فکر و نظر

کشمیری طلبا ملک کی دیگر ریاستوں میں غیر محفوظ کیوں؟

اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ سنہ 1980 سے وادی بھر میں جو سیاسی حالات بنے اس میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔ پاکستان اس مصیبت میں اپنے مفاد کے لیے  ٹانگ اڑاتا رہتا ہے۔

فائل فوٹو : گنگا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنٹ میں 6 کشمیری طلبا کی پٹائی کے بعد احتجاج کرتے کشمیری طلبہ

فائل فوٹو : گنگا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنٹ میں 6 کشمیری طلبا کی پٹائی کے بعد احتجاج کرتے کشمیری طلبہ

وادی کشمیر کے طلبا اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ملک کی دوسری ریاستوں کا رخ کرتے ہیں لیکن ان طلبا کو جسمانی اذیت اور گالیاں سننے کو ملتی ہیں۔ وہ ہندوستان کو اپنا دیش سمجھ کر اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے مختلف ریاستوں کا سفر کرتے ہیں ،لیکن ان ریاستوں کے لوگ انہیں اپنانے اور گلے لگانے کو تیار نہیں ہیں ۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے یوم آزادی کے موقع پر کہا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ گالی اور گولی سے نہیں گلے لگانے سے حل ہو گا۔ تاہم ان کے مداحوں کا رویہ اس کے برعکس ہے۔کشمیر طلبا کے ساتھ آئے دن تعصب اور تشدد کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں بالخصوص شمالی ہندوستان کی ریاستوں میں واقع یونیورسٹی اور کالجز میں ان کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک ہوتا ہے۔

 کہیں انہیں غلیظ گالیوں سے نوازا جا تا ہے تو کہیں انہیں زد و کوب کیا جاتا ہے ، تشدد اور امتیازی سلوک کے شکار کشمیری طلبا کی بڑی تعداد اپنے تعلیمی سفر کو ادھورا چھوڑ کر واپس کشمیر لوٹ جاتے ہیں۔ایسا ہی ایک واقعہ گذشتہ روز ریاست ہریانہ میں پیش آیا، جہاں مقامی غنڈوں نے کشمیری طالب علم کی پٹائی کی۔

اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی زیر تعلیم کشمیری طلبا پر شدت پسند عناصر کی طرف سے  جان لیوا حملے کیے جا رہے ہیں۔اس سانحہ کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ابتک کسی بھی کیس میں مجرموں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں کے طلبا کو جس طرح کی آزادی اور محبت حاصل ہے وہ کشمیری طلبا کو کیوں نہیں ؟آخر کشمیری طلبا کو شک کی نگاہ سے کیوں دیکھا جا تاہے؟یونیورسٹی کالجز اور علاوہ دیگررہائشی ہاسٹلوں میں مقیم کشمیری طلباکی یوم جمہوریہ اور آزادی کے موقعے پر کمروں میں تلاشی لی جاتی ہےاور ان کے شناختی کارڈ چیک کیے جاتے ہیں۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ سنہ 1980 سے وادی بھر میں جو سیاسی حالات بنے اس میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔ پاکستان اس مصیبت میں اپنے مفاد کے لیے  ٹانگ اڑاتا رہتا ہے۔لیکن اس کا خمیازہ کشمیری طلبا اور وہاں کی عوام کیوں بھگتے؟حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ہریانہ ، اترپردیش، راجستھان ، دہلی جیسی ریاستوں میں ایسے واقعات پیش آئے جس میں دیش بھکتی کے نام پر کشمیری طلبا کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، آخر اس میں ان طلبا کا کیا قصور تھا وہ تو کشمیر سے دور اپنے ہم وطنوں کے ساتھ کا لجز اور یونیورسٹی کیمپس میں تھے انہوں نے نہ تو پتھر پھینکا تھا اور نہ ہی برہان وانی کی نماز جنازہ پڑھی تھی پھرانہیں کیوں مارا پیٹاگیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو پورے ہندوستان کے لوگوں سے ہے۔

سنہ 2016 میں گنگا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنٹ میں 6 کشمیری طلبا کی پٹائی گئی تھیں۔ان طلبا کا کہنا تھا کہ سکیورٹی گارڈز اور ہاسٹل وارڈن نے بنا کسی وجہ کے ان کو پیٹا۔گذشتہ برس کشمیری کے ایک اور طالب علم کو یونیورسٹی کے ہاسٹل میں بیف پکانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔بعد میں پولیس کے ذریعے کرائے جانے والے لیب ٹیسٹ میں پتہ چلا کہ وہ بیف نہیں بلکہ مٹن تھا۔

ایسے بہت سے کشمیری طالب علم ہیں جنہیں کالجوں سے نکال دیا گیا ہے ۔کئی ایسے کیسز بھی سامنے  جس میں مقامی طالب علموں کی شکایات پر کشمیری طلبا کے سوشل میڈیا ویب سائٹس پر کئے گئے پوسٹ  کے لیے ان پرمقدمہ درج کیے گئے۔

کشمیری طلبا  کے تحفظ کی ذمہ داری ان ریاستوں کی حکومتوں اور خود مرکزی حکومت پر عائد ہوتی ہے  تاہم وہ کشمیری طلبا کو مکمل تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ ایسے واقعات سے لگتا ہے کہ ہندوستان کشمیری عوام کو نہیں بلکہ وہاں کی زمین چاہتی ہے۔حکومت اور لوگوں کے اس رویے سے کشمیری عوام خوش نہیں ہےاور حکومت پر ان کا اعتماد روز بہ روز کم ہوتا جا رہا ہے۔

سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی پالیسی” کشمیر، کشمیریت اور جمہوریت” کو زندہ اور پائندہ رکھنے کے لیے کشمیری عوام کے اعتماد اور دلوں کو جیتنا ضروری ہے۔

(مضمون نگار ڈیجیٹل نیوز پورٹل ‘ای ٹی وی بھارت’ کے ساتھ بحثیت کاپی ایڈیٹر وابستہ ہیں۔)