خبریں

معقول خرید نظام کی کمی سے تمام فصلوں کو ایم ایس پی کے دائرے میں لانا مشکل : ماہرزراعت

ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ یہ  تبھی فائدےمند ہوگا جب کسان اپنی پیداوار مناسب قیمت پر بیچے۔  ملک میں زیادہ اشیائےخوردنی کے باوجود کسانوں کو ان کی محنت کا پھل نہیں مل رہا۔

Photo: Reuters

Photo: Reuters

نئی دہلی : مرکز کی مودی حکومت نے اس بار کے بجٹ میں تمام فصلوں کوایم ایس پی کے دائرے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ کچھ ماہرین ِ زراعت کا ماننا ہے کہ مناسب خرید نظام کی کمی اور زراعت کی صحیح لاگت کے تعین  کے چیلنج وغیرہ کی وجہ سے اس فیصلے کو نافذ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ان کا کہنا ہے کہ یہ تبھی فائدےمند ہوگا جب کسان اپنی پیداوار مناسب قیمت پر  بیچے۔  یہ المیہ ہے کہ ملک میں زیادہ  پیداوار کے باوجود کسانوں کو ان کی محنت کا پھل نہیں مل رہا۔  اس کی وجہ زرعی کاروباری نظام کی کمزوری اور منافع بخش قیمت کا نہیں ملنا ہے۔

اس کو دیکھتے ہوئے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے2018-19 کے بجٹ میں کسانوں کو ان کی لاگت کا ڈیڑھ گنا منافع بخش قیمت دینے کا وعدہ کیا ہے اور اس کو تمام فصلوں پر نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ماہرِ زراعت  اور ماہرِ اقتصادیات پرمود کمار نے کہا، ‘یہ اہتمام کسانوں کے لئے تبھی منافع بخش ہو سکتا ہے جب وہ اپنی پیداوار ایم ایم پی پر باقاعدہ چینلوں کے ذریعے بیچتے ہیں۔  کئی بار دیکھا گیا ہے کہ اصل میں اس طرح کی اسکیموں کا فائدہ دلال اٹھا لیتے ہیں اور کسانوں کا اس کا فائدہ نہیں ملتا۔  ‘بینگلورو واقع تنظیم آئی ایس ای سی کے پروفیسر کمار نے کہا کہ گاؤں میں ثالثوں کے ذریعے اناج کی فروخت سے نمٹنا ایک بڑا چیلنج ہے۔

اس مسئلہ کے حل کے لئے بجٹ میں خاص کر چھوٹے اور سرحدی کسانوں کے لئے مقامی سطح پر بازار سے متعلق سہولت دستیاب کرانے کے لئے 22000 دیہی ہاٹوں کو ترقی یافتہ بنا کر دیہی زرعی بازار بنانے کی تجویز کی گئی ۔  اس کے لئے بجٹ میں 2000 کروڑ روپیے کی رقم مختص کی گئی ہے۔اس بارے میں اسی ادارے کے پروفیسر اور زراعتی معاملوں کے جان کار میناکشی راجیو نے کہا، ‘ اس بارے میں کچھ مدعے ہیں۔  پہلا؛ملک میں 6 لاکھ سے زیادہ گاؤں ہیں کیا ایسے میں 22000 دیہی ہاٹوں کو ترقی یافتہ زرعی منڈی میں تبدیل کرنے سے کسانوں کو ان کے مسائل سے راحت ملے‌گی؟  دوسرا؛کیا 2000 کروڑ روپے کسانوں کی صورتحال میں قابل ذکر تبدیلی لانے میں کافی ہوں‌گے؟  تیسرا؛زراعت ریاست کا موضوع ہے، ایسے میں اسکیم کی کامیابی کے لئے ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری کی ضرورت ہوگی۔  ‘

ان کے مطابق سب سے بڑا مدعا فصل کی لاگت کے کم سے کم ڈیڑھ گناکے برابر ایم ایس پی کا اعلان ہے۔میناکشی اور کمار کے مطابق اس میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آخر حکومت کس لاگت کو دھیان میں رکھے‌گی کیا یہ فصل کی لاگت میں فیملی کی مزدوری کی لاگت یا اس میں فصل لاگت اور خاندانی مزدوری کے ساتھ زمین کی قیمت کو بھی شامل کیا جائے‌گا۔  زراعتی قیمت اور لاگت کمیشن کی بنیاد پر ایم ایس پی کی سفارش کرتا ہے۔

اب اگر دیکھا جائے تو پنجاب اور ہریانہ جیسی زراعت کے لحاظ سے ترقی یافتہ ریاستوں میں زمین کی قیاسی قیمت 30 سے 40 ہزار فی ہیکٹیئر تک  ہے، ایسے میں سوال اٹھے‌گا کہ کس لاگت پر ڈیڑھ گنا ایم ایس پی متعین کیا جائے، کیونکہ اس میں بڑا فرق آئے‌گا۔کمار کا کہنا ہے کہ دوسرا بڑا مدعا ایم ایس پی کے تحت آنے والی فصلوں کی تعداد سے ہے۔  فی الحال ایم ایس پی صرف اناج اور تلہن کو شامل کرتا ہے۔  اس کے علاوہ گنّا، کپاس اور جوٹ وغیرہ کے لئے الگ سے ایم ایس پی کا اعلان کیا جاتا ہے۔  اتنا ہی نہیں ایم ایس پی کے دائرے میں آنے والی فصلوں میں سے بھی خرید کے ذریعے حمایت یا امداد صرف گیہوں اور چاول کے لئے ہے۔  وہ بھی صرف چنندہ ریاستوں میں اور صرف ان کسانوں تک محدود ہے جو سرکاری خرید نظام کے تحت بیچتے ہیں۔

کمار کے مطابق، مشرقی علاقے میں بہار، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، اڑیسہ، مغربی بنگال جیسی غریب ریاستوں اور متوسط، جنوبی اور مغربی علاقوں کی کچھ ریاستوں کے کسان ثالثوں کے ذریعے کھیتوں یا گاؤں کی سطح پر ہی اپنی پیداوار بیچتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایم ایس پی میں ان فصلوں کو شامل کرنا جو ابتک اس کے دائرے میں نہیں ہیں، ان کے معاملے میں عمل آوری ایک بڑا مدعا ہے کیونکہ ایسی فصلوں کے لئے زراعت کی لاگت کا کوئی قابل قبول تخمینہ دستیاب نہیں ہے۔

کمار نے کہا کہ دوبارہ خرید صرف گیہوں اور چاول میں ہے۔  ایسے میں باقی فصلوں کے معاملے میں اصل قیمت اور اعلان ایم ایس پی کے درمیان فرق کی ادائیگی سیدھے کسانوں کو کیا جا سکتا ہے۔میناکشی کے مطابق، ‘ پائلٹ بنیاد پر مدھیہ پردیش میں آٹھ تلہن فصلوں کے لئے چلائی جا رہی Bhavantar Bhugtan Yojanaاور ہریانہ میں چار سبزیوں کی فصل کے لئے چلائی جا رہی ‘ قیمت فرق  ‘ اسکیم سے مدد مل سکتی ہے۔  اس کے ذریعے کسانوں کو ایم ایس پی فصلوں کے لئے حاصل اصل قیمت اور ایم ایس پی کے تحت اعلان شدہ قیمت کے درمیان فرق کی سیدھے ادائیگی کی جاسکتی ہے۔  ‘ساتھ ہی ریاستی حکومتوں کے لئے تمام کسانوں اور ان کے بینک کھاتوں اور دیگر جانکاری کے رجسٹریشن کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ اصل قیمت اور بتائے گئے ایم ایس پی کے درمیان فرق کے برابر رقم ٹرانسفر کر سکے۔  اس اسکیم کی عمل آوری میں مخصوص پہچان نمبر آدھار اہم کردار نبھا سکتا ہے۔