خبریں

مغربی بنگال: اردو میڈیم اسکولوں میں اساتذہ کی شدیدقلت،کئی اسکول بند ہونے کے قریب

 2011میں ممتا بنرجی کے اقتدار میں آنے کے بعد اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیدیا گیا اور اس کیلئے اسمبلی میں لنگویج ایکٹ میں تبدیلی کرکے قانونی درجہ دیدیا گیا ۔

علامتی تصویر : انڈین ایکسپریس

علامتی تصویر : انڈین ایکسپریس

کلکتہ:مغربی بنگال میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہونے کے سات سال مکمل ہونے کے بعد بھی ریاست کے اردو میڈیم سیکنڈری، ہائی سیکنڈری اسکولوں میں اساتذہ کی شدید قلت کا مسئلہ حل نہیں ہونے کی وجہ سے بحرانی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔تعلیمی معیار میں گراوٹ آنے کے ساتھ ہی کئی اسکولوں میں سائنس و کامرس کے سبجیکٹ کی تعلیم بند ہوگئی ہے اور جہاں اب تک باقی ہے وہاں کئی اہم سبجیکٹ کے اساتذہ نہیں ہیں ۔ان صورت حال میں اردو میڈیم اسکولوں میں زیر تعلیم طلبا ء کا مستقبل تاریک ہوتا ہوا نظرآرہا ہے اور وہ اب اپنے مستقبل کے پیش نظر دوسرے میڈیم کے اسکولوں میں داخلہ کرانے پر مجبور ہیں ۔

بنگال اردو اکیڈمی کے سالانہ اردو کتاب میلہ میں شرکت کیلئے آئے مختلف اردو میڈیم اسکولوں کے اساتذہ نے شدت کے ساتھ اس مسئلے کو اٹھا یا اور کہا کہ اگر اردو میڈیم اسکولوں میں اساتذہ کی قلت کا مسئلہ ترجیحی بنیاد پر حل نہیں کیا گیا تو آئند ہ چند سالوں میں اردو اسکول اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکیں گے اور بیشتر اسکول اساتذہ کے نہیں ہونے کی وجہ سے بند ہوسکتے ہیں ۔

خیال رہے کہ 2011میں ممتا بنرجی کے اقتدار میں آنے کے بعد اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیدیا گیا اور اس کیلئے اسمبلی میں لنگویج ایکٹ میں تبدیلی کرکے قانونی درجہ دیدیا گیا ۔اس حق کو حاصل کرنے کیلئے اردو برادری کو تین دہائیوں تک جدوجہد کرنا پڑا تھا۔

آل بنگال اردو میڈیم اسکول ایسوسی ایشن نے ستمبر 2016میں ریاست کے سرکاری سیکنڈری و ہائی سیکنڈری اسکولوں کا سروے کرکے ایک رپورٹ جاری کیا تھا۔سروے میں شامل ماسٹر اسلم علی نے بتایا کہ بنگال میں مکمل سرکاری اردو میڈیم سیکنڈری، ہائی سیکنڈری اسکولوں کی کل تعداد 68کے آس پاس ہے جس میں سے 58اسکولوں نے سروے میں تعاون کیا۔
انہوں نے کہا سروے کے مطابق ریاست میں اردو میڈیم سیکنڈری، جونےئر سیکنڈری اور ہائی سیکنڈری اسکولوں میں کل 68585طلباء زیر تعلیم ہیں جس کیلئے اس وقت 1268اساتذہ کی آسامی سیکشن ہیں مگر اس میں ستمبر 2016تک صرف 549اساتذہ ہیں ۔اور کل 727اساتذہ کی سیٹیں خالی ہیں اور اس میں 451سیٹیں شیڈول کاسٹ ، شیڈول ٹرائب کیلئے ریزرو ہیں اور 276عام سیٹیں ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ 2013کے بعد اردو میڈیم جونےئرسیکنڈری، سیکنڈری اورہائی سیکنڈری اسکولوں میں کوئی بحالی نہیں ہوئی اس لیے گزشتہ چار سالوں میں اساتذہ کی مزید سیٹیں خالی ہوئی ہوں گی۔

 ایسوسی ایشن کے اہم رکن ماسٹراسلم علی اور شمیمہ بانو نے بتایا کہ اردو اسکولوں کا سب سے بڑا مسئلہ ریزرویشن ہے۔چوں کہ شیڈول کاسٹ ، شیڈول ٹرائب کیلئے ریزرو سیٹوں پر کوئی امیدوار نہیں آتا ہے اس کی وجہ سے یہ سیٹیں خالی خالی رہ جاتی ہیں بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا چلاجاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ 2010میں اردو میڈیم اسکولوں کے اساتذہ کی تحریک کی وجہ سے سابق وزیرا علیٰ بدھا دیب بھٹا چاریہ نے 101 ریزرو سیٹوں کو ڈی ریزرو کردیا تھا او ر اس کے بعد اسکولوں میں بحالی ہوئی ۔مگر یہ قدم عارضی تھا۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 4سالوں میں جنرل سیٹوں پر بھی بحالی نہیں ہوئی اس کی وجہ سے 276کے قریب اساتذہ کی جنرل سیٹیں خالی ہیں ۔

