فکر و نظر

’آپ کی شاندار فلم کے آخر میں ، میں نے خود کو محض ایک اندام نہانی  میں سمٹتا ہوا محسوس کیا‘

 سنجے لیلا بھنسالی کو لکھے ایک خط میں فلم ایکٹر سورا بھاسکر نے پدماوت فلم کو ستی اور جوہر کی روایتوں کی شان و شوکت بتاتے ہوئے سوال اٹھائے ہیں۔

Photo: Youtube

Photo: Youtube

ڈیئربھنسالی صاحب،

سب سے پہلے آپ کو مبارکباد کہ آپ آخرکار اپنی شاندار فلم ‘ پدماوت ‘بنا ’ی‘ کے اور دیپکا پادوکون کی خوبصورت کمر اور غالباً کاٹے گئے 70شاٹوں کے بغیر، ریلیز کرنے میں کامیاب ہو گئے۔  آپ اس بات کے لئے بھی مبارکباد  کہ آپ کی فلم ریلیز بھی ہو گئی اور نہ کسی کا سر اس کے جسم سے الگ ہوا، نہ کسی کی ناک کٹی۔

اور آج کے اس ‘ رواداری ‘ والےہندوستان میں، جہاں گوشت کو لےکر لوگ قتل کر دیے جاتے ہیں اور کسی روایتی  مردانہ فخر کے جذبہ کا بدلہ لینے کے لئے اسکول جاتے بچوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اان سب کے درمیان آپ کی فلم ریلیز ہو سکی، یہ اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے۔  اس لئے آپ کو ایک بار پھر سے مبارکباد۔

آپ اس لئے بھی مبارکباد کے حقدار ہیں، کیونکہ آپ کے تمام آرٹسٹ،مرکزی  اور معاون اداکاروں نے غضب کی اداکاری کی ہے۔  بے شک، یہ فلم کسی بےحدشاندار ، حیرت زدہ کرنے والے نظارے کی طرح تھی۔  لیکن بات یہ بھی ہے کہ ہر چیز پر اپنی چھاپ چھوڑ دینے والے آپ کے جیسے شاندار ہدایت کار سے یہی امید کی ہی جاتی ہے۔

بہر حال سر، ہم دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔  مجھے نہیں پتا کہ آپ کو یہ یاد ہے یا نہیں، لیکن میں نے آپ کی فلم گزارش میں ایک چھوٹا سا رول نبھایا تھا۔  ٹھیک ٹھیک کہوں، تو اس میں میرا کردار دو سین کا تھا۔  مجھے یاد ہے کہ میرے مکالمے کو لےکر میری آپ سے ایک چھوٹی سی بات چیت ہوئی تھی اور آپ نے مکالمے کو لےکر میری رائے پوچھی تھی۔

مجھے یاد ہے کہ میں ایک مہینے تک اس بات پر فخر محسوس کرتی رہی کہ سنجے لیلا بھنسالی نے مجھ سے میری رائے پوچھی تھی۔  میں نے ایک سین میں آپ کو جونیئر فنکاروں کو اور دوسرے میں جمی جِب آپریٹر کو شاٹ کی باریکی کے بارے میں پرجوش ہوکر سمجھاتے ہوئے دیکھا۔  اور مجھے یاد ہے، اس وقت میرے دل میں خیال آیا تھا-‘ واہ، یہ آدمی اپنی فلم کی چھوٹی سی چھوٹی باریکی کی ، حقیقت میں پرواہ کرتا ہے۔  ” میں آپ سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکی تھی۔

میں آپ کی فلموں کے پُرجوش ناظرین میں سے ہوں اور جس طرح سے آپ اپنی ہر فلم سے اپنے ہی بنائے گئے معیاروں کو اور اوپر اٹھاتے ہیں اور جس طرح سے آپ کی ہدایت میں ستارے جاندار، گہرے اداکاروں میں تبدیل ہو جاتے ہیں، وہ بات مجھے حیرت زدہ کرتی ہے۔

یادگار عشقیہ کہانی کیسی ہونی چاہیے، اس کو لےکر میرے خیالات کو گڑھنے میں آپ کا کردار رہا ہے۔  میں اس دن کا خواب دیکھا کرتی تھی جب آپ مجھے کسی فلم کے مرکزی کردار کے طور پر ڈائریکٹ کریں‌گے۔  میں آپ کی فین تھی اور فین ہوں۔

اور میں آپ کو یہ بتانا چاہوں‌گی کہ میں نے حقیقت میں آپ کی فلم کے لئے لڑائی لڑی۔  اس وقت جب اس کو پدماوتی سے ہی پکارا جا رہا تھا۔  میں بتانا چاہوں‌گی کہ میں نے لڑائی کے میدان میں تو نہیں لیکن ٹوئٹر ٹائم لائن پر لڑائی ضرور لڑی، جہاں ٹرالس سے میرا جھگڑا ہوا، لیکن پھر بھی میں آپ کے لئے لڑی۔میں نے ٹی وی کیمرے کے آگے وہ باتیں کہیں، جو مجھے لگ رہا تھا کہ آپ 185 کروڑ روپے پھنسے ہونے کی وجہ سے نہیں کہہ پا رہے تھے۔  یہاں اس کا ثبوت ہے:

اور میں نے جو کہا، اس پر پوری سچائی کے ساتھ یقین کیا۔  میں نے پوری سچائی کے ساتھ یہ یقین کیا اور آج بھی کرتی ہوں کہ اس ملک کے ہر دوسرے آدمی کو وہ کہانی کہنے کا حق ہے، جو وہ کہنا چاہتا ہے اور جس طرح سے کہنا چاہتا ہے۔وہ اپنی ہیروئن کے پیٹ کو جتنا چاہے کھول‌کے دکھا سکتا ہے اور ایسا کرتے ان کو اپنی سیٹوں کو جلائے جانے کا، مارپیٹ کئے جانے، اعضا کو کاٹے جانے، جان جانے کا ڈر نہیں ستائے‌گا۔

ساتھ ہی، سادہ لفظوں میں کہیں، تو لوگوں کے پاس فلم بنانے اور اس کو ریلیز کرنے کی صلاحیت بچی رہنی چاہیے اور بچوں کے محفوظ طریقے سے اسکول جانے پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے۔  اور میں چاہتی ہوں کہ آپ یہ جانیں کہ میں سچ مچ چاہتی تھی کہ آپ کی فلم کو زبردست کامیابی ملے۔

یہ بھی پڑھیں: فلم پدماوتی : راجپوتانہ شان یا علاءالدین خلجی کی مخالفت ؟

یہ باکس آفس پر کامیابی کے سارے رکارڈ توڑ دے۔ اس فلم کی کمائی اپنے آپ میں کرنی سیناکے دہشت گردوں اور اس سے ہمدردی رکھنے والوں کے منھ پر کسی طمانچہ کی طرح ہوتی۔  اور اس لئے کافی جوش اور کافی پوری گرم جوشی کے ساتھ میں نے پدماوت کے پہلے دن کے پہلے شو کی ٹکٹ بک کرائی اور اپنی پوری فیملی اور باورچی کو ساتھ لےکر فلم  دیکھنے گئی۔

شاید فلم کے ساتھ اس لگاؤ اور اس ضرورت کی وجہ سے ہی اس کو دیکھنے کے بعد میں سن رہ گئی۔  اور شاید اسی وجہ میں آپ کو آزاد ہوکر لکھنے کی گستاخی کر رہی ہوں۔  میں اپنی بات سیدھے اندازمیں اور مختصراً کہنے کی کوشش کروں‌گی، ویسے تو کہنے کے لئے کافی کچھ ہے۔

  • سر، ریپ ہونے کے بعد بھی عورت کے پاس زندہ رہنے کا حق ہے۔
  • شوہروں اور ان کی Sexuality کے مرد محافظوں، سوامیوں، نگراں چاہے جس شکل میں آپ مرد کو دیکھنا چاہیں…کی موت کے بعد بھی عورتوں کو جینے کا حق ہے۔
  • مرد زندہ ہوں یا نہ ہوں، عورتوں کو اس بات سے آزاد ہوکر جینے کا حق ہے۔
  • عورتوں کے پاس زندہ رہنے اور ماہواری کا حق ہے۔

یہ اصل میں کافی بنیادی بات ہے۔  کچھ اور بنیادی پوائنٹ اس طرح ہیں :

  • عورتیں چلتی پھرتی، بتیاتی شرمگا ہ نہیں ہیں۔
  • ہاں، عورتوں کے پاس شرمگاہ ہوتی ہیں، مگر وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔  اس لئے ان کی پوری زندگی کو اندام نہانی سے باہر رکھ‌کر، اس کو منضبط کرنے، اس کی حفاظت کرنے اور اس کا رکھ رکھاؤ کرنے سے باہر رکھ‌کر دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔  (ہو سکتا ہے کہ 13ویں صدی میں ایسا ہوتا رہا ہو، لیکن 21ویں صدی میں ایسے خیالات کی تقلید کرنے کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔  اور ہمیں اس کی ستائش تو یقینی طور پر نہیں کرنی چاہیے۔)
  • یہ اچھا ہوتا اگر شرمگاہوں کی عزت کی جاتی، مگر اگر بدقسمتی  سے ایسا نہ ہو، تو بھی عورتیں اپنی زندگی جی سکتی ہیں۔  ان کو سزا کے طور پر موت دینے کی ضرورت نہیں ہے کہ دوسرے آدمی نے اس کی خواہش کے خلاف اس کے شرمگاہ کی بے عزتی کرنے کی جرٲت کی۔
  • اندام نہانی کے باہر بھی زندگی ہے اس لئے ریپ کے بعد بھی ایک زندگی ہو سکتی ہے۔  (مجھے معلوم ہے کہ میں یہ دوہرا رہی ہوں، لیکن اس پر جتنا زور دیا جائے، کم ہے۔)
  • سادہ لفظوں میں کہیں ، تو زندگی میں اندام نہانی کے علاوہ بھی کافی کچھ ہے۔

آپ یہ سوچ‌کر پریشان ہو رہے ہوں‌گے کہ آخر میں اس طرح سے اندام نہانی میں ہی کیوں اٹک گئی ہوں کیونکہ سر، آپ کی شاندار فلم کو دیکھنے کے بعد مجھے اندام نہانی جیسا ہونے کا احساس ہوا۔  مجھے ایسا لگا کہ میں محض ایک اندام نہانی میں محدود کر دی گئی ہوں۔

مجھے ایسا لگا کہ پچھلے کئی سالوں میں عورتوں اور تحریک نسواں نے جو ‘ چھوٹی موٹی ‘ کامیابیاں حاصل کی ہیں، جیسے، ووٹ دینے کا حق، جائیداد کی ملکیت کا حق، تعلیم کا حق، یکساں کام کے لئے یکساں تنخواہ کا حق، Maternity leave، وشاکھا فیصلہ، بچّے کو گود لینے کا حق، یہ ساری کامیابیاں بےمعنی تھیں کیونکہ ہم گھوم پھر‌کے بنیادی سوال پر پہنچ گئے ہیں۔

ہم سب زندگی کے حق کے بنیادی سوال پر پہنچ گئے ہیں۔  مجھے ایسا لگا کہ آپ کی فلم نے ہمیں اندھیرے یگ کے اس سوال پر پہنچا دیا ہے۔کیا عورت-بیوہ، ریپ کی ہوئی ، نوجوان، بوڑھی، حاملہ، نابالغ کو زندہ رہنے کا حق ہے؟میں یہ سمجھتی ہوں کہ جوہر اور ستی ہماری سماجی تاریخ کا حصہ ہیں۔  یہ حقائق ہیں۔  میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ سنسنی خیز، ڈراؤنی، ڈرامائی واقعات ہیں، جن کو بھڑکیلے اور خواب آور مناظر میں ڈھالا جا سکتا ہے خاص کر اگر اس کو آپ کے جیسے سدھے ہوئے فلمساز کے ذریعے پردے پر اتارا جائے۔

لیکن، پھر 19ویں صدی میں قاتلوں گورے گروہوں کے ذریعے کالوں کو پیٹ پیٹ‌کر مار دینے کا منظر بھی اسی طرح سے سنسنی خیز، ڈراؤنی اور ڈرامائی سماجی واقعات تھے۔  کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو نسل پرستی کی بدصورت سچائی کو دھیان میں رکھے بغیر ہی اس موضوع پر فلم بنا دینی چاہیے؟یا ایسی فلم بنا دینی چاہیے، جس میں نسلی نفرت پر کوئی تبصرہ نہ ہو؟  اس سے بھی خراب بات کہ کیا کسی کے گرم خون، پاکیزگی اور بہادری کی علامت کے طور پر پیٹ پیٹ‌کرجان لے لینے کو ستائش کرنے والی کوئی فلم بنانی چاہیے-مجھے نہیں پتا ہے۔  میرے لئے یہ سمجھ سے پرے ہے کہ آخر کوئی ایسے گھناؤنے جرم کی کیسے ستائش کر سکتا ہے؟

سر، میرا یہ پکا یقین ہے کہ آپ اس بات سے اتفاق رکھتے ہوں‌گے کہ ستی اور جوہر کی روایت ستائش  کی چیزیں نہیں ہیں۔  یقیناً، آپ اس بات سے اتفاق رکھتے ہوں‌گے کہ شہرت، قربانی، پاکیزگی کے چاہے جس قدیم خیال کی وجہ سے خاتون اور مرد ایسی روایتوں میں شامل ہوتے ہیں، مگر ستی اور جوہرعورت کے ختنے اور آنر کلنگ کی ہی طرح گہرے تک پدری، خاتون مخالف اور مسئلہ سے بھرے خیالات میں ڈوبا ہوا ہے۔

سورا بھاسکر

سورا بھاسکر

یہ وہ ذہنیت ہے، جو یہ مانتی ہے کہ کسی خاتون کی قیمت اس کی اندام نہانی میں  ہے، جو یہ مانتی ہے کہ اگر خواتین پر کسی مرد مالک کا قابو نہیں ہے یا ان کے جسموں کو اگر کسی ایسے مرد کے لمس یا یہاں تک کہ نظروں سے، جس کو سماج نے خاتون پر ملکیت جتانے یا منضبط کرنے کا حق نہیں دیا ہے، ناپاک کر دیا گیا ہو، تو عورت کی  زندگی بےمعنی اور فضول ہے۔

ستی، جوہر، خاتون ختنہ، آنرکلنگ وغیرہ کی روایتوں کی ستائش نہیں کی جانی چاہیے، کیونکہ یہ صرف عورت سے مساوات کا حق نہیں چھینتی ہیں، بلکہ، یہ کسی عورت سے اس کی شخصیت بھی چھین لیتی ہیں۔

وہ عورتوں کو انسانیت سے خالی کر دیتی ہیں۔  وہ عورتوں سے زندگی کا حق چھین لیتی ہیں۔  اور یہ غلط ہے۔  ہم یہ مان‌کر چل سکتے تھے کہ 2018 میں ان باتوں پر بات کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہونی چاہیے، لیکن ایسا لگتا ہے، اس کی ضرورت بنی ہوئی ہے۔  یقیناً آپ خاتون ختنہ اور آنر کلنگ کی ستائش کرنے والی فلم بنانے پر غور و فکر نہیں کریں‌گے۔

سر، آپ کہیں‌گے کہ میں رائی کا پہاڑ بنا رہی ہوں۔  آپ کہنا چاہیں‌گے کہ مجھے فلم کو ا س کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔  آپ کہیں‌گے کہ یہ 13ویں صدی کے لوگوں کے بارے میں کہانی ہے۔ اور 13ویں صدی میں زندگی ایسی ہی تھی-ایک سے زائد شادیاں قابلِ قبول تھیں۔  مسلمان جانوروں جیسے تھے، جو گوشت اور خاتون کا بھوگ یکساں شوق سے کرتے تھے۔  اور عزت دار خواتین خوشی خوشی اپنے شوہروں کی چتا میں کود جایا کرتی تھیں اور اگر وہ شوہر کے انتم سنسکار میں نہیں پہنچ پاتی تھیں، تو وہ ایک چتا تیار کرتی تھیں اور اس میں چھلانگ لگا دیتی تھیں۔  آپ کہیں‌گے کہ حقیقت میں وہ اجتماعی خودکشی کے خیال کو اتنا پسند کرتی تھیں کہ وہ اپنے روزانہ کی زیبائش و آرائش کے دوران اس کے بارے میں ہنستے ہوئے باتیں کیا کرتی تھیں۔  ایسا ممکن تھا، آپ مجھ سے کہیں‌گے۔

نہیں سر، اپنی ظالمانہ روایتوں کے ساتھ 13ویں صدی کا راجستھان بس اس عظیم رزمیہ کا تاریخی اسٹیج ہے، جس کو آپ نے اپنی فلم پدماوت میں دکھایاہے۔  لیکن، آپ کی فلم کا تناظر 21ویں صدی کا ہندوستان ہے ؛ جہاں ملک کی راجدھانی میں ایک پانچ سال کی بچّی کے ساتھ چلتی بس‌کے اندر گینگ ریپ کیا گیا۔اس نے اپنی عزّت کے ناپاک ہو جانے کی وجہ سے خودکشی نہیں کی۔ بلکہ سر وہ اپنے چھ ریپ کرنے والوں کے ساتھ لڑی۔  اس کی اس لڑائی میں اتنی طاقت تھی، کہ ان میں سے ایک درندے نے  لوہےکی چھڑ اس کی اندامِ نہانی کے اندر گھسا دی۔ وہ سڑک پر پڑی ملی، جہاں اس کی انتڑیاں تک باہر آ گئی تھیں۔  یہ تفصیل دینے کے لئے میں معافی چاہوں‌گی، لیکن سر، آپ کی فلم کا اصل ‘ تناظر ‘ یہی ہے۔

آپ کی فلم کے ریلیز ہونے سے ایک ہفتہ پہلے، ایک 15 سالہ دلت لڑکی کے ساتھ ہریانہ کی جیند میں وحشیانہ ریپ  ہوا۔  یہ جرم خوفناک طریقے سے نربھیا معاملے سے ملتا جلتا تھا۔آپ کو یہ بخوبی پتا ہے کہ ستی اور عورت کے ساتھ ریپ، ایک ہی ذہنیت کے دو پہلو ہیں۔  ایک ریپ کرنے والا، عورت کو کنٹرول کرنے کے لئے، اس پر تسلط قائم کرنے کے لئے یا اس کے وجود کو مٹا دینے کے لئے اس کی اندامِ نہانی پر حملہ کرنے اور اس کی بے عزتی کرنے، اس کو نیست و نابود کر دینے کی کوشش کرتا ہے۔

ستی،جوہر پر اگر مگر کرنے والا یا اس کی کوئی حامی خاتون کے وجود کو ہی پوری طرح مٹا دینے کی کوشش کرتا ہے، اگر اس کے اندامیِ نہانی کی بے عزتی کی گئی ہو، یا پھر وہ اس کے ‘جائز ‘ مرد مالک کے قابو میں نہیں رہ جاتے۔  دونوں ہی حالات میں کوشش اور سوچ یہی ہوتی ہے کہ کسی عورت کو اس کی اندامِ نہانی میں ہی محدود کر دیا جائے۔

کسی بھی آرٹ کا تناظر وہ وقت اور مقام ہوتا ہے، جہاں / جب اس کی تشکیل اور استعمال کیا جاتا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ گینگ ریپ  سے متاثر یہ ہندوستان،ریپ  کی اندیکھی کرنے والی ذہنیت، متاثرین پر ہی جرم مڑھنے والا سماج ہی آپ کی فلم کا اصلی تناظر ہے۔  سر، یقینی طور پر اپنی فلم میں ستی اور جوہر کی کوئی تنقید پیش کر سکتے تھے۔آپ یہ کہیں‌گے کہ آپ نے فلم کی شروعات میں ایک ڈس کلیمر دیا تھا، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ فلم ستی یا جوہر کی حمایت نہیں کرتی ہے۔  یہ بات صحیح ہے، لیکن آپ نے اس کے بعد 2 گھنٹے 45 منٹ تک راجپوتانہ آن  بان اور شان، چتا میں جل‌کر مر جانے کا راستہ چننے والی معزز راجپوت خواتین کی جرٲت کا فتح گیت سناتے رہے۔

یہ خواتین اپنے شوہروں کے علاوہ کسی دشمن کے ذریعے چھوئے جانے، جو اتفاق سے مسلم تھے، کی جگہ چتا میں جل‌کر مر جانے کا راستہ چنتی ہیں۔  تین بار سے زیادہ آپ کی کہانی کی اچھے کرداروں نے ستی / جوہر کو ایک باعزّت کے راستہ بتایا۔آپ کی ہیروئن، جو خوبصورتی اور عقل کی خود مثال ہے، اپنے شوہر سے جوہر کرنے کی اجازت مانگتی ہے، کیونکہ وہ اس کی اجازت کے بغیر یہ بھی نہیں کر سکتی تھی۔  اس کے ٹھیک بعد، اس نے سچ اور جھوٹ، مذہب اور غیرمذہب کے درمیان جنگ کو لےکر ایک لمبی تقریر کی اور اجتماعی ستی کو سچ اور مذہب کے راستے کے طور پر پیش کیا۔

اور اس کے بعد کلائمکس میں، جس کو بےحد شاندار و جاندار طریقے سے فلمایا گیا ہے، دیوی درگا کی طرح لال رنگ‌کے کپڑوں میں سجی سینکڑوں خواتین جوہر کی آگ میں چھلانگ لگا دیتی ہیں۔دوسری طرف ایک پاگل مسلم  نفسیاتی مریض بدمعاش ان کی طرف دیکھتا رہتا ہے اور بیک گراؤنڈمیں ایک پھڑکتی ہوئی موسیقی بجتی ہے، جس میں کسی قومی گیت جیسی طاقت ہے-اس منظر میں ناظرین کو حیرت زدہ کر دینے اور اس کھیل کا مداح بنا دینے کی صلاحیت تھی۔  سر، اگر یہ ستی اور جوہر کی ستائش کرنا نہیں ہے، تو مجھے سچ مچ نہیں پتا کہ آخر کس چیز کو ایسا کہا جائے‌گا؟

مجھے آپ کی فلم کا کلائمکس دیکھتے ہوئے، حاملہ خواتین اور چھوٹی بچّی کو آگ میں کودتے ہوئے دیکھ کر کافی تکلیف دہ تجربہ ہوا۔  مجھے لگتا کہ میرا پورا وجود ہی غیر قانونی ہے، کیونکہ اگر خدا نہ کرے، میرے ساتھ کچھ غلط ہو جاتا ہے، تو میں اس آگ کے گڑھے سے باہر نکل آنے کے لئے کچھ بھی کروں‌گی-بھلےہی اس کا مطلب خلجی جیسے شیطان کی ہمیشہ کے لئے غلام بن‌کے رہنا ہی کیوں نہ ہو۔

لیکن، اس وقت مجھے ایسا لگا کہ موت کے اوپر زندگی کو منتخب کرنا میری غلطی تھی۔  مجھے لگا کہ زندگی کی خواہش رکھنا غلط ہے۔  سر، یہی تو سینما کی طاقت ہے۔سر، آپ کی فلمیں خاص طور پر ترغیب دینے والی، جذبہ جگانے والی اور طاقت ور ہے۔  یہ ناظرین کو جذباتیت کی جوار-بھاٹے میں دھکیل سکتی ہے۔  یہ سوچ کو متاثر کر سکتی ہے اور سر، یہی وجہ ہے کہ آپ کو اس بات کو لےکر پوری طرح ذمہ دار رہنا چاہیے کہ آپ فلم میں کیا کر رہے ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں۔

1829 سے 1861 کے درمیان کچھ اصلاح پرست سوچ رکھنے والے ہندوستانیوں کے گروہ اور برٹش ریاستی حکومتوں اور سلطنتوں نے کئی فیصلوں کے ذریعے ستی کی روایت کو ختم کیا اور اس کو جرم قرار دیا۔  آزاد ہندوستان میں انڈین ستی پروینشن ایکٹ (1988) نے ستی میں کسی طرح کی مدد پہنچانے، اس کے لئے اکسانے اور ستی کا کسی طرح سے ستائش کرنے کو جرم کے زمرہ میں لایا۔

آپ کے ذریعے بےسوچے سمجھے اس خاتون مخالف مجرمانہ روایت کی جس طرح سے ستائش کی گئی ہے، اس کے لئے آپ کو جواب دینا چاہیے۔  سر، ٹکٹ خرید‌کر آپ کی فلم دیکھنے والے ناظر کے طور پر مجھے آپ سے یہ پوچھنے کا حق ہے کہ آپ نے ایسا کیسے اور کیوں کیا؟

آپ کو یہ بات بہتر طور پر سے پتا ہوگی کہ جدید ہندوستان میں بھی جوہر جیسے کارناموں کی زیادہ تازہ مثال ملتی ہیں۔  ہندوستان اور پاکستان کے خونریز تقسیم کے دوران قریب 75000 عورتوں کے ساتھ ریپ کیا گیا، اغوا کیا گیا، ان کو ‘ دوسرے ‘ مذہب کے مرد کے ذریعے بزور طاقت حاملہ بنایا گیا۔اس دور میں خواتین کے ذریعے رضاکارانہ طریقے سے یا مدد دےکر کروائی گئی خودکشیوں کے کئی واقعات ملتے ہیں۔  کچھ معاملوں میں ‘ دوسرے ‘ مذہب کے لوگ خواتین کو چھو پائیں، اس سے پہلے شوہروں اور والد نے خود اپنی بیویوں اور بیٹیوں کا سر قلم کر دیا۔

پنجاب کے تھوآ خالصہ  میں فساد کے مصیبت زدہ بیر بہادر سنگھ نے خودکشی کرنے کے لئے عورتوں کے گاؤں کے کنواں میں کودنے کے منظر کو بیان کیا تھا۔  انہوں نے بتایا تھا کہ کس طرح سے آدھے گھنٹے میں وہ کنواں پورا بھر گیا تھا۔  جو عورتیں اوپر تھیں، وہ بچ گئیں۔  ان کی ماں بھی بچنے والوں میں سے تھیں۔سنگھ نے اروشی بوٹالیا کی 1998 میں شائع کتاب، دی ادر سائڈ آف سائلینس میں یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی ماں کے زندہ رہ جانے کو لےکر شرمندہ تھے۔  یہ ہندوستانی تاریخ کے سب سے کالے ابواب میں سے ایک ہے اور اس کو شرم، ڈر، دکھ، آتم چنتن، ہمدردی، احتیاط کے ساتھ یاد کئے جانے کی ضرورت ہے، بجائے اس کی سطحی، سنسنی خیز ستائش کرنے کے۔

تقسیم کی یہ تکلیف دہ کہانیاں بھی بھلے اتنے براہ راست شکل میں نہ سہی، لیکن آپ کی فلم پدماوت کا تناظر بنتی ہیں۔  بھنسالی سر، میں امن سے اپنی بات ختم کرنا چاہوں‌گی ؛ آپ کو آپ کی خواہش کے مطابق اور فلمیں بنانے، ان کی شوٹنگ کرنے اور ان کو ریلیز کرنے کی مبارکباد دوں‌گی۔  میں چاہوں‌گی کہ آپ، آپ کے اداکار، پروڈیوسر، اسٹوڈیو اور ناظر دھمکیوں اور دنگا فساد سے محفوظ رہیں۔

میں آپ کے اظہار کی آزادی کے لئے ٹرالس اور ٹی وی مبصرین سے لڑنے کا وعدہ کرتی ہوں۔  لیکن، میں آپ سے یہ بھی وعدہ کرتی ہوں کہ آپ عوام کے لئے جو آرٹ رچیں‌گے، اس کی بابت سوال پوچھنے سے میں نہیں چوکوں‌گی۔  اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ امید بھی کرنی چاہیے کہ کرنی سینایا مرنی سیناکے کسی پاگل ممبر کے دل میں ستی روایت کو جرم کے زمرہ سے ہٹانے کی مانگ کرنے کا خیال نہ آئے!

آپ کی

سورا بھاسکر