فکر و نظر

کیا جمہوریت پر فسطائیت کے بادل منڈلا رہے ہیں؟

حب الوطنی اور دیش پریم کے معنی بدل گئے ہیں۔جو کوئی حکمران پارٹی کے نظریات کے خلاف بولتا ہے وہ غدارِ وطن اور دیش دروہی کہلاتا ہے۔فسطائیت کے غندوں کو کُھلی چھوٹ دیدی گئی ہے کہ وہ جسے چاہیں ہلاک کر دیں۔

Photo : Reuters

Photo : Reuters

ہم ہندوستان کے باشندے ہر سال دوقومی تہوار مناتے ہیں۔ پہلا آزادی کے حصول کی خوشی میں15 اگست کو اور دوسرا جمہوری آئین ملنے کی خوشی میں 26جنوری کو۔یہ تہوار سرکاری اور عوامی ہر دو سطح پرمنائے جاتے ہیں۔ملک کی آ زادی اور آئین روبہ عمل آنے کے بعد ابتدائی سالوں میں واقعی یہ دونوں مواقع خوشی سے منائے جاتے تھے اور بچوں،بڑوں، گنوار ،تعلیم یافتہ اور ہر طبقہ کے لوگوں کو خوشی بھی ہوتی تھی ،کیوں کہ انگریزوں کی طویل غلامی کے بعدہم بلا تفریق قوم ومذہب ایک خود مختار اور جمہوری ملک کی آزاد فضا میں سانس لے رہے تھے،جہاں کے دستور اور آئین نے بلا تفریق رنگ،نسل،علاقہ ،زبان مذہب وقوم ہر فرد کو مساوی حقوق عطا کئے تھے اورہر کسی کو ان کی بھر پورضمانت بھی حاصل تھی۔ آئین کی تمہید میں واضح طور پر بتا دیا گیا کہ ” ہم بھارت کوایک خود مختار، سماج وادی اور غیر مذہبی جمہوریہ بنائیں گے،جس میں تمام شہریوں کوسماجی، معاشی اور سیاسی انصاف۔ اظہار خیال،عقیدہ،دین اور عبادت اور تبلیغ کی مکمل آزادی۔حیثیت اور موقع کے اعتبار سے مساوات۔اور ان سب میں اخوت کو ترقی دیں گے جس سے فرد کی عظمت اورقوم کے اتحاد اور سا لمیت کا تیقن ہو۔”

جب تک آئین اور قانون کی بالا دستی کوتسلیم کرنے کارجحان کار فرما رہا ملک میں امن و سلامتی کا دور دورہ رہا اور ملک تعلیمی،اقتصادی،سائنسی اور تکنیکی ہر میدان میں ترقی کرتا رہا۔مگر جوں جوں فرقہ واریت اور فسطائیت نے سر ابھارنا شروع کیا اور جمہوریت کی چولیں ڈھیلی پڑنے لگیں ملک میں بدامنی،تشدد ، فسادات ،عدم اعتماد اورعدم رواداری کا سلسلہ شروع ہوتا چلا گیا۔فسطائیت کا آغاز آزادی سے سے قبل ہی انگریزوں کے دور میں ہو چکا تھا، جب ایک محدود اور مختصر سے گروہ نے جنگ آازادی کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دینا شروع کیا تھا۔یہ تنگ نظر،متعصب اور سماج دشمن طبقہ ملک کوکسی اور رُخ پر لے جانا اور ملک پرذات پات اور اونچ نیچ کی گندی ذہنیت کے ساتھ تسلط حاصل کرنا چاہتا تھا۔اپنے مقصد کے حصول کے لئے اس نے ملک میں فرقہ وارانہ ذہنیت اور مذہبی تعصب کے ذریعہ فسادات کا ایک طویل سلسلہ جاری رکھا۔یہاں پر کانگریسی حکومت نے بھی عمداً خاموشی کا رویہ اختیار کیا اور اس کے بڑھتے ہوئے عذائم پر لگام نہیں کسی اور مسلم ووٹ پر اپنی بالادستی اور تسلط قائم رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی۔

