حقوق انسانی

بستر : جہاں شہریوں کا حال چال پوچھنے والا کوئی نہیں

جنگل ان کے تھے، پانی بھی ان کا تھا اور زمین بھی انہی کی تھی، پہلے جنگل سے حق ختم ہوا پھر پانی کو چھینا گیا۔  اب ہفتہ وار بازار میں زمین پر بیٹھنے کےبھی 10 روپے دینے پڑتے ہیں۔

علامتی فوٹو:رائٹرس

علامتی فوٹو:رائٹرس

جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں، تو پہلی نظر میں اس کی ایک امیج ہمارے ذہن میں بنتی ہے کہ وہاں پر حکومت آخری آدمی کی بہتری کے لئے کام کرتی ہے اور تمام طبقوں کے لوگوں کو ساتھ لےکر چلتی ہے۔ لیکن کیا یہ نظام چھتیس گڑھ کے نکسل متاثر بستر منڈل کے دنتےواڑہ ضلع کے لئے کوئی معنی رکھتا ہے؟اس ضلع‎ میں رہنے والے آدیواسیوں کی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو جمہوریت کی حقیقت آپ کے سامنے آ جائے‌گی۔

تعلیم اور مڈ ڈے میل اسکیم

کسی بھی سماج اور نظام کی بنیاد ہوتی ہے وہاں کی ابتدائی تعلیمی نظام، جو بچوں کے خوابوں کو اڑان دیتا ہے۔ اس تعلق سے اگر دنتےواڑہکو دیکھیں تو یہاں بنیادی طور پر چار قبائلی کمیونٹی رہتی ہیں-گونڈ، ہلبی، مریا اور ماڑیا۔

یہ کمیونٹی صدیوں سے جنگل میں رہتے آئے ہیں۔ ان کی بھاشا،گونڈی اور ہلبی، دراوڑ خاندان کے زبان سی پرانی ہے۔ حالانکہ ان کی کوئی قواعد نہیں ہے ، اس لئے ہم ان کو بولی کہتے ہیں۔تضاد دیکھیے جتنے ٹیچر بستر میں تقرر کئے گئے ہیں ان میں سے زیادہ تر گونڈی اور ہلبی زبان میں بات تک نہیں کر سکتے تو وہ بچوں کو کیا پڑھا پائیں‌گے۔ یہ سوال ہم سب کے سوچنے کے لئے کافی ہے۔

دنتےواڑہضلع‎ کے گداپال تحصیل کے کمپلیکس (اسکولوں کا گروپ) کے کوآرڈی نیٹر راجیش بگھیل سے جب یہ پوچھا گیا کہ آپ کے یہاں اساتذہ کو جب گونڈی اور ہلبی نہیں آتی تو آپ ان سے بات کیسے کرتے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا، ‘ سارے اساتذہ باہر سے ہیں تو کیا کریں۔ جیسے تیسے کام چلا رہے ہیں۔ ان کی زبان سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، کسی بچّے کو ہی پکڑتے ہیں جو باقی بچّوں کو ہماری بات بتا پائے۔ ‘

یہاں کے ایک دیگر استاد کھمان سنگھ سوری نے بتایا کہ یہی دقت ہے گفتگو نہیں ہو پاتی۔ آدیواسیوں کی بولی سیکھنے کی کوشش کی جاری ہے۔جب گفتگو ہی نہیں ہو رہی ہے تو بچّوں کو کیسی تعلیم مل رہی ہوگی، یہ بڑا سوال ہے۔ بات اگر مڈ ڈے میل اسکیم کی ہوتو اس کا بھی اس قبائلی علاقے میں برا حال ہے۔

اسکول کے اساتذہ کے مطابق، اسکیم کے تحت ہر بچّے کو روزانہ راشن کا 4.58 روپے اور گیس کا 20 پیسہ آتا ہے۔ گداپال تحصیل کے میسوپارا گاؤں واقع ریاستی پرائمری اسکول کے استاد انیرودھ بگھیل نے بتایا کہ بچّوں کا کھانا پکانے کے لئے حکومت کے ذریعے گیس کا پیسہ دےکر دھوئیں سے آزاد اسکول کو انعام مل گیا۔ لیکن اسکول میں کیا ہوا اس سے کسی کو کوئی مطلب نہیں۔

