فکر و نظر

کیوں کشمیر میں فوج اور شہریوں کو آمنے سامنے کھڑا کیا جا رہا ہے؟ 

کشمیر کے حالات اب نہ فوجیوں کے لئے اچھے رہ گئے ہیں، نہ وہاں کی عوام کے لئے۔  دونوں کے دل میں ایک دوسرے کے تئیں شک کا پہاڑ کھڑا کر دیا گیا ہے جو راستہ چھوڑنے کو تیار نہیں۔

علامتی فوٹو: رائٹرس

علامتی فوٹو: رائٹرس

اس حقیقت سے شاید ہی کوئی اتفاق نہ کرے کہ شروع میں امید کی جاتی تھی کہ جیسےجیسے وقت بیتے‌گا، جموں و کشمیر میں کڑواہٹ سے پیدا ہوا مسئلہ خود ہی سلجھنے کی طرف بڑھ جائے‌گا۔  لیکن اب اس امید کو ناامیدکرتی ہوئی، جیسےجیسے وقت بیت رہا ہے، یہ اور الجھتی جا رہی ہے۔اس کے الجھنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے  سارے فریق اکثر اپنےاپنے حصے کے سچ پر ہی اڑے ہوئے ہیں اور پورے سچ سے جڑنا یا وابستہ ہونا ہی نہیں چاہتے۔گزشتہ دنوں ایسی موافق سچائیوں کی تب ایک بار پھر جھڑی سی لگ گئی جب ریاست کی پی ڈی پی-بی جے پی اتحادی حکومت نے ریاست کے کوئی دس ہزار پتّھربازوں کے خلاف درج مقدمہ واپس لینے کی منظوری دے کر کوئی چار ہزار کو عام معافی کی سفارش کی۔

وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی، جو ریاست کی وزیر داخلہ بھی ہیں، نے کہا کہ یہ فیصلے ایک کمیٹی کی سفارش کی بنیاد پر باہمی اعتماد بحالی کے لئے کئے گئے ہیں اور تحفظ کے اسباب سے ان سے مستفید ہونے والے ناموں کا انکشاف نہیں کیا جا رہا۔ اس حوالہ سے، ریاست میں ایسے اقدام کی امید گزشتہ سال اکتوبر سے ہی کی جا رہی تھی، جب مرکزی حکومت نے آئی بی کے سابق ڈائریکٹر دینیشور شرما کو اپنا مذاکرہ کار تقرر کیا تھا اور کہا تھا کہ کشمیر مسئلہ کے حل کے لئے وہ  تمام جماعتوں سے بات چیت شروع کرنا چاہتی ہے۔

مرکزی وزارت داخلہ نے تبھی بتایا تھا کہ خیرسگالی کی بنیاد پر ان پتّھربازوں کے خلاف درج معاملے واپس لئے جائیں‌گے، جنہوں نے پہلی بار اس میںحصہ لیا ہوگا۔  تھوڑے ہی دنوں بعد اس مقصد کی حصولیابی کے لئے وہ کمیٹی تشکیل کی گئی تھی، فیصلے کی بابت بتاتی ہوئی جس کا محبوبہ نے ذکر کیا ہے۔جاننا چاہیے کہ گزشتہ سال جولائی میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی موت کے بعد سے کشمیر وادی میں محافظ دستوں پر پتھربازی کے واقعات کی لہر سی آ گئی تھی۔

تب مشتعل مظاہروں میں محافظ دستوں سے جھڑپ میں کئی نوجوانوں کی جان چلی گئی اور کئی پیلیٹ گن سے اندھے ہو گئے تھے۔چونکہ اس سے پیدا ہوئے حالات کی پیچیدگی سے نکلنے کا راستہ ‘ پتھر کا جواب گولی سے ‘ دے کر نہیں نکالا جا سکتا تھا، اس لئے مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے خود ریاستی حکومت سے نوجوانوں کے معاملوں میں ہمدردی دکھانے کو کہا تھا۔

یاد کیجئے، تبھی فٹبالر سے دہشت گرد بننے والے ماجد خان کی ‘ گھر واپسی ‘ پر اس کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ لیکن موافق سچ کے کئی پیروکاروں کو ‘ نامراد ‘ پتّھربازوں کو اتنی سی رعایت بھی اچھی نہیں لگ رہی۔  ان پیروکاروں میں بڑا حصہ ان حضرات  کا ہے، جن کے حصے کے سچ کو اپنا بناکر مرکز اور ریاست کی اقتدار میں آنے سے پہلے بی جے پی اپنے سیاسی امکان سفید کرنے کے لئے استعمال کیا کرتی تھی۔

Photo: PTI

Photo: PTI

تب ان حضرات کے ذریعے پتّھربازوں کا جی بھر کر حوا کھڑا کیا گیا اور جموں و کشمیر سے زیادہ اس کے باہر ان کا خوف  دکھایا گیا۔  ان کے بارے میں اس طرح باتیں کی جاتی تھیں، جیسے وہ ہمارا سکھ چین چھیننے کے لئے کسی دوسرے سیارے سے اور نہیں تو پاکستان ہوکر آئے مخلوق ہوں۔ان میں کسی کو سوچنا گوارا نہیں تھا کہ ان کے ساتھ ہوئی وہ کون سی ناانصافیاں ہیں، جنہوں نے ان کو پتھرباز بنا دیا ہے؟  وہ کیسی ناراضگی ہے، جس کے وجہ سے محافظ دستوں کی گولیوں کی پروانہ کرتے ہوئے وہ ان پر پتھر پھینکنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں؟

اب تقدیر کا پھیر یہ کہ بی جے پی کے ان ہمدردوں کے بوئے زہر سے ملک کے ساتھ بی جے پی کی حکومتوں کو بھی گزرنا پڑ رہا ہے۔  چونکہ ان حکومتوں کو زہرِہلاہل پی‌کر بھی نیلکنٹھ بنے رہنے کا مشق نہیں ہے، سو وہ کبھی تولہ، کبھی ماشہ اور کبھی رتی ہوتے ہوئے اندھیرے میں تیر چلاتے ہوئے مسئلہ میں طرح طرح سے پاؤں پھنسائے ہوئے ہیں۔اسی کا پھل ہے کہ کشمیر کے حالات اب نہ فوجیوں کے لئے اچھے رہ گئے ہیں، نہ وہاں کی عوام کے لئے۔  دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے تئیں کھڑا کر دیا گیا شک کا پہاڑ ہے کہ راستہ چھوڑنے کو ہی تیار نہیں۔

اس لئے کہ اپنےاپنے حصے کے سچ کے لحاظ سے کوئی فوجیوں پر پتھر پھینکنے کو غلط ٹھہرا رہا ہے تو کوئی فوج کے ذریعے کسی کو انسانی ڈھال کی طرح استعمال کرنے اور پتھر کا جواب پیلیٹ گن سے دینے کو۔ لیکن ان دونوں کو غلط ٹھہرانے کا حوصلہ کوئی نہیں کر رہا ہے ۔

نتیجہ یہ ہے کہ کشمیر مسئلہ کو چٹکیاں بجاتے حل‌کر ڈالنے کی بہادری کا مظاہرہ کرکے آئینریندر مودی حکومت کے ساڑھے تین سالوں میں وہاں دہشت گردی کے واقعات تو بڑھے ہی ہیں، 200 سے زیادہ فوجیوں کو اپنی شہادت سے اس کی قیمت چکانی پڑی ہے۔گزشتہ دنوں مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ کے ذریعے پارلیامنٹ میں دی گئی جانکاری کے مطابق، جنوری، 2017 سے 14 دسمبر تک یعنی صرف ایک سال میں 337 دہشت گرد حملوں میں کل 318 لوگوں کی موت ہوئی۔  اس دوران جموں و کشمیر پولیساور فوج کے 75 جوان شہید ہوئے، جبکہ 40 شہریوں کی جان گئی۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

موافق سچائیوں سے کام چلانے والوں کو پھر بھی یہ قبول کرنا گوارا نہیں کہ جان چاہے شہری کی جائے یا فوجی کی، اس سے انسانیت کا ہی نقصان ہوتا ہے۔  اس لئے فکر کا موضوع یہ ہونا چاہیے کہ ان  اموات کو کیسے روکا جائے؟ لیکن اس فکر میں کہیں ان کے سیاسی مفاد نہ گم ہو جائیں، اس ڈر سے ان کے ذریعے ابھی بھی فوج اور شہریوں کو ایک دوجے کی مخالفت میں آمنے سامنے کھڑا کیا جا رہا ہے۔

حکومتیں ہیں کہ ایک طرف فوجیوں کی بہادری کی واہ واہی لوٹ رہی ہیں، دوسری طرف ان کو موت کے منھ میں دھکیلے جا رہی ہیں۔  ایک طرف ان کی قربانی کو مقدس و منور کر رہی ہیں، دوسری طرف سہولیات کے لئے ترسنے  اور سچائی اجاگر کرنے پر سزا دے رہی ہیں۔ان کے لوگ شوپیان کے اس واقعہ کی موافقت سے بھی باز نہیں آ رہے، جس کو لےکر ریاستی پولیس نے فوج کے میجر اور جوانوں کے خلاف تو فوج نے انکاؤنٹر ایف آئی آر درج کرا رکھی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ بڑے اور حساس مدعوں پر خاموش رہنے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے تو اس کو لےکر خاموشی سادھ ہی رکھی ہے، وزیر دفاع نرملا سیتارمن بھی خاموش ہیں۔یہ کہنے کے لئے وزیر خزانہ ارون جیٹلی کو منھ کھولنا پڑا ہے کہ یہ متعین کرنا مرکز، ریاستی حکومت، اور میڈیا، سبھی کی ذمہ داری ہے کہ فوج اور شہریوں کے درمیان جدو جہد نہ ہو۔

فی الحال، کسی کو نہیں معلوم وزیر خزانہ نے جو کہا، اس سے مرکزی حکومت کتنا اتفاق رکھتی ہے، لیکن جن ریاستوں میںAFSPA ہے، وہاں سے زیادتیوں کے کئی معاملےاجاگر ہونے، ضرورت سے زیادہ طاقت کےاستعمال اور انسانی حقوق کی پامالی کو لےکر آوازیں اٹھنے کے باوجود فوج کو لےکر عوام میں جو عوام میں فخریا کہ تعریف اور احترام کا تاثر کم و بیش ابھی بھی بچا ہوا ہے، اس کی حفاظت کے لئے بھی ایسی جدو جہد کا ٹالا جانا بہت ضروری ہے۔

کشمیر مسئلہ کے حل کے لئے تو ہے ہی۔ بدقسمتی کہ اپنے حصے کے سچ میں قید  جماعتوں کو یہ سمجھنا پھر بھی گوارا نہیں۔

ایسے میں مرکز اور جموں و کشمیر دونوں کی حکومتیں مسئلہ کی ساری موافق سچائیوں، دوسرے الفاظ میں کہیں تو نصف سچائیوں، کو ملا کر کوئی ‘ پورا، سب کا یا ساجھے’ سچ تشکیل کر سکیں تو یہ ان کی طرف سے ملک کی بڑی خدمت ہوگی۔  لیکن ابھی تو وہ اس کے لئے بےتاب تک نہیں دکھائی دے رہیں۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔)