلکہ اپنے انٹرویوز میں انھوں نے اس بات  سے ناراضگی جتائی ہے کہ لوگ ہمیشہ مغربی نمونےیا مغرب کو حوالہ بنا کر ہی کسی ادب پارےکو کیوں پڑھتے ہیں،وہ اسے افسوسناک ذہنیت بتاتی ہیں۔انسان کی اپنی بھی کوئی شخصیت ہوتی ہےاور ہونی بھی چاہیے،وہ اس پر زور دیتی ہیں۔

“ہمارے ہاں ایک پرابلم ہوگیا ہے کہ لوگ اتنے مرعوب اور متاثر ہیں مغرب سے کہ ہر چیز کا موازنہ کرتے ہیں ۔”

ہمارا معاشرہ عورت کے لیے عجیب و غریب اصول و ضوابط طے کرتا رہتا ہے۔ عینی کی زندگی ان تمام اصولوں کی نفی تھی۔ انھوں نے کبھی شادی نہیں کی ۔لوگوں کی رائےسے بے پروا ہوکر لکھتی رہیں۔ حالانکہ ناقدین سے انھیں ہمیشہ شکایت رہی ۔ ہوا بھی کچھ یوں تھا کہ یا تو لوگ آگ کا دریا میں الجھے رہےیا پھر بورژوا کلچر کو دیکھ کر جلتے بھنتے رہے۔اردو میں یہ رویہ عام ہے جیسے بغیر ‘لحاف’ کے عصمت پر کبھی بات ہی نہیں ہوتی،جیسے انھوں نے‘لحاف’ کے علاوہ اور کچھ قابل ذکر لکھا ہی نہ ہو۔عینی پاکستان سے ہندوستان رہنے آگئیں۔اس کے متعلق کہتی ہیں: “اچھا ہی ہوا میں لوٹ آئی،وہاں بہت دوست احباب تھے لیکن سبھی بے بس۔یوں بھی اس معاشرے میں اکیلی عورت کے لیے ، جو لکھتی بھی ہو،اور سماجی جانور Social animalبھی ہو، رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں۔یہاں میں ایک بھر پور زندگی جی سکی ہوں۔”

ہاں! عینی نے ایک بھر پور زندگی جی، تنہا لیکن بھر پور۔ ان کی تحریریں اور بذات خود ان کی زندگی نہ صرف عورتوں کے لیے بلکہ پدری ذہنیت والے  سماج کے لیے بھی ایک سبق ہے۔جنھوں نے ہمیشہ عورت کو‘ دوجا ’مان  کر اگنور کیا ہے ۔میں اپنی بات ان کے اس جملے پر ختم کرتی ہوں ؛

میں بہت خوش ہوں اپنی موجودہ زندگی سے (قہقہہ)… I would not exchange it for any other kind of life

(یہ مضمون پہلی 20 جنوری 2018 کو شائع کیا گیا تھا)