ایمرجنسی کے پہلے تک ملک میں جن سنگھ کے صرف 2؍ پارلیمانی ممبر منتخب ہوا کرتے تھے۔ایمرجنسی میں کانگریس کی تانا شاہی نے عوام کو اس سے متنفر کر دیا۔نس بندی کی وجہ سے مسلمان بھی اس سے بدضن ہو گئے اور پہلی بار کانگریس کے خلاف جنتا دل کے حق میں ووٹ دیا۔ جنتا دل میں جن سنگھ کے لیڈر بھی شامل ہوئے اورانتخابات میں کامیابی حاصل کی۔کانگریس کو آزادی کے بعد پہلی مرتبہ شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور یہیں سے بی جے پی لے لئے کامیابی کی راہیں کھلتی چلی گئیں۔ 2004 ؁سے 2014 ؁ تک کانگریس کا دورحکوت مایوس کن رہا ،جس کا بی جے پی نے بھر پور فائدہ اٹھایااور بہت سارے خوشنما اور دلفریب دعوؤں کے ساتھ نریندر مودی کی قیادت میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔

 اقتدار میں آنے کے بعد سرکار نے فسطائیت کے ایجنڈے پرعمل درآمد شروع کر دیا۔بھارت کے آئین نے عوام کو جو حقوق دئے ہیں ایک ایک کر کے ان سے چھینے جانے لگے اور ایک خاص تہذیب ہندوتوا کے نظریات کو زبردستی ملک میں نافذ کرنا شروع کر دیاجیسے یوگا،سوریہ نمسکار،وندے ماترم وغیرہ۔ بھارت کی تکثیری شناخت کو مٹا کرہندو راشٹر بنانے کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔لوگوں کو اپنی رائے اور خیالات کے اظہار سے اپنی پسند کے کھانے پینے،رہنے سہنے سے روکا جا رہا ہے ، جس کی ضمانت بھارت کے آئین کے پہلے ہی صفحہ پر دی گئی ہے۔جیسے ملک میں ایک طرح سے غیر اعلانیہ ایمرجنسی لگادی گئی ہو۔اس بات کا اظہار بی جے پی کے بزرگ لیڈر اڈوانی نے بہت پہلے ہی کر دیا تھا۔حب الوطنی اور دیش پریم کے معنی بدل گئے ہیں۔جو کوئی حکمران پارٹی کے نظریات کے خلاف بولتا ہے وہ غدارِ وطن اور دیش دروہی کہلاتا ہے۔فسطائیت کے غندوں کو کُھلی چھوٹ دیدی گئی ہے کہ وہ جسے چاہیں ہلاک کر دیں۔

dabholkar-pansare-kalburgi-lankesh

پنسارے، دابولکر،کلبرگی اور گوری لنکیش کا یہی جرم تھا کہ انہوں سچ بولنے کی ہمت کی تھی۔ ان کے قاتل آج تک گرفتار نہیں ہوئے۔ایسے نہ جانے کتنے صحافی ہونگے جو مارے گئے۔گو رکشا کے نام پراخلاق سے لیکر آج تک نا جانے کتنے معصوموں کو شہید کیا گیا،لو جہاد،گھر واپسی ،بیف اور گو ہتھیا کے نام پر  تشدد میں بیشمار مسلمانوں کی جان لی گئی ،یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اس کے خلاف دیش کے پردھان منتری نے ایک لفظ بھی نہیں کہا ناہی مظلوموں کی داد رسی کی۔قاتلوں کو گرفتار کرنے کی بجائے الٹا مقتولین کے رشتہ داروں کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے گرفتار کیا گیا،اس لئے کہ انتظامیہ اور پولیس قاتلوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔اس کے خلاف ملک گیر سطح پر صحافیوں،سائنسدانوں اور فوج کے اعلیٰ عہدیداروں نے احتجاج کیا۔حکومت سے تفویذ کئے گئے اپنے ایوارڈ واپس کئے،مگران سب باتوں کا سرکار پر کوئی اثر نہیں ہوا۔

 انتخابات سے پہلے اوروزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالتے وقت وزیر اعظم نے عوام سے سب کا ساتھ سب کا وکاس،باہر کے ممالک میں چھپاکالا دھن واپس لانے، ہر شہری کے کھاتے میں 15 ؍ لاکھ روپے ڈالنے ، ہر سال 2 ؍ کروڑ نوجوانوں کو روزگار دینے،بد عنوانی کا خاتمہ کرنے،کسانوں کو پیداوار پر دو گنی قیمت دلانے اور نا جانے ایسے کتنے وعدے کئے تھے جن میں سے آج تک ایک بھی شرمندۂ تعبیر نا ہو سکا۔اس کے برعکس نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے اندھے اور احمقانہ فیصلے سے کرڑوں برسر روزگار لوگوں کا روزگار چھن گیا۔نوٹ بندی کے دوران اپنا ہی پیسہ لینے کے لئے قطار کھڑے100 سے زیادہ لوگوں کی جان گئی۔اس پر بھی پردھان منتری نے تاسف اور معذرت کا ایک جملہ نہیں کہا۔ملک اور عوام کو درپیش سنگین مسائل:بُھک مری،سرکاری اسپتالوں میں بدنظمی اور طبی سہولتوں کے فقدان کے باعث ہونے والی اموات، آدھار کارڈ کے بایو میٹرک کی وجہ سے راشن نا ملنے کے باعث معصوم بچوں اور بوڑھوں کی ہونے والی اموات، بے روزگاری وغیرہ سے حکومت کی لاپرواہی اور عدم دلچسپی اور ان مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے لو جہاد ،گھر واپسی ، اورنگ زیب ، ٹیپو سلطان، پدماوتی ، تاج محل اور طلاق ثلاثہ جیسے نان اِشوزکو اِشو بنا کر بہت بڑے پیمانے پراخبارات اور ٹی وی چینلس پر مسلسل دکھانا اور ہندو مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کرنا اور مسلمانوں کو مسلسل الجھائے رکھنا اور ایک خوف کا ماحول پیداکرناروز کا معمول بن گیا ہے۔

Protest in Bengaluru

 مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دلت برادری کو بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ہریانہ میں دلت سماج کے قتل کی وارداتیں،اعلیٰ پیشہ جاتی تعلیمی اداروں میں دلت ، قبائلی اور دیگر پسماندہ طلباء کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک اور بھید بھاؤ کے ذریعہ دہشت کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ جس کے باعث مدھیہ پردیس کے بالمکند سے لیکر روہت ویمولا اور لوکیش مینا تک جملہ 23؍ ذہین اور ہونہار طلباء کو خود کشی کرنی پڑی۔فلم انسٹی ٹیوٹ اور اس کے بعد جے این یو یونیورسٹی، دہلی یونیور سٹی ، بنارس ہندو یونیور سٹی اور دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں فسطائی ذہنیت کے وائس چانسلرس اور اہم عہدیداران کو بٹھا کرطلباء میں فسطائی ذہنیت پیدا کرنے کی کوشش کیجارہی ہے ۔اس کے خلاف طلباء نے احتجاج کیا تو ان پر وطن سے غداری کے جھوٹے الزامات لگا کر گرفتار کیا گیا۔بی جے پی کے لیڈران کے ذریعہ اقلیتوں کے خلاف نت نئے بیانات جاری کرائے جاتے ہیں۔کبھی کہا جاتا ہے کہ وندے ماترم نا کہنے والوں کو سمندر میں ڈبو دینا چاہئے۔ کبھی مسلم مکت بھارت کی صدا بلند ہوتی ہے تو کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان اس دیش کے واسی نہیں ہیں ،یہ باہر سے آئے ہیں۔اس طرح ایک خوف کا ماحول بنایا جارہا ہے۔اب تو علانیہ بھارت کے آئین کو بدلنے کی بات کی جارہی ہے۔اپنے آپ کو سیکولر کہنے والے کو بے نسب کہا جانے لگاہے۔

یہ سب سن کر مودی سرکار ان بیانات ے اپنا پلہ یہ کہہ کر جھاڑ لیتی ہے کہ ایسے بیانات ان لیڈروں کے ذاتی بیانات ہیں ان سے حکومت یا پارٹی کا کوئی تعلق اور ذمہ داری نہیں۔حکومت کے غلط فیصلوں اور ان سے ہونے والے سنگین نتائج کے پیش نظر بی جے پی کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں ۔بزرگ اورتجربہ کار لیڈر یشونت سنہا،ارون شوری اورموجودہ ایم پی شتروگھن سنہا جب صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں تو اسے سنی ان سنی کردیجاتی ہے۔اس طرح ملک کی جمہوری فضا مکدر ہوتی جارہی ہے او ر اس پر فسطائیت کے باد ل منڈلا رہے ہیں۔

(مضمون نگار کرناٹک کے ہبلی ضلع میں مقیم صحافی ہیں)