عالمی خبریں

آخر بین الاقوامی میڈیا نے وزیر اعظم مودی کی تقریر کی ان دیکھی کیوں کی؟

ورلڈ اکانومک فورم کے اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے جو کچھ کہا وہ سب وہ تین سال سے بول رہے ہیں۔  آپ کو برا لگے‌گا لیکن آپ وزیر اعظم کی تقریر میں ہندوستان کی وضاحت دیکھیں‌گے تو وہ دسویں کلاس کے مضمون سے زیادہ کا نہیں ہے۔

Photo : PTI

Photo : PTI

سوٹزرلینڈ کے داووس میں ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے افتتاحی تقریر کو ہندوستانی میڈیا نے نمایاں طور پر چھاپا ہے۔  یہ اور بات ہے کہ کسی نے ان کی تقریر کے تضادات کو چھونے کی ہمت نہیں کی ہے۔اگر ہندوستان کے لئے داووس میں بولنا اتنا بڑا اوینٹ تھا تو کیا آپ نہیں جاننا چاہیں‌گے کہ دنیا کے اخباروں نے اس اوینٹ کو کیسے دیکھا ہے۔  آخر ہندوستان میں جشن اسی بات کا تو من رہا ہے کہ دنیا میں ہندوستان کا ڈنکا بج گیا۔

کیا ہندوستانی میڈیا کی طرح غیر ملکی میڈیا بھی وزیر اعظم مودی کی تقریر سے خوش وخرم تھا؟  آپ ان کی ویب سائٹ پر جائیں‌گے تو مایوسی ہاتھ لگے‌گی۔  اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ غیر ملکی میڈیا ہندوستانی میڈیا کی طرح صرف اپنے وزیر اعظم کی تقریر تک ہی گدگد ہے۔ان کی سائٹ پر دوسرے وزیر اعظم کی تقریر  بھی  ہے۔  اس حساب سے ہندوستان کے وزیر اعظم کی تقریر  کم ہے۔  ہے بھی تو سطحی طریقے سے۔

میں نے اس کے لئے کوارٹز ڈاٹ کام، بلومبرگ، کونٹ ڈاٹ کام، گارڈین اخبار، نیویارک ٹائمس، الجزیرہ، واشنگٹن پوسٹ کی ویب سائٹ پر جاکر دیکھا کہ وہاں افتتاحی  تقریر کی کیسی رپورٹنگ ہے۔  داووس میں مسلسل دوسرے سال ایشیا کو مقام ملا ہے۔  گزشتہ سال چین کے وزیر اعظم نے وہاں افتتاحی  تقریر کی تھی۔بلوم برگ کوینٹ ویب سائٹ نے وزیر اعظم مودی کے بیان کو کافی اچھے سے شائع کیا ہے۔  کم از کم یہاں آپ کو پتا چلتا ہے کہ مودی نے کہا کیا ہے۔  اس ویب سائٹ پر ان کے بیان کے کسی حصے کی تنقید نہیں کی گئی ہے۔  بلوم برگ ایک بزنس ویب سائٹ ہے۔

کوارٹز ڈاٹ کام نے وزیر اعظم مودی کے بیان کو اس طرح سے دیکھا ہے جیسے انہوں نے ٹرمپ کی پالیسیوں کی کھلی تنقید کر دی ہے۔  مودی کی تقریر کے ٹھیک پہلے ٹرمپ نے چین سے در آمد کئے جانے والے سولر پینل پر 30 فیصدی در آمد ٹیکسلگانے کا فیصلہ کیا تھا۔اس کو احتیاطی قدم کے طور پر  دیکھا گیا جس کا اشارہ وزیر اعظم مودی نے اپنی تقریر میں کیاہے۔  اس ویب سائٹ پر بھی مودی کی تقریر کا ٹھیک ٹھاک حصہ چھپا ہے۔

الجزیرہ کی ویب سائٹ پر بھی مودی کی تقریر کا کوریج ہے۔  تقریر کے ساتھ دوسرے بیان بھی ہیں جو ان کی تنقید کرتے ہیں۔  الجزیرہنے انٹرنیشنل ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینیتھ راتھ کا ایک ٹوئٹچھاپا ہے۔  کینیتھ راتھ نے کہا ہے کہ مودی کہتے ہیں کہ سب ایک فیملی ہیں، ان کو بانٹیے مت، لیکن یہ بات تو مودی کی حمایتی  ہندو وطن پرستوں کے ٹھیک الٹ ہے۔

واشنگٹن پوسٹ نے مودی کی تقریر کو خاص اہمیت نہیں دی ہے۔  صرف اتنا لکھا ہے کہ بین الاقوامی مالی فنڈ کی خاتون منیجنگ ڈائریکٹر لگارد نے مودی کے بیان پر چٹکی لی ہے کہ ان کےمنھ سے لڑکیوں کے بارے میں سنتے تو اچھا لگتا۔  ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ کارپوریٹ گورنینس  میں خواتین کی شراکت  بڑھائے جانے کی جو گفتگو دنیا میں چل رہی ہے، اس پر بھی وزیر اعظم بولتے تو اچھا رہتا۔

