خبریں

داووس میں مودی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ان کی حکومت کا خراب اقتصادی مظاہرہ ہے 

مودی بھلے ہی Ease of doing businessکی ورلڈ بینک رینکنگ میں بہتری  پر اترا لیں، لیکن اصلی حال سرمایہ کاری،جی ڈی پی تناسب سے ہی پتا لگتا ہے۔اگر نجی سرمایہ کاری اپنے رکارڈکی نچلی سطح پر ہے اور بہتری کا کوئی اشارہ بھی نہیں ہے، تو رینکنگ میں بہتری کا کیا مطلب ہے۔

Photo: Reuters

Photo: Reuters

کسی غلط فہمی میں مت رہئے۔  وزیر اعظم نریندر مودی کا داووس دورہ، جو گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ وقت میں کسی ہندوستانی وزیر اعظم کا ایسا پہلا سفر ہے،جس کو لےکر بھلے ہی شور شرابہ مچا ہو، لیکن اس کا سامنا اس حقیقت سے ہے کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے درمیان ہندوستان محض ایک اور سرمایہ کاری کی منزل بن گیا ہے۔

یہ سفر اس وقت ہو رہا ہے، جب ہندوستان دنیا کی ان کچھ معیشتوں میں شامل ہو گیا ہے، جن کی جی ڈی پی اور روزگار میں اضافہ، دونوں ہی 2017 میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کم رہے۔عالمی سطح پر 2017، اقتصادی  تیزی کا سال رہا، جس میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی زیادہ تر اہم معیشتوں نے جی ڈی پی اور روزگار میں اچّھا اضافہ درج کیا لیکن، بدقسمتی سے ہندوستان اس عالمی اقتصادی تیزی کا حصہ بن پانے سے چوک گیا۔

اگر مودی سے اس بابت سوال پوچھا گیا، تو یقینی طور پر ان کو یہ صفائی دینے میں کافی مشقت کرنی پڑے‌گی کہ آخر 2017 میں ہندوستان میں کیا گڑبڑی ہوئی۔یہ سچ ہے کہ 2014 کے بعد ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے کو لےکر دلچسپی بڑھی تھی۔  خاص کر 2015 میں اور 2016 کے زیادہ تر حصے میں (نوٹ بندی سے پہلے تک) جب عالمی سرمایہ کاروں میں یہ امید تھی کہ مودی حکومت وعدے کے مطابق کمرشیل مارکیٹ(پروڈکٹ مارکیٹ) اورفیکٹر مارکٹ (Factor market) سے جڑے بڑے بازار اصلاح کی سمت میں قدم بڑھائیں گے۔

کمرشیل مارکیٹ میں عالمی سرمایہ کار مختلف علاقوں کو براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کے لئے کھولنے کی امید لئے بیٹھے تھے۔  اس سے بھی اہم یہ ہے کہ فیکٹر مارکٹ (Factor market)) میں ادارہ جاتیاصلاحات کا ایک بڑا وعدہ کیا گیا تھا۔  خاص کر زمین اور لیبر کو لےکر۔  ان تمام مورچوں پر مودی کا اب تک کا مظاہرہ حد سے حد ملا جلا ہی کہا جا سکتا ہے۔

اس لئے داووس میں جمع دنیا کے 100 سے زیادہ کمپنی کے چیف کے سامنے ہندوستان کو ایک دلکش منزل کے طور پر پیش کرنے میں وزیر اعظم کو کافی محنت کرنی پڑے‌گی۔  مودی کا کام اور بھی مشکل ہو گیا ہے، کیونکہ امریکی حکومت نے سب کو چونکاتے ہوئے گھریلو کارپوریٹ ٹیکس کی شرحوں میں کٹوتی کر دی ہے اور امریکی کمپنیوں کے ذریعے غیر ممالک میں کی گئی کمائی پر اضافی ٹیکس لگا دیا ہے۔ان دونوں اقدامات سے امریکی کمپنیاں اپنے ملک کے اندر ہی زیادہ سے زیادہ بڑھ چڑھ‌کر سرمایہ کاری کرنے کے لئے پرجوش ہوں‌گی۔  ساتھ ہی ہندوستان کے مقابلے میں چین، برازیل جیسی دوسری ابھرتی معیشتوں میں اور کچھ مشرقی ایشیائی ممالک میں پہلے سے ہی کارپوریٹ ٹیکس کی شرح نچلی سطح پر ہے اور وہاں کا ٹیکس انتظامیہ بھی نسبتاً زیادہ  راحت بخش ہے۔

اس لئے، جب حال ہی میں مودی نے یہ کہا کہ دنیا ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے دل تھام‌کر انتظار کر رہی ہے، تب جیسا کہ مارکیٹنگ کی قواعد  میں اکثر ہوتا ہے، وہ بات کو تھوڑا بڑھاچڑھاکر کہہ رہے تھے۔  آخر، موجودہ وقت میں ہندوستان بڑی ابھرتی معیشتوں کے سامنے ہی کھڑا ہے اور یہ دکھانے کے لئے ثبوت کافی کم ہیں کہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے عالمی کمپنیوں میں کسی طرح کی آپسی ہوڑ لگی ہوئی ہے۔

مودی نے حال ہی میں ایک نیشنل نیوز چینل کو ایک دوستانہ انٹرویو میں کہا کہ حال کے برسوں میں عالمی سرمایہ کاروں نے ہندوستان میں رکارڈ سرمایہ کاری کی ہے۔  یہ دعویٰ کرتے ہوئے حکومت یہ بات چھپا لیتی ہے کہ ہندوستان میں آئے اس ایف ڈی آئی کا ایک بڑا حصہ یا تو خطرے سے متعلق اثاثہ جات (ایسیٹس) کو خریدنے کے طور پر آیا ہے، مثلاً، 13 بلین امریکی ڈالر کا ایسّار رفائنری معاہدہ، یا این ڈی اے حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے سے موجود ای کامرس منصوبوں میں سرمایہ کاری کے نئے دائرے کے طور پر آیا ہے۔

کسی مارکیٹنگ قواعد کے ساتھ جڑے شور شرابے سے آگے بڑھ‌کر دیکھا جائے، تو ہندوستان میں سرمایہ کاری کی کہانی کی ٹھوس سچائی یہ ہے کہ2011-12 میں کل سرمایہ کاری اور جی ڈی پی کا تناسب 34.5 فیصد تھا، جو 2017-18میں ڈرامائی طریقے سے گھٹ‌کر 26.6 فیصد رہ گیا ہے۔

کل سرمایہ کاری اور جی ڈی پی کا تناسب معیشت کی صحت کی پیمائش کا ایک اہم پیمانہ ہے، کیونکہ یہ نجی سرمایہ کاری کی حالت کو دکھاتا ہے۔  یہ گھریلو سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ایف ڈی آئی کو بھی شامل کرتا ہے۔  اس پیمانے پر دیکھیں، تو 2012 سے سرمایہ کاری اور جی ڈی پی کے تناسب میں 8 فیصد پوائنٹ کی گراوٹ آئی ہے، جو غیر متوقع ہے۔

مودی بھلے کتنا ہی ایز آف ڈوئنگ بزنس کا ورلڈ بینک رینکنگ کے 144 سے بہتر ہوکر 100 آنے پر اترا لیں، لیکن اصلی صورت حال کا اندازہ سرمایہ کاری اور جی ڈی پی کے تناسب کے برتاؤ سے ہی لگتا ہے۔  اگر نجی سرمایہ کاری اپنے رکارڈ کی نچلی سطح پر ہے اور اس میں بہتری کا کوئی حقیقی اشارہ بھی نہیں مل رہا ہے، تو رینکنگ میں بہتری کا کیا مطلب ہے؟

داووس میں مودی بھلے سرخیاں بٹورنے کا انتظام کر لیں، لیکن اعداد و شمار کچھ الگ ہی کہانی بیان کر رہے ہیں۔مودی حکومت پہلے ہی تقریباً 4 سال کا وقت گنوا چکی ہے اور جی ڈی پی میں اضافہ، روزگار میں اضافہ، زراعت کی آمدنی میں اضافہ اور صنعتی اضافہ کے مورچے پر دکھانے کے لئے حکومت کے پاس زیادہ کچھ نہیں ہے۔

معیشت کی مصیبتوں کو اور بڑھانے کے لئے تیل کی قیمتیں فی بیرل 70 امریکی ڈالر کے پار جا چکی ہیں اور جی ایس ٹی آمدنی کی بڑھتی غیر یقینی کی وجہ سے سرکاری فنڈکا خزانے پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ 2017-18 کے لئے جی ایس ٹی آمدنی، بجٹ تخمینہ سے 1 لاکھ کروڑ کم رہ سکتا ہے۔  اس کا اثر جزوی طور پر گزشتہ  9 مہینوں میں 10 سالہ سرکاری بانڈ منافع میں ہوئے 100 بیسس پوائنٹ کااضافہ کے طور پر دکھائی دے رہا ہے۔  بانڈ منافع میں اس طرح سے اچانک اضافہ معیشت کے مستقبل کو لےکر اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔

ایسے میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ کوٹک مہندرا بینک کے چیئرمین اُدے کوٹک نے گزشتہ ہفتہ کہا کہ ہندوستان کے اہم اقتصادی اشارے اس حکومت کے آنے سے پہلے کہیں بہتر حالت میں تھے-تیل اور سامانوں کی قیمت کم تھی، سرکاری فنڈ  اور چالو کھاتے میں بہتری آ رہی تھی، افراط زر کی شرح میں کمی آ رہی تھی۔  فی الحال ان میں سے زیادہ تر اشارے کی حالت خراب نظر آ رہی ہے اور یہ بانڈ منافع میں ہو رہا اضافہ کے طور پر دکھائی دے رہا ہے۔

یہ حقیقت عالمی تاجروں کے چیف سے پوشیدہ نہیں ہے، جو داووس میں  کافی سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کو دنیا میں کہاں سرمایہ کاری کرنی ہے۔