فکر و نظر

خان عبد الغفار خاں ؛ میرا مذہب سچائی، پریم پیار اور خلق خدا کی خدمت ہے

جن لوگوں کے دلوں میں بنی نوع انسان کے لیے رواداری اور پریم پیار نہیں ہوتا اور جس آدمی کے دل میں نفرت ہوتی ہے ایسا آدمی مذہب سے بہت دور ہوتا ہے اور مذہب کی حقیقت سے بہت بے خبر ہے۔

KhanAbdulGhaffarKhan

خان عبد الغفار خاں کی آپ بیتی کے اردو مسودے کو رام سرن نگینہ نے ایڈیٹ کیا تھا۔اس کے پیش لفظ میں جے پرکاش نارائن نے لکھا تھا ؛’بادشاہ خان غیر منقسم ہندوستان کی جنگ آزادی کے ہراول میں ایک سالار تھے۔ان کے پر شجاعت عدم تشددکی وجہ سے ہندوستان نے انہیں سرحدی گاندھی کا لقب دیا تھا۔‘ ان کی آپ بیتی کا ایک مختصر حصہ قارئین کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔دی وائر

1945ء میں جب میں جیل خانے سے باہر آیا تو اس وقت سخت بیمار تھا۔ میں جیل خانے میں ہمیشہ بیمار پڑ جاتا ہوں۔ انہی دنوں مہاتما گاندھی بمبئی میں تھے۔ انھوں نے مجھے لکھا کہ میں بمبئی آ جاؤں۔ میں جب کبھی بمبئی یا سیوا گرام جاتا تھا تو ایک رات راستے میں دہلی میں دیوداس گاندھی کے صاحبزادے اور راجہ جی کے داماد کےگھر ٹھہرا کرتا تھا۔ دیوداس کی دھرم پتنی بڑی اچھی خاطر مدارات کرتی تھی اور دیوداس کا گھر مجھے اپنے گھر کی طرح لگتا تھا۔ میں یہ نہیں محسوس کرتا تھا کہ یہ کسی غیر کا گھر ہے۔ میں بمبئی چلا گیا۔ گاندھی جی برلا کے گھر تشریف فرما تھے۔ میں بھی انہی کے ساتھ ایک ہی جگہ رہنے لگا۔ ایک دن باتوں باتوں میں عدم تشدد کا ذکر آ گیا۔ میں نے انھیں کہا۔ “گاندھی جی! آپ نے تو بڑی مدت سے ہندوستان کو عدم تشدد کا سبق دیا ہے۔ لیکن مجھے بہت تھوڑا عرصہ ہوا ہے کہ میں نے یہ سبق پٹھانوں کو دینا شروع کیا ہے۔ اس عدم تشدد کو پٹھانوں نے ہندوستانیوں کی نسبت جلد اور زیادہ سیکھ لیا ہے۔ اور آپ دیکھیں کہ 1942ء کی اس جنگ میں ہندوستان میں کتنا تشدد ہوا ہے، لیکن صوبہ سرحد میں انگریزوں کی طرف سے اس قدر اشتعال انگیزی اور زور ظلم کے باوجود ایک پشتون نے بھی تشدد نہیں کیا ہے۔ حالانکہ تشدد کا سامان بھی ہم لوگوں کے پاس زیادہ ہوتا ہے۔”

اس کے جواب میں گاندھی جی نے مجھ سے کہا: “عدم تشدد بزدل آدمی کا کام نہیں ہے۔ یہ بہادر آدمی کا کام ہے اور پشتون ہندوستانیوں سے زیادہ بہادر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تشدد نہیں کیا ہے۔”

khan abdul ghaffar khan book cover

ہریجن کالونی یا سیواگرام میں جب ہم رہتے تھے اور جب پرارتھنا کا وقت ہوتا تھا تو سب سے پہلے میں قرآن شریف کی تلاوت کیا کرتا تھا۔ میرے بعد ایک جاپانی بدھ مذہب کا پیروکار اپنی مناجات بیان کرتا تھا۔ اور اس کے بعد ہندوؤں کی پرارتھنا شروع ہوتی تھی۔ گاندھی جی کے دل میں سب مذہبوں کے لیے یکساں احترام تھا اور وہ ان تمام مذاہب کو مبنی برحق سمجھتے تھے۔ اور بعینہ یہی میرا عقیدہ ہے۔ قرآن اور گیتا کا مطالعہ تو میں نے بڑی اچھی طرح کیا ہے اور جب میں سکھوں کے ساتھ ڈیرہ غازی خان کے جیل میں تھا تو ان سے میں نے گرنتھ صاحب کا کافی زیادہ حصہ سنا تھا۔ بدھ مذہب کے مطالعے کا مجھے بڑا شوقت تھا۔ کیونکہ ہم لوگ خود بھی اسلام سے پہلے بودھ تھے لیکن بدھ مذہب کی کوئی کتاب میرے ہاتھ نہیں لگ سکی۔

انجیل میں نے طالب علمی کے زمانے میں مشن ہائی اسکول میں پڑھی تھی۔ کیونکہ میں اسی اسکول کا طالب علم تھا۔ توریت میں نے تھوڑی بہت جیل خانے میں پڑھی تھی زرتشت کے پارسی مذہب کی کتابوں کے مطالعے کا مجھے بڑا شوق تھا کیونکہ وہ ہماری پٹھان قوم کا پیغمبر تھا جو افغانستان میں بلخ کا رہنے والا تھا لیکن اس وقت تک یہ لٹریچر مجھے میسر نہ آ سکا۔ خورشید بہن اور بعض دیگر پارسی دوستوں کو میں نے اس کے لیے کہا تھا، لیکن کسی نے کوئی کتاب میرے پاس نہیں بھیجی۔ “میرا مذہب سچائی، پریم پیار اور خلق خدا کی خدمت ہے۔” مذہب ہمیشہ دنیا میں اخوت اور محبت کا پیغام لے کر آتا ہے اور جن لوگوں کے دلوں میں بنی نوع انسان کے لیے رواداری اور پریم پیار نہیں ہوتا اور جس آدمی کے دل میں نفرت ہوتی ہے ایسا آدمی مذہب سے بہت دور ہوتا ہے اور مذہب کی حقیقت سے بہت بے خبر ہے۔

1946ء میں ہندوستان میں جو فسادات شروع ہوئے تھے ان کی ابتدا مسلم لیگ نے اپنے کلکتہ کے ڈائرکٹ ایکشن سے کی تھی۔ کلکتہ کے فسادات میں شروع میں تو ہندوؤں کے کچھ آدمی مارے گئے تھے۔ لیکن جب ہندوؤں اور سکھوں نے مسلم لیگ کے مانند تشدد کا اقدام کیا تو پھر اس جگہ کے مسلمانوں کا ناقابل بیان اور ناقابل تلافی مالی اور جانی نقصان ہوا۔ مسلم لیگ نے اس سلسلے کو جاری رکھنے کی غرض سے نواکھلی میں کلکتہ کا بدلہ لینے کے بہانے سے ہندوؤں پر زمین آسمان ایک کردیا۔ اور ایسے مظالم توڑے اور بے حیائی سے بھرے کام کیے کہ انسانیت نے شرم کے مارے اپنا منھ چھپا لیا۔ فرنگی اپنی پالیسی “پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو” کے مطابق ہندوؤں کو بھی اپنے جال میں لے آئے اور انھوں نے بھی نواکھلی کا بدلہ لینے کے بہانے سے بہار میں مسلمانوں اور غریبوں پر چنگیز اور ہلاکو کے جورو جفا کی یادیں تازہ کردیں۔ مسلم لیگیوں کے دل کی مراد سر سبز ہوگئی۔ وہ خدا سے یہ دن مانگتے تھے۔

اس طرح کے مکروہ اور ناپاک ارادوں کے ساتھ وہ (مسلم لیگی) یا تو بر سر اقتدار آنا چاہتے تھے اوریا پھر ملک کے ٹکڑے کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہندوستان بھر میں فسادات کی آگ لگا دی اور اپنے ہاتھ رنگنے شروع کر دیئے۔ انگریز لیگیوں کی ان حرکتوں پر بڑے خوش تھے۔ کیونکہ ہندوستان کی ان خرمستیوں سے انگریز نوکرشاہی انگلستان کی مزدور پارٹی کی حکومت پر یہ بات واضح اور ثابت کرنا چاہتی تھی کہ ہندوستان کے لوگ درندوں کی مانند ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اور ایک دوسرے کا گوشت پوست ادھیڑنے کے درپے ہیں اور یہ کہ انسانوں کی طرح رہنے کے شعور کا تو ان میں بالکل فقدان ہے۔ لہٰذا ان کے سروں پر انگریز کی حکومت کا تسلط ضروری ہے اور اگر ایسا نہیں ہوگا تو یہ ایک دوسرے کو تباہ و برباد کردیں گے۔

مسلم لیگ انگریزوں کی اپنی پیداوار تھی اس لیے انھوں نے بھی صورت حال کا ناجائز فائدہ اٹھانا پسند کیا اور ملک کا امن و سلامتی مٹانے کے لیے انگریزمسلم لیگیوں کی پشت و پناہ بن گئے۔

میں خود بہار میں گیا تھا۔ پٹنہ کے ضلع میں مسلمانوں کی بڑی بھاری تباہی ہوئی تھی۔ اس صوبے میں جگہ بہ جگہ گھروں کو لوٹا اور برباد کیا گیا تھا اور آگ لگادی گئی تھی اور بہت سے لوگ بھی ان میں مارے گئے تھے۔ میں نے جب اس علاقے کا دورہ شروع کیا اور دیہات کو دیکھا تو وہ ویران و برباد پڑے تھے اور لوگ وہاں سے بھاگ گئے تھے اور جو لوگ ان میں رہ رہے تھے وہ سب کیمپوں میں پڑے تھے، لیکن ان کی اس قدر تباہی پر بھی مسلم لیگ کا دل ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔ وہ اسی طرح فرقہ وارانہ سازشوں میں لگے ہوئے تھے۔ انہی مظلوموں سے سیاسی استفادے کر رہے تھے اور انھیں یہ ترغیب دے رہے تھے کہ “بنگال میں ہجرت کر جاؤ” اور میں اس فکر میں ڈوبا ہوا تھا کہ انھیں پھر ان کے اپنے آبائی گانوؤں اور گھروں میں از سر نو آباد کروں، لیکن انھیں مسلم لیگیوں نے ایسے تان پر چڑھایا ہوا تھا کہ میری باتیں انھیں اچھی نہیں لگتی تھیں۔ اس لیے میں مسلم لیگیوں کے لیڈروں کے پاس گیا۔ یہ لوگ محمد یونس بیرسٹر کے ایک عالیشان مکان میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے اور جب کبھی میں ان کے ہاں گیا ہوں تو وہ کھانے پینے میں لگے ہوئے ہوتے تھے۔

Photo: Kanu Gandhi/Wikipedia Commons

Photo: Kanu Gandhi/Wikipedia Commons

میں نے انھیں کہا۔ “میں آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں اور آپ کی خدمت میں یہ عرض کرتا ہوں کہ بہت ہو چکی ہے، اب ان غریبوں کو معاف کردو۔ جو تباہی ان کی ہوچکی ہے کیا یہ کم تباہی ہے؟ اگر آپ لوگ انھیں بنگال میں ہجرت کر جانے کا مشورہ دیتے ہیں اور یہ حقیقی معنوں میں انھیں وہاں آباد کرنا چاہتے ہیں تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اور اگر انھیں اپنی سیاسی اغراض کے آلہ کار بنانا چاہتے ہیں تو یہ مناسب نہیں ہے۔ یہ لوگ کافی تباہ ہوچکے ہیں انھیں زیادہ برباد نہ کریں۔”

لیکن ان مسلم لیگیوں کے دل میں رحم کہاں تھا۔ انھوں نے انھیں (بہاریوں کو) بنگال کی طرف بھجوا دیا۔ برسات کا موسم قریب تھا اور میرا یہ خیال تھا کہ برسات شروع ہونے سے پہلے ان کے مکانات تیار ہوجائیں اور یہ لوگ اپنے گاؤں میں آباد ہوجائیں، لیکن مسلم لیگیوں نے میرے ساتھ اس بات میں اتفاق نہ کیا، کیونکہ وہ لوگ آبادی کے لیے تو ہیں نہیں وہ تو بربادی چاہتے ہیں جو مسلمان بنگال گئے ان کی حالت اس سے بھی بدتر ہوئی۔ کچھ تو راستے ہی میں مر گئے تھے اور کچھ بنگال میں جا کر مر گئے اور جو باقی بچ گئے وہ واپس پٹنے آ گئے۔ اب ان کے دماغ قدرے ٹھکانے آ گئے تھے اور یہ بات بھی ان کی سمجھ میں آ گئی تھی کہ مسلم لیگی ان کے لیے کچھ کرتے کراتے تو ہیں نہیں اور نہ ہی کچھ کر سکتے ہیں بلکہ انھیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور انھیں کسی قسم کی امداد مہیا نہیں کرتے اور نہ ہی کرسکتے ہیں۔

بہ شکریہ،آپ بیتی ،خان عبد الغفار خاں،ہند پاکٹ بکس