گارڈیناخبار نے وزیر اعظم مودی کے بیان کو کم اہمیت دیا ہے بلکہ کناڈا کے وزیر اعظم کے بیان کو لیڈ اسٹوری بنائی ہے۔  اسی اسٹوری میں نیچے کے ایک پیراگراف میں ہندوستان کے وزیر اعظم کی تقریر کا چھوٹا سا حصہ چھاپا ہے۔کناڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا ہے کہ کارپوریٹ زیادہ سے زیادہ خواتین کو نوکری دے اور جنسی استحصال کی شکایتوں پر سنجیدگی سے پہل کرے۔  بہت زیادہ ایسے کارپوریٹ ہو گئے ہیں جو ٹیکس بچاتے ہیں، صرف منافع ہی کماتے ہیں اور مزدوروں کے فائدے کے لئے کچھ نہیں کرتے ہیں۔  اس طرح کا عدم مساوات بہت بڑا جوکھم پیدا کرتی ہے۔

نیویارک ٹائمس نے لمبی رپورٹ کی ہے۔  وزیر اعظم مودی کے گلوبلائزیشن کے خلاف حفاظتی طاقتوں کے ابھار کی خبردار اور حقیقت کا موازنہ کیا ہے۔  نامہ نگار بالکل ان کی باتوں سے متاثر نہیں ہے۔اخبار نے لکھا ہے کہ مودی کی تقریر میں زیادہ تر باتیں گلوبلائزیشن کو لےکر تھی، جو گزشتہ سال چین کے وزیر اعظم کے افتتاحی  تقریر میں تھی۔

نیویارک ٹائمس نے اس بات پر زیادہ زور دیا ہے کہ خود بھی تو وزیر اعظم نے کئی چیزوں کے امپورٹ کو محدود کیا ہے۔  ٹی وی، فون کےامپورٹ   کو محدود کیا گیا ہے۔  نامہ نگار نے ایپل پر امپورٹ فیس بڑھانے کا ذکر کیاہے۔  آپ جانتے ہیں کہ ایپل امریکی مصنوعات ہے۔ہندوستان کے میڈیا کی کسی بھی رپورٹ کو پڑھیے، شاید ہی آپ کو ایک آئٹم  کا پتا چلے جس کے برآمد پر کسی ملک نے روک لگائی ہو اور جس کو لےکر  ہندوستان میں ہو رہے نقصان کے بارے میں اس کو پتا ہو۔  در آمد فیس لگا دیا ہو اور ہندوستان کو نقصان ہو رہا ہو۔  خالی جئے-جئےکار  کانعرہ چھاپ‌کر بھائی لوگ نکل جاتے ہیں۔

ویسے مودی کے  بیان کی تنقید میں نیویارک ٹائمس میں کوئی سنجیدہ دلیل نہیں دئے ہیں۔  ایک دو فیصلے کی  بنیاد پر مودی کو تحفظ پسندبتانانا ٹھیک نہیں ہے۔  کر سکتے ہیں مگر تنقید کے لئے  حقیقت اور دلیل سے کریں تو اچھا رہے‌گا۔اخبار نے سولر پینل کے در آمد پر 70 فیصد فیس لگانے کے ہندوستان کی تیاری کی تنقید کی ہے۔  ٹرمپ نے بھی امریکہ میں سولر پینل کے در آمد پر 30 فیصد فیس لگا دیا ہے۔  یہ سولر پینل چین سے در آمد کئے جاتے ہیں۔

گارڈین نے لکھا ہے کہ اس سے امریکہ میں 23000 نوکریاں چلی جائیں‌گی اور صاف ستھری توانائی کی تشہیر کو دھکا پہنچے‌گا۔  ہندوستان میں سولر پینل پر در آمد فیس لگانے کے بارے میں میں نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا بھی ہے۔CNN MONEY نے لکھا ہے کہ داووس میں دو ہی ہاٹ ٹاپک ہیں۔  جان لیوا موسم اور ٹرمپ۔  اس کی سائٹ پر وزیر اعظم مودی کا تحفظ پسند طاقتوں والے بیان کا چھوٹا سا ٹکڑا ہی ہے۔  لگتا ہے ان کو ان کی تقریر میں کچھ نہیں ملا۔  سی این این  منی نے لکھا ہے کہ داووس میں کارپوریٹ اس  تجسس میں ہیں کہ ٹرمپ کیا بولیں‌گے۔  ہرطرف اسی کی گفتگو ہے۔

آپ بھی وزیر اعظم کی تقریر سنئے۔  غور سے دیکھئے کہ اس میں اقتصادی دنیا سے متعلق کیا ہے۔  ریڈ ٹیپ کی جگہ ریڈ کارپیٹ ہے۔  یہ سب بات تو وہ تین سال سے بول رہے ہیں۔  آپ کو برا لگے‌گا لیکن آپ وزیر اعظم کی تقریر میں ہندوستان کی وضاحت دیکھیں‌گے تو وہ دسویں کلاس کے مضمون سے زیادہ کا نہیں ہے۔ہندوستان کے متعلق صفات کے استعمال کر دینے سے مضمون بن سکتا ہے، تقریر نہیں ہو سکتی۔  ضرور کئی لوگوں کو اچھا لگ سکتا ہے کہ انہوں نے دنیا کے سامنے ہندوستان کیا ہے، اس کو رکھا۔

ایسا کیوں ہے جب بھی کوئی رہنما ہندوستان کی وضاحت کرتا ہے، دسویں کے مضمون کے موڈ میں چلا جاتا ہے۔  یہ مسئلہ صرف مودی کے ساتھ نہیں، دوسرے رہنماؤں کے ساتھ بھی ہے۔  گورو گان  تھوڑا کم ہو۔  وزیر اعظم کو اب وسدھیو کٹنبکم اور سروے بھونت سکھنی  سے آگے بڑھنا چاہئے۔  ہر تقریر میں یہی ہو ضروری نہیں ہے۔غیر ملکی میڈیا  کم از کم وزیر اعظم کی جمہوریت والے حصے کو برتری دے سکتا تھا۔  وہ حصہ اچھا تھا۔  ضرور اس کے ذکر کے ساتھ سوال کئے جا سکتے تھے۔  دو مہینے سے ہندوستان کے چینلوں پر ایک فلم کی ریلیز ہونے کو لےکر بحث ہو رہی ہے۔  جگہ جگہ دنگا فساد ہو رہے  ہیں۔

ایک کمیونٹی میں ذات اور مذہب کا کاک ٹیل گھول‌کر نشے کو نیا رنگ دیا جا رہا ہے۔  راجستھان کے ادئےپور میں ایک قتل کے ملزم کی حمایت میں لوگوں کا گروہ عدالت کی چھت پر بھگوا پرچم لےکر  چڑھ جاتا ہے اور ڈر سے کوئی بولتا نہیں ہے۔سپریم کورٹ کے چارچار سینئر جج چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔  ایسے وقت میں جب پوری دنیا میں جمہوریت کو چیلنج کا سامنا ہے، غیر ملکی میڈیا ادارہ وزیر اعظم مودی کے اس تقریر کو برتری دے سکتی تھی۔

داووس سے دیگر اخبار 

داووس سے جاری تین بڑی رپورٹ کی جانکاری ادھر ادھر چھپی ملی۔  آلودگی پر اور اکو سسٹم کے تحفظ پر جاری ایک رپورٹ میں ہندوستان کو 180 ممالک میں 177ویں  نمبر پر بتایا گیا ہے۔  دو سال پہلے ہندوستان 156  نمبر پر تھا۔  یعنی ہندوستان کا مظاہرہ خراب ہوا ہے۔یہ فہرستا یئل سینٹر فار انوائرمینٹ لا اینڈ پالیسی نے تیار کی ہے۔  وزیر اعظم مودی نے آب وہوا تبدیلی کو بڑا چیلنج بتایا تھا۔  ہندوستان کا ہی مظاہرہ دو پائدان نیچے لڑھک گیا ہے۔

داووس میں ہی جاری inclusive development  کی رپورٹ میں ہندوستان 62ویں مقام پر ہے۔  دو پائدان نیچے گرا ہے۔  پاکستان ہندوستان سے 15 پائیداناوپر 47 پر ہے۔  ہندوستان کے وزیر اعظم مودی نے inclusive development  بھی زور دیا مگر ان کا اپنا رکارڈ کیسا ہے، یہ اس فہرست میں دکھتا ہے۔

ایک قاری کے طور پر جاننے کی خواہش ہے کہ inclusive development  میں پاکستان کیسے ہندوستان سے آگے ہو سکتا ہے۔  ہندوستانی میڈیا پاکستان کو لےکر بےوقوفی بھری جانکاری دیتی ہے۔  یا تو سرحد کی سرگرمی بتاتی ہے یا پھر لاہور کے کباب کی۔پاکستان میں مسلم اور ہندو اقلیتوں کے خلاف تشدد آمیز خبریں آتی رہتی ہیں۔  بڑے پیمانے پر شیعہ  اور احمدی کے قتل ہوتے رہے ہیں۔

ایک رپورٹ آکسفیم کی ہے۔  اقتصادی عدم مساوات کی رپورٹ جس کو ہندوستان کی میڈیا نے نمایاں طور پر نہیں چھاپا۔  اس رپورٹ سے یہ پتا چلتا ہے کہ دنیا بھر‌کے ساڑھے تین ارب لوگوں کے پاس جتنا پیسہ ہے، اتنا محض 44 امیروں کے پاس ہے۔  ان 44 لوگ کی اقتصادی طاقت 3.7 ارب لوگوں کے برابر ہے۔  آپ تصور کر سکتے ہیں دنیا میں عدم مساوات کا کیا عالم ہے۔