کانکی ناڑہ گرلس ہائی اسکول کی ٹیچر شمیمہ بانو نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں سے اردو میڈیم اسکولوں کی جانب مسلم لیڈروں نے توجہ نہیں دیا ہے ۔ہم لوگوں نے سیاسی لیڈروں کے دروازے پر دستک دی اور ان کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی متعدد مرتبہ کوشش کی مگر کوئی بھی ہماری آواز، پریشانی اور مشکلات کو وزیر اعلیٰ تک نہیں پہنچایا اور آج نتیجہ یہ ہے کہ بیشتر اسکولوں میں اساتذہ کا بحران ہے۔شمیہ ریحان نے سوال کیا کہ جب اردومیڈیم سے طلباء ہی نہیں تیار ہوں گے تو سمینار، مشاعرے اور میلے سے اردو کا تحفظ نہیں ہوسکتا ہے ۔

خیال رہے کہ ہگلی ضلع جہاں چاپدانی، رشڑا، تیلنی پاڑہ اوربانسبڑیا جیسی 5لاکھ کے قریب اردو آبادی ہے ۔مگر یہاں کوئی بھی اردو میڈیم سیکنڈری سرکاری ہائی اسکول نہیں ہے ۔صرف ایک ہائی مدرسہ ہے ۔اس کے علاوہ چاپدانی جونےئر گرلس ہائی اسکول میں ایک بھی ٹیچر نہیں ہے صرف ایک کلرک ہے اور اسکول کمیٹی اپنے طور پر اسکول چلارہی ہے۔اسی طرح رائے گاچھی شمالی 24 پرگنہ میں 250طلباء زیر تعلیم ہیں مگر یہاں صرف ایک ٹیچر ہے۔

کلکتہ شہر کا مشہور اسلامیہ ہائی اسکول جہاں 1500کے قریب بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں بھی وہ بھی اساتذہ کی قلت کا شکارہے۔یہاں اساتذہ کی کل 40سیٹیں ہیں جس میں اس وقت محض 15اساتذہ ہیں ۔اسکول کے ہیڈماسٹر محمد خالد رضا نے بتایا کہ ہم نے روشٹر کو مکمل کیا ہے اور باربار اسکول سروس کمیشن اور دیگر محکموں کے دروازے کھٹکھٹائے ہیں مگر کوئی بھی ہماری مدد کو تیار نہیں ہوا ۔انہوں نے کہا کہ اسکول کا انفراسٹکچر بہت بہترین ہے ۔لیپ سے لے کر لائبریری اور دیگر تمام سہولیات ہیں مگر اساتذہ ہی نہیں ہوں گے تو تعلیمی معیار کیسے بلند ہوگا۔انہوں نے کہا کہ چوں کہ چھٹی کے دنوں میں اسکول کو شادی بیاہ کی تقریبات کیلئے کرایہ پر دیا جاتا ہے اس لیے اس کی آمدنی سے ہم لوگ پارٹ ٹائم ٹیچروں کو بحال کرکے کسی بھی طریقے سے نصاب کو مکمل کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ایک استاذ ہونے کی حیثیت سے ہم اپنے طلباء کا مستقبل خراب ہونا نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔

اسٹر اسلم علی نے بتایا کہ جنوبی 24پرگنہ کے مٹیابرج علاقے میں واقع مولانا حسرت موہانی ہائی اسکول میں سائنس و کامرس کا سیکشن اساتذہ نہیں ہونے کی وجہ سے بند ہوگیا ہے اور یہاں2ہزار کے قریب بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر یہاں صرف 6اساتذہ ہیں ۔اسی طرح گارڈن ریچ مولانا آزاد میموریل گرلس ہائی سیکنڈری اسکول جہاں 4ہزار کے قریب بچیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں یہاں صرف 15ٹیچر اس وقت ہیں ۔جس میں کئی اہم سبجیکٹ جس میں کیمسٹری اور ریاضی شامل ہے کے استاذ ہی نہیں ہے ۔

اس اسکول کی ہیڈ مسٹریس رشیدہ خاتون نے بتایا کہ ہم لوگ بچوں سے سالانہ 240روپے فیس لیتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ اس سے اسکول کی کوئی آمدنی نہیں ہے ۔مگر اس کے باوجود ہم لوگ مقامی افراد کے تعاون سے پارٹ ٹائم ٹیچروں کو بحال کرکے اسکول چلارہے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ کئی اساتذہ تو ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی ایک سال سال تک پڑھایاہے۔
مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے کارگزار وائس چیرمین سید محمد شہاب الدین نے یواین آئی بتایا کہ اردو اسکولوں میں اساتذہ کی شدید قلت یقیناًایک بڑا مسئلہ ہے اور اگر اس پر توجہ دیاجانا ضروری ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم لوگ جلد ہی اکیڈمی کی ایگزیکٹیو کمیٹی کی میٹنگ میں اس بحران پر غور کریں گے اور کچھ نہ کچھ اقدام کیا جائے گا۔خیا ل رہے کہ مغربی بنگال اردو اکیڈمی کا سالانہ بجٹ 15کروڑ روپے کے قریب ہے ۔

خیال رہے کہ محکمے تعلیم کی ایک رپورٹ کے مطابق مغربی بنگال میں تقریبا5ہزار پرائمری اسکول ہیں جس میں اردو میڈیم اسکولوں کی تعداد 50ہزار کے قریب ہے ۔سیکنڈری اسکولوں کی کل تعداد 12ہزار کے قریب ہے جس میں اردو میڈیم اسکولوں کی تعداد 80کے قریب ہے ۔جب کہ ہائی سیکنڈری اسکولوں کی کل تعداد 8ہزار کے قریب ہے جس میں اردو میڈیم ہائی اسکولوں کی تعداد 50کے قریب ہے ۔یعنی 0.62 کے قریب ہے۔خیال رہے کہ اس میں سرکاری اور امداد یافتہ اسکولوں کی بھی تعداد شامل ہے ۔