جس سماج میں محبت کے خلاف اتنی ساری دلیل ہوں،اس سماج کو انکت کے قتل پر کوئی غم نہیں ہے،وہ فائدے کی تلاش میں ہے۔
جھاڑیوں میں گھسکر چومتے عاشقوں کو پکڑنے والے سماج میں انکت کی موت آخری نہیں ہے۔انکت سکسینہ۔ چپ چاپ اس کی خوش حال تصویروں کو دیکھتا رہا۔ ایک ایسی زندگی ختم کر دی گئی جس کے پاس زندگی کے کتنے رنگ تھے۔ وہ ملک کتنا مایوس ہوگا جہاں محبت کرنے پر تلواروں اور چاقوؤں سے عاشق کوکاٹ دیا جاتا ہے۔
اس مایوسی میں کسی کے لکھے کا وہی انتظار کر رہے ہیں، جو پہلے سے ہی خون کے پیاسے ہو چکے ہیں۔ الارم لےکر بیٹھے رہیں کہ کب لکھ رہا ہوں اب لکھ رہا ہوں یا نہیں لکھ رہا ہوں۔ گِدھوں کے سماج میں لکھنا حاضری لگانے جیسا ہوتا جا رہا ہے۔کاش ہم انکت کے پیار کو جوان ہوتے دیکھ پاتے۔ مرنے سے پہلے بھی دونوں موت کے خدشے میں ہی پیار کر رہے تھے۔ انکت کی معشوقہ نے تو اپنے ہی ماں باپ کو گھر میں بند کر دیا۔ ہمیشہ کے لئے بھاگ نکلنے کا فیصلہ کر لیا۔
ہندوستان میں بغاوت کے بغیر محبت کہاں ہوتی ہے۔ آج بھی لڑکیاں اپنے پیار کے لئے بھاگ رہی ہیں۔ ان کے پیچھے پیچھے ذات اور مذہب کی تلوار لئے ان کے ماں باپ بھاگ رہے ہیں۔اس معشوقہ پر کیا بیت رہی ہوگی، جس نے اپنے انکت کو پانے کے لئے اپنے گھر کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا۔ اس میٹرو کی طرف بھاگ نکلی جس کے آنے سے ماڈرن ہندوستان کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ دوسرے سرے پر انکت کی ماں کی چیختی تصویریں رلا رہی ہیں۔ دونوں طرف بیٹیاں ہیں جو تڑپ رہی ہیں۔ بیٹا اور عاشق مار دیا گیا ہے۔
انکت بھی بھاگکر اسی میٹرو اسٹیشن کے پاس جا رہا تھا، جہاں پر وہ انتظار کر رہی تھی۔ کاش وہ پہنچ جاتا۔ اس روز دونوں کسی بس میں سوار ہو جاتے۔ گم ہو جاتے نفرتوں سے بھرے اس عالم میں، چھوڑکر اپنی تمام پہچان کو۔ مگر کمبخت اس کی کار معشوقہ کی ماں کی اسکوٹی سے ہی ٹکرا گئی۔ اخباروں میں لکھا ہے کہ ماں نے جان بوجھ کر ٹکر مار دی۔ انکت گھر گیا۔ اس کا گلا کاٹ دیا گیا۔
انکت سکسینہ ہندو تھا۔ اس کی معشوقہ مسلم ہے۔ معشوقہ کی ماں مسلمان ہے۔ معشوقہ کا بھائی مسلمان ہے۔ معشوقہ کا والد مسلمان ہے۔ معشوقہ کا چچا مسلمان ہے۔مجھے کسی کا مذہب لکھنے میں پرہیز نہیں ہے۔ میں نہ بھی لکھوں توبھی نفرت کے نشے میں ٹرول سماج کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ اس کو صرف ہندو دکھےگا، مسلمان دکھےگا۔
گر یہی کہانی الٹی ہوتی۔ معشوقہ ہندو ہوتی، عاشق مسلمان ہوتا اور دونوں کے ماں باپ راضی بھی ہوتے تب بھی انکت کے قتل پر سیاسی مزہ لینے والا طبقہ گھر کے باہر ہنگامہ کر رہا ہوتا۔ ابھی تو ایسے ٹرول کر رہا ہے جیسے دونوں کی شادی کے لئے یہ بینڈ بارات لےکر جانے والے تھے۔ ایسی شادیوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے والے کون ہیں؟غازی آباد میں ہندو لڑکی کے والد نے کتنی ہمت دکھائی۔ وہ لوگ فساد برپاکرنے آ گئے جن کو نہ ہندو لڑکی نے کبھی دیکھا، نہ کبھی مسلم لڑکے نے۔ پھر بھی والد نے اپنی بیٹی کی شادی کی اور اسی شہر میں رہتے ہوئے کی۔ شادی کے دن گھر کے باہر لوگوں کو لےکر ایک پارٹی کا ضلع صدر پہنچ گیا۔ ہنگامہ کرنے لگا۔ بعد میں اس کی پارٹی نے صدر عہدے سے ہی ہٹا دیا۔
کون کس سے محبت کرےگا، اس کے خلاف سیاسی شرطیں کون بنا رہا ہے، ان شرطوں کا سماج کے اندر کیسا اثر ہو رہا ہے، کون زہر سے بھرا جا رہا ہے، کون قتل کرنے کی اسکیم بنا رہا ہے، آپ خود سوچ سکتے ہیں۔ نہیں سوچ سکتے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ اتنا آسان نہیں ہے۔ آپ کے اندر بھی تشدد کی وہ پرتیں تو ہیں جہاں تک پہنچکر آپ رک جاتے ہیں۔
اس ماحول نے سب کو کمزور کر دیا ہے۔ بہت کم ہیں جو غازی آباد کےوالدکی طرح اپنی کمزوری سے لڑ پاتے ہیں۔ کوئی خیالہکے مسلم ماں باپ کی طرح ہار جاتا ہے اور قاتل بن جاتا ہے۔کاش انکت کی معشوقہ کے ماں باپ اور بھائی کم سے کم اپنی بیٹی اور بہن کو جاگیر نہ سمجھتے۔ نہ اپنی، نہ کسی مذہب کی۔ نفرت نے اتنی دیواریں کھڑی کر دیں، ہمارے اندر تشدد کی اتنی پرتیں بٹھا دی ہیں کہ ہم اسی سے لڑتے لڑتے یا تو جیت جاتے ہیں یا پھر ہارکر قاتل بن جاتے ہیں۔
کویمبٹور کی کوشلیا اور شنکر تو ہندو ہی تھے۔ پھر شنکر کو کیوں سرعام دھاردار ہتھیار سے مارا گیا؟ کیوں کوشلیا کے ماں باپ نے اس کے عاشق شنکر کے قتل کی سازش رچی؟شنکر دلت تھا۔ کوشلیا اپر کاسٹ۔ دونوں نے پیار کیا۔ شادی کر لی۔ خریداری کرکے لوٹ رہے تھے،کوشلیا کے ماں باپ نے غنڈہ بھیجکر شنکر کو مروا دیا۔
وہ ویڈیو خطرناک ہے۔ یہ واقعہ 2016 کا ہے۔ کوشلیا پہلے دن سے ہی کہتی رہی کہ اس کے ماں باپ ہی شنکر کے قاتل ہیں۔ ایک سال تک ا س کے مقدمہ کی چھان بین چلی اور آخر میں سزا بھی ہو گئی۔اتنی تیزی سے آنر کلنگ کے معاملے میں انجام تک پہنچنے والا یہ فیصلہ ہوگا۔ آپ اس مقدمہ کی ڈٹیل انٹرنیٹ سے تلاش کرکے غور سے پڑھیےگا۔ بہت کچھ سیکھیںگے۔ ایشور انکت کی معشوقہ کو جرأت دے کہ وہ بھی کوشلیا کی طرح گواہی دے۔ ان کو سزا کی آخری منزل تک پہنچا دے۔ اس نے بیان تو دیا ہے کہ اس کے ماں باپ نے انکت کو مارا ہے۔
آپ جتنی بار چاہیں نام کے آگے ہندو لگا لیں، مسلم لگا لیں، اس سے سماج کے اندر موجود تشدد کی سچائی مٹ نہیں جائےگی۔ فرقہ وارانہ فائدہ لینے نکلے لوگ کچھ دن پہلے افرازل کو کاٹکر اور جلاکر مار دئے جانے والے شمبھو ریگر کے لئے چندہ جمع کر رہے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہر وقت سماج کو جلانے کے لئے ایندھن کی لکڑی چاہیے۔
آنر کلنگ؛اس کا کاک ٹیل نفرت کی بوتل میں بنتا ہے جس میں کبھی مذہب کا رنگ لال ہوتا ہے تو کبھی ذات کا تو کبھی باپ کا تو کبھی بھائی کا۔آنر کلنگ صرف محبت کرنے پر نہیں ہوتی۔ بیٹیاں جب حمل سےہوتی ہیں تب بھی وہ اسی آنر کلنگ کے نام پر ماری جاتی ہیں۔ یہ کس مذہب کے سماج کی سچائی ہے؟یہ کس ملک کے سماج کے سماج کی سچائی ہے؟ یہ کس ملک کا نعرہ ہے، بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ۔ ہمیں کن سے بچانی ہے اپنی بیٹیوں کو؟ ہر بیٹی کے پیچھے کئی قاتل کھڑے ہیں۔ پہلے قاتل تو ماں اور باپ ہیں۔
مذہب اور ذات نے ہم سب کو ہمیشہ کے لئے ڈرا دیا ہے۔ ہم محبت کے معمولی لمحوں میں نغمہ تو گاتے ہیں پرندوں کی طرح اڑ جانے کے، مگر پاؤں ذات اور مذہب کے پنجرے میں پھڑپھڑا رہے ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے عاشقوں کو محبت میں محبت کم اورنفرت ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس کے بعد بھی سلام کہ وہ محبت کر جاتے ہیں۔
جس سماج میں محبت کے خلاف اتنی ساری دلیل ہوں، اس سماج کو انکت کے قتل پر کوئی غم نہیں ہے، وہ فائدے کی تلاش میں ہے۔ انکت کے والد نے کتنی بڑی بات کہہ دی۔ ان کے بیٹے کی موت کے بعد علاقے میں کشیدگی نہ ہو۔کوئی خاموش نہیں ہوا ہے، کوئی کشیدگی کم نہیں ہوئی ہے۔ لو جہاد اور اینٹی رومیو بناکر نکلے دستے نے بیٹیوں کو قید کر دیا ہے۔ ان کے لئے ہر قتل ان کے لئے آگے کے قتلوں کی خوراک ہے۔ جو قاتل ہیں وہیں اس قتل کو لےکر ٹرول کر رہے ہیں کہ کب لکھوگے۔
ذرا اپنے اندر جھانک لو کہ تم کیا کر رہے ہو۔ تم وہی ہو نہ جو پارکوں سے عاشقوں کو اٹھاکر پٹواتے ہو۔ کیا تم محبت کو قتل نہیں کرتے؟ کیا تم روز پارکوں میں جاکر آنر کلنگ نہیں کرتے؟ جھاڑیوں میں گھسکر کسی کو چومتے پکڑنے والے ہرطرف کانٹے کی طرح پھیل گئے ہیں۔
میرے نام کے آگے ملّا یا مولانا لکھکر تم وہی کر رہے ہو جس کے خلاف لکھوانا چاہتے ہو۔ تمہاری نفرت کی سیاست اور گھر گھر میں موجود محبت کو لےکر مار دینے تک کی سوچ خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔سنک سوار ہوتا جا رہا ہے۔ تھوڑا آزاد کر دو، اس ملک کو۔ اس کے نوجوان خوابوں کو۔ جو نوجوان محبت نہیں کرتا، اپنی پسند سے شادی نہیں کرتا، وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بزدل ہو جاتا ہے۔ ڈرپوک ہو جاتا ہے۔
ہم ایسے کروڑوں ناکام عاشقوں اور ڈرپوک عاشقوں کے سماج میں رہتے رہتے قاتل ہو چکے ہیں۔ پہلے ہم اپنی محبت کو قتل کرتے ہیں، پھر کسی اور کی ۔
Categories: فکر و نظر