کھمان سنگھ سوری نے بتایا کہ یہاں مڈ ڈے میل کی حالت بہت بری ہے۔ اپنی جیب سے پیسہ لگانا پڑتا ہے۔ بچّے اسکول میں کم آتے ہیں۔ اب ہم کیسے کھانا کھلائیں جبکہ یہاں بچّوں کی خوراک بھی زیادہ ہے کیونکہ ان کو اور کچھ کھانے کو نہیں ملتا۔ کب تک ایسے ہی چلے‌گا۔

انہوں نے بتایا، یہاں کے بیشتر پرائمری اسکولوں میں 10-15 سے زیادہ بچّے نامزد نہیں ہیں۔ ان میں سے حاضری مشکل سے 4-5کی ہوتی ہے۔اس بات کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔ جس دن ہم میسوپارا پہنچے اس دن پرائمری اسکول میں محض دو بچّے موجود تھے۔

اسکول کے استاد انیرودھ بگھیل نے بتایا کہ اب ہم ان دو بچّوں کو کیسے کھانا کھلائیں کیونکہ سرکاری اسکیم کے مطابق، ان دو بچّوں کے لئے 40 پیسے کی گیس اور 9 روپے 16 پیسہ ملا ہے۔ اتنےمیں کھانا کیسے بنے‌گا؟دنتےواڑہکے کمہارراس واقع مڈل اسکول کے دو حصے ہیں۔ پرائمری اور مڈل۔ یہ اسکول جو دنتےواڑہ شہر سے محض چھ کلومیٹر دوری پر ہے۔ یہاں معاون استاد کے طور پر تعینات سروجنی سنہا بتاتی ہے کہ ہمارے یہاں 40-50 بچوں کے ایڈمیشن ہیں۔ ان میں سے جیسے تیسے کرکے ہم تقریباً 20 بچّوں کو اسکول لے آ پاتے ہیں۔ بچّوں کو ٹوائلٹ کے استعمال کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں ہے۔ کئی بار بچّے کلاس میں ہی گندہ کر دیتے ہیں۔ اس کو صاف کرنے کے لئے اسکولوں کو کوئی سویپر بھی نہیں ملا ہوا ہے۔ ہم تو صاف کریں‌گے نہیں اس لئے ہم اس کو بچّے سے ہی صاف کرواتے ہیں۔

اس علاقے کے زیادہ تر اسکولوں کا یہی حال ہے۔ ڈوگری،پرا پرائمری اسکول کی استاد نندنی نیتام نے بھی بتایا کہ ہمارے یہاں 20 بچّے  ہیں۔ یہاں ٹوائلٹ تو ہے لیکن کوئی سویپر نہیں ہے۔ اس لئے صفائی بچّوں کو ہی کرنی پڑتی ہے۔

توئلنکا گاؤں کے اسکول کا بھی یہی حال ہے۔ یہاں کے استاد امت ساہو نے بتایا کہ ہمارے یہاں نہ سویپر ہے اور مڈ ڈے میل اسکیم کی حالت ٹھیک ہے۔

بجلی، پانی اور صحت

صفائی اور صاف پانی تو ہر آدمی کی زندگی کی بنیاد  ہے۔ یہ ہمارا بنیادی حق بھی ہے۔ بستر میں آدیواسیوں کی زندگی بددعا بن گئی ہے۔ یہاں سردی میں لوگوں کو پینے کے پانی کے لئے9-10 کلومیٹر اور15-17 کلومیٹر گرمی میں پیدل چلنا پڑتا ہے۔ وہ بھی ندی کے آلودہ پانی کے لئے۔

یہاں کے آدیواسی کئی سطح پر استحصال کے شکار ہیں۔ ایک تو آدیواسی کے نام پر، پچھڑے ہونے کے نام پر،  مین اسٹریم سے کٹے ہونے کے نام پر،جب توئلنکا کی گونڈ آدیواسی بودھو سے اس بارے میں بات ہوتی ہے۔ ان کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے۔ آلودہ پانی پر وہ کہتے ہیں کہ صدیوں سے ہمارے آباواجداد یہی پانی پیتے آئے ہیں، اچانک اس کو کیا ہو گیا پتا نہیں۔ شاید یہ قدرت ہم سے ناراض ہو گئی۔

ان لوگوں کو نہیں پتا کہ ندی کا پانی بیلاڈیلا میں لوہا کچی دھات کے دھلنے سے آلودہ ہوا۔صحت کی حالت اور بھی بدتر ہے۔ دنتےواڑہ ضلع ہسپتال کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر موہت چندراکر بتاتے ہیں کہ ہمارے یہاں سٹی اسکین اور ایم آر آئی کی سہولت نہیں ہے۔ غذائی قلت کے شکار بچّوں کے علاج کی بھی کچھ خاص سہولت نہیں ہے۔ ہم تو غذائی قلت کے شکار کا ہیموگلوبن  سطح یعنی تقریباً 8 پوائنٹ پر لاکر ان کو ہسپتال سے چھٹی دے دیتے ہیں، لیکن ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تو کیا کریں؟ ہسپتال سے جانے کے بعد ان کی حالت پھر ویسی ہی ہو جاتی ہے۔ وہ کمزور ہوتے ہیں اور ان کو پھر سے بیماریاں بھی جکڑ لیتی ہیں۔ ہمارے یہاں ضلع ہسپتال میں 100 بیڈ کا ہسپتال ہے، مریض بہت زیادہ ہیں کم سے 300 بیڈ ہونے چاہیے۔ ڈاکٹر تو 40 ہو گئے ہیں۔

توئلنکا میں گونڈ کمیونٹی کا آٹھ نو سال کا ایک آدیواسی بچّہ غذائی قلت کا شکار ہے۔ اس کا نام بومڑی ہے۔ وہ ہسپتال کی جگہ  اپنے گھر میں پڑا ہوا ہے۔ اس غذائی قلت کے وقت بھی اس کے گھر میں دودو دن تک کھانا نہیں بنتا۔ کھانے میں اس کو چاول کا پانی نصیب ہوتا ہے اور شام کا چاول۔

ایک بار کوئی اس کو رائے پور کے ایک بڑے ہسپتال میں لے گیا لیکن بڑھتے خرچ کو دیکھ کچھ دنوں بعد اس نے بھی بومڑی کے پریوار والوں سے کہہ دیا کہ آگے آپ سنبھالیں۔ بومڑی کے ماں باپ جھاڑو بناتے ہیں جو پیسہ آتا ہے گھر چلانے میں لگ جاتا ہے۔

کہنے کو توئنلکا کا نزدیکی ایک ذیلی صحتی مرکز گداپال میں ہے۔ جو گاؤں سے تقریباً 8 کلومیٹر ہوگا جنگل سے پیدل جانا ہوتا ہے کیونکہ ایمبولینس کا انتظام نہیں۔اس مرکز کی حالت بھی بہت بری ہے۔ یہاں کے ایک ملازم نے ہسپتال کے اندر ہی اپنی عارضی رہائش گاہ بنا رکھی ہے۔ مریض کو تو کسی طرح بھرتی کر لیا جاتا ہے لیکن ان کے رشتہ داروں کو سردی کے دنوں میں باہر زمین پر ہی لیٹنا پڑتا ہے۔

سماجی حفاظتی خدمات

اس علاقے میں منریگا اسکیم کا حال بھی گڈمڈ ہے۔ دنتےواڑہ کے کمہارراس میں مریا کمیونٹی کے ایک قبائلی منریگا مزدور جوگا سے بات ہوئی وہ شہر کے نزدیک ہونے کی وجہ سے ٹھیک ٹھاک ہندی بول اور سمجھ لیتا ہے۔

جوگا نے بتایا کہ ہم لوگ پیٹ کے لئے کام کرتے ہیں۔ جب مزدوری ہی نہیں ملے‌گی تو بھلا کوئی کام کیا کرے‌گا؟ مجھے کام کئے ہوئے ایک سال ہونے کو آ رہا ہے، ابھی تک ایک پیسہ بھی نہیں ملا ہے۔ سرپنچ اور سکریٹری سے پوچھتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ اوپر سے نہیں آیا ہے۔ میں جب مر جاؤں‌گا تب اس پیسے کا کیا کروں‌گا۔

جوگا بتاتے ہیں کہ میرے پاس زمین کا پٹّہ بھی نہیں ہے۔ دوسرے کے یہاں مزدوری ہی کر سکتا ہوں۔ اب کی بار املی بھی اچّھی نہیں لگی، وہ ایک مہینے تک چلتی ہے روز 10-15روپے مل جاتے تھے، وہ بھی نہیں ہو رہا۔ تیندوپتّا ادھر نہیں ہوتا۔ جنگل سے لکڑی لے آتے ہیں، کھانے کے لئے دھان ادھر ادھر سے مانگ‌کر لاتے ہیں۔

جوگا آگے کہتے ہیں کہ نو لوگوں کی فیملی کے ایک ہفتے کا خرچ محض 50-60 روپے میں کسی طرح چلانا پڑتا ہے۔اس بارے میں گاؤں کے سرپنچ جوگا کشیپ سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ آگے سے پیسہ نہیں آیا ہے، اس لئے منریگا مزدوروں کو ان کی مزدوری کا پیسہ نہیں ملا۔  اس میں میں کیا کر سکتا ہوں۔

راشن اور راشن کارڈ کی بات کریں تو کسی پارا (گاؤں کے حصے) میں جائیں‌گے تو پتا چلے‌گا کہ آدیواسیوں کو چار مہینے سے مٹی کا تیل نہیں ملا ہے۔  چنا ملے تین مہینے ہو گئے۔  بس دھان ملتا ہے۔  جوگا کو بھی پچھلے تین مہینے سے مٹی کا تیل نہیں ملا ہے۔

گداپال کے کیڈو نام کی قبائلی خاتون سے بات ہوئی۔  ان کے شوہر تین سال پہلے گزر گئے۔  گھر میں تین اور پانچ سال کے دو بچّے ہیں۔  نہ تو ان کو بیوہ پینشن کا فائدہ مل رہا ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی راشن کارڈ ہے تاکہ دھان تو مل سکے۔

وہ بتاتی ہے کہ کوئی بھی سرکاری سہولت گاؤں میں نہیں مل پاتی ہے۔  بارش کے دنوں میں گھر کی چھت ٹپکتی ہے۔  کپڑے بھی نہیں ہیں۔  سردی میں پوال جلاکے ٹھنڈ سے بچاؤ کرتی ہوں۔وہ کہتی ہیں کہ زمین کا پٹّہ نہیں ہے اس لئے دھان بھی نہیں اپجا سکتی۔  ایک وقت کسی طرح چاول کھا کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔  دو روپے کی کمائی کا بھی ذریعہ نہیں ہے۔  منریگا کا بھی سہارا نہیں۔  شوہر کے جانے کے بعد تمام دفتروں کا چکر کاٹا لیکن کوئی مدد نہیں ملی۔  اس لئے گاؤں کے لوگوں سے ہی مانگ‌کر کام چلاتی ہوں۔

اس کے بعد  ہم گداپال کے میسوپارا گاؤں کے ایک گونڈ آدیواسی کے گھر گئے۔  ان کا نام آئتو ہے، وہ قریب 90 سال کے ہوں‌گے۔  ان کی بیوی کی بھی 80-85 سال عمر رہی ہوں‌گی۔  ان کے ساتھ ان کی لڑکی رہتی ہیں، جس کے شوہر اب نہیں ہیں۔

یہاں بھی حال وہی ہے۔  وہ بتاتے ہیں کہ نہ ان کو  پینشن ملتی ہیں اور نہ ہی ان کی بیٹی کی پینشن۔  راشن کارڈ بھی نہیں ہے۔  فیملی کا خرچ مہوا کی شراب۔  جنگل سے مہوا لا کر بناتے ہیں۔  ایک ہفتے میں تین بوتل شراب 90 روپے میں بکتی ہے۔  اسی سے گھر کا خرچ چلتا ہے۔

روزمرہ کی زندگی

آدیواسیوں کی روزمرہ کی زندگی سے روبرو ہوں تو پتا چلتا ہے کہ وہ ہر دن کسی نہ کسی استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔  دنتےواڑہسے تقریباً 55 کلومیٹر دور کٹے کلیان بلاک کے ہفتہ وار بازار میں ایک گونڈ قبائلی خاتون بمڑی سے بات ہوئی۔وہ بازار میں شکرقند بیچنے آئی ہوئی تھیں۔  انہوں نے بتایا کہ میں جو شکرقند بازار میں بیچنے لائی ہوں اس کی کل قیمت 20 روپےہے، لیکن اس بازار میں بیٹھنے کے لئے ہی 10 روپے کرایہ دینا پڑتا ہے۔

یہ ہے ان کی زندگی کا المیہ۔  جنگل ان کے تھے، پانی بھی ان کا تھا اور زمین بھی انہی کی تھی، پہلے جنگل سے حق ختم ہوا پھر پانی کو چھینا گیا۔  اب ہفتہ وار بازار میں زمین پر بیٹھنے کے بھی 10 روپے دینے پڑتے ہیں۔

(مضمون نگار سماجی کارکن ہیں اور دنتےواڑہ میں آدیواسیوں کے لئے کام کرتے ہیں۔)