خبریں

جھارکھنڈ میں مدا رس کے اساتذہ کیوں ہیں پریشان ؟

گراؤنڈ رپورٹ:  جھارکھنڈ کے 186 غیر سرکاری مدرسہ اساتذہ کی دس مہینے سے تنخواہ کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔  اساتذہ کا الزام ہے کہ مدرسوں کی تصدیق کے نام پر تنخواہ روکی گئی ہے۔

Madrasa-Jharkhand

’ بمشکل ایک وقت کی روٹی ملنے پر ذہن میں کئی سوال گھومنے لگتے ہیں۔  باورچی خانے کے سارے ڈبے تو خالی پڑے ہیں۔  کیا کل بھی یہی روٹی اطمینان سے میسّر ہو پائے‌گی۔  البتہ پرچون کی ادھاری، بقایا اسکول فیس، بجلی کا بل، گھسی چپلیں، پھٹے پرانے گھر کے گرم کپڑے، یقین مانیے نشتر بن‌کر زندگی چبھنے لگی ہے۔‘

مدرسہ استاد محمد شرف الدین ایک سانس میں یہ سب بول‌کر خاموش ہو جاتے ہیں۔  تب تعلیم حاصل کرنے میں جٹے چھوٹےچھوٹے بچوں کو بھی ان کا مایوس چہرہ یہ احساس کرا جاتا ہے کہ تنخواہ کے بغیر مولوی صاحبان کی مشکلات بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

شرف الدین صاحب جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی کے پتھلکودوا واقع دینیہ مدرسہ میں بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں۔  یہ مدرسہ سال 1971 میں قائم ہوا تھا۔  حالانکہ شرف الدین جیسے مدرسہ کے سیکڑوں استاد ہیں، جو کم وبیش ان حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

دراصل جھارکھنڈ کے گاؤں،قصبوں اور شہروں میں موجود غیر سرکاری منظور شدہ 186 مدرسوں کے اساتذہ کو دس مہینے سے تنخواہ کی ادائگی نہیں کی گئی ہے۔ شرف الدین بتاتے ہیں کہ مشکلیں تمام ہوں، بچّوں کو تعلیم دلانے کی ذمہ داری سے کیسے منھ موڑ لیں۔  روز امید لئے کام پر آتا ہوں۔

اسی مدرسہ کے دوسرے استاد محمّد نصیراللہ کہتے ہیں، ‘ کئی شام بھوکے سونے کی نوبت آئی۔ قرض دینے والے بھی اب کسی قسم کی باتوں پر یقین نہیں کرتے۔  ‘

تنخواہ کو لےکر مدرسہ کے استاد لگاتار مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔  اسی سلسلے میں پچھلے مہینے جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں ریاست بھر سے پہنچے مدرسہ کے اساتذہ نے سڑک مارچ کرتے ہوئے ریاستی حکومت کے خلاف نعرےبازی کی اور اسمبلی کے سامنے مظاہرہ کیا تھا۔جھارکھنڈ مدرسہ ٹیچرس ایسوسی ایشن کے ملازمین نے کئی دفعہ بی جے پی حکومت کی وزیرتعلیم ڈاکٹر نیرا یادو اور محکمہ ترقیِ انسانی وسائل کے افسروں سے مل‌کر تنخواہ کی ادائیگی کی دہائی لگائی، لیکن فی الحال کوئی حل نہیں نکلا ہے۔

Jharkhand-Madrasa 2

ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری حامد غازی کہتے ہیں، ‘ حالات پر غور کریں، تو ایک بات صاف ہے کہ جھارکھنڈ میں بی جے پی حکومت کو مدرسے بےحد کھٹک رہے ہیں۔  وہ صرف اس لئے کہ یہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچّے اور پڑھانے والے استاد دونوں مسلمان ہیں۔  ‘

غازی صاحب زور دیتے ہیں کہ ان کو یہ کہنے سے گریز نہیں کہ اس برادری کے غریب، پسماندہ، دبےکچلے بچّوں کے لئے تعلیم کے سالوں پرانے نظام کو ختم کرنے کی سازش چل رہی ہے۔غور طلب ہے کہ 28 جولائی، 2017 کو ریاستی حکومت کے ثانوی تعلیم کے ڈائریکٹر نے تمام ضلعوں کے ڈپٹی کمشنر کو ایک خط بھیجا تھا۔  اس میں کہا تھا کہ محکمہ جاتی وزیر نے منظور شدہ مدرسوں میں اساتذہ اور  ملازمین‎ کی تنخواہ وغیرہ کی منظوری سے قبل تمام 186 مدرسوں کی  تصدیق کرانے کا حکم دیا ہے۔

خط کے ذریعے اس کا بھی ذکر تھا کہ تصدیق کے دوران یہ دیکھا جائے کہ تمام مدرسے، معیارات کی تعمیل کرتے ہیں یا نہیں۔  ساتھ ہی تفتیش رپورٹ ایک ہفتے میں دستیاب کرانے کو کہا گیا تھا۔حکومت مدرسوں کی طبعی تصدیق تو کرا ہی سکتی ہے، اس سوال پر حامد غازی کہتے ہیں کہ کبھی ہم نے منع نہیں کیا اور نہ ہی اعتراض کیا۔  اگر جائز گڑبڑی ملتی ہے تو کارروائی ہو اس کو دور کیاجائے۔  لیکن جانچ‌کے نام پر تنخواہ کیوں ملتوی کی گئی ہے۔

کئی ضلعوں میں مدرسوں کی تفتیش چارپانچ مہینے تک چلتی رہی۔  مثلاً گوڈّا کے مدرسوں کی تفتیش  کو لےکر 16 نومبر کو انہوں نے محکمہ ترقیِ انسانی وسائل کے سکریٹری کا دھیان مبذول کرایا تھا۔

مدرسہ ٹیچرس ایسوسی ایشن کے صدر سید فضل الہدیٰ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے بیتے مارچ مہینے سے ہی تنخواہ کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔   اس خط کے جاری ہونے کے بعد ہماری بے بسی سامنے ہے۔  ایک ہفتے میں تمام ضلعوں سے تفتیش کی رپورٹ ریاست کے صدر دفتر بھیجی جانی تھی اور اس کام میں مہینوں لگ گئے۔  اس کے لئے ہم کہاں قصوروار ہوتے ہیں۔

Jharkhand-Madrasa-3 (1)

جب تمام ہو حجت کے بعد ضلعوں سے تفتیش کی رپورٹ ریاست کےصدر دفتر پہنچی تو اس پر جھارکھنڈ اکیڈمک کاؤنسل سے کہا گیا ہے کہ مدرسہ کے معیارات پر یہ رپورٹ کھری اترتی ہے یا نہیں، اس کو دیکھا جائے۔  تب سے کاؤنسل اور محکمہ کے درمیان خط وکتابت جاری ہے۔فضل الہدیٰ کا زور اس بات پر ہے کہ یہ حالتیں صاف اشارہ دیتی ہے کہ حکومت جانبداری کی پالیسی اپنا رہی ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ حال ہی میں گوڈّا ضلع‎ میں مدرسہ کے دو اساتذہ کی فاقہ کشی کے درمیان موت ہوئی۔  پائی پائی کے لئے وہ مہینوں تک ترستے رہے۔

آدھے عہدہ خالی

مدرسہ ٹیچرس ایسوسی ایشن کے مطابق ریاست کے 186 مدرسوں میں اساتذہ کے 1400 عہدے منظور شدہ ہیں۔  لیکن فی الحال 700 استاد ہی  ہیں۔  اس سے پڑھائی الگ متاثر ہو رہی ہے۔  جبکہ ان مدرسوں میں تعلیم لینے والے بچّوں کی تعداد قریب پچاس ہزار ہوگی۔جھارکھنڈ میں 139 مدرسے میں آٹھویں تک یعنی وسطانیہ کی پڑھائی ہوتی ہے۔  جبکہ 47 میں مدرسہ بورڈ (فوقانیہ) اور مولوی تک کی پڑھائی ہوتی ہے۔

حامد غازی بتاتے ہیں کہ معیارات کے دائرے میں عمارت اور کمرے کی دستیابی اہم پوائنٹ ہے۔  تب مدرسہ کے لوگوں کے سوال بھی ہیں۔  اگر کوئی مدرسہ اس معیار پر کھرا نہیں اتر رہا، تو حکومت اس کے لئے فنڈ کیوں نہیں مہیّا کراتی، تاکہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ سچ ثابت ہو سکے۔

غازی صاحب کے سوال اور بھی ہے۔  حکومت بچّوں کو مڈ ڈے میل، پوشاک، وظیفہ مہیّا کراتی ہے۔ سرو شکچھا ابھیان پروگرام سے بھی مدرسے جڑے ہیں تو عمارت اور کمرے کے نام پر مدرسوں کو ختم کرنے کی کوششیں کیوں کی جا رہی ہے۔

ایسوسی ایشن کو یہ بھی ناگوار گزرتا رہا ہے کہ مدرسے کی انتظامی کمیٹی کے بدلے حکومت‌کی بلدیاتی کے نام جو کمیٹیاں بنائی گئیں، اس میں مسلم سماج کے ماہر تعلیم، دانشور سے زیادہ افسران پر توجہ دی گئی۔

مختارالحق، محمّد رضوان قاسمی، مولانا صلاح الدین سمیت کئی مولویوں کی تکلیف ہے کہ تین سال پہلے جھارکھنڈ مکتی مورچہ کی حکومت نے پینشن اور گریچیٹی دینے کی اجازت دی تھی، لیکن اس پر بھی موجودہ حکومت نے خزانے سے روک لگا رکھی ہے۔

غور طلب ہے کہ جھارکھنڈ میں تقریباً پندرہ فیصد مسلم آبادی ہے۔  اسمبلی کی 81 سیٹوں میں اس کمیونٹی سے ابھی دو مسلم ایم ایل اے ہیں۔ کانگریس کے سینئر ایم ایل اے عالمگیر عالم کہتے ہیں کہ ایوان سے لےکر سڑک تک انہوں نے مدرسہ اساتذہ کی تنخواہ جاری کرنے کو لےکر آواز اٹھائی، لیکن جانچ‌کے نام پر ابتک اس کو روک‌کر رکھا گیا ہے۔  کئی پچھڑے ضلعوں میں تعلیم پر اس کا خاصہ اثر پڑا ہے۔  ان کو یہ کہنے سے گریز نہیں کہ حکومت کی پالیسی اورمقصد میں شفافیت نہیں ہے۔

شکایتں بہت تھیں

ریاست کی وزیر تعلیم ڈاکٹر نیرا یادو کہتی ہیں کہ مدرسوں کے بارے میں انہی کے بیچ سے بہت شکایتں مل رہی تھیں۔  کہیں بچّوں کی تعداد زیادہ دکھائی گئی ہے، تو کہیں اساتذہ کی تقرری میں گڑبڑی کی شکایت تھی۔  شکایتوں کی ایک موٹی فائل بن گئی تھی۔  تب ہم نے تفتیش کا حکم دیا۔  ساتھ ہی مدرسہ کو مضبوط کرنے سے لےکر اردو اساتذہ کی تقرری میں حکومت نے کئی پختہ قدم اٹھائے ہیں۔

وزیر یہ بھی کہتی ہیں کہ بی جے پی اور اس کی حکومت نے کبھی کسی کے ساتھ جانبداری نہیں کی ہے۔  معیارات کی توثیق مدرسے میں پڑھنے والے بچّوں اور اساتذہ کے مفاد میں کرائی جا رہی ہے۔انہوں نے یونین کے نمائندوں سے بھی تفتیش میں مدد کرنے کو کہا تھا۔  ساتھ ہی ان کی باتوں کو ہمیشہ توجہ سے سنا ہے۔  یہ ٹھیک ہے کہ تفتیش پوری ہونے میں دیر ہوئی ہے، لیکن انہوں نے محکمہ جاتی سکریٹری سے کہا ہے کہ جن ضلعوں سے رپورٹ آ گئی ہے، وہاں کے اساتذہ کی تنخواہ کی ادائیگی کی جائے۔

Jharkhand-Madrasa

جھارکھنڈ میں اردو اور مسلم حاشیے پر

آل مسلم یوتھ ایسوسی ایشن (امیا) کے ایس۔ علی حکومت کے دعووں سے اتفاق نہیں رکھتے۔  ان کا کہنا ہے کہ جھارکھنڈ میں اردو اور مسلم ہر مورچے پر حاشیہ پر ہیں۔  سال 2016 میں پرائمری مڈل اسکول کے سولہ ہزار اساتذہ کی تقرری ضرور ہوئی، لیکن اردو کے 815 استاد ہی بحال ہوئے۔  اب بھی بڑے پیمانے پر اردو کے اساتذہ کے عہدے خالی ہیں۔  سال 2017 میں پلس ٹو کے لئے جو ویکینسی نکالی گئی اس میں اردو کو شامل ہی نہیں کیاگیا۔

بقول ایس۔ علی دوسری طرف مدرسہ کے استاد الگ تنخواہ کے لئے جوجھ رہے ہیں۔  مدرسوں میں جدید تعلیم کی پڑھائی کے لئے مرکزی حکومت کی اسکیم-ایس پی کیو ای ایم (پرووائڈنگ کوالٹی ایجوکیشن ان مدرسہ) کی حالت بھی بہت اچھی نہیں ہے۔

علی بتاتے ہیں کہ سیکڑوں ہندی اسکولوں میں بڑی تعداد میں مسلم بچّے پڑھتے ہیں وہاں اردو کے اساتذہ کی تقرری نہیں کی گئی ہے۔  جبکہ سال 2015 میں محکمہ ترقیِ انسانی وسائل ، حکومت ہند نے کہا تھا کہ ہندی لسانی اسکولوں میں اگر پندرہ اردو کے بچّے پڑھتے ہیں، تو وہاں ایک اردو پڑھانے والے استاد دئے جائیں۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور جھارکھنڈ میں رہتے ہیں۔ )