خبریں

ایک رافیل کی قیمت تم کیا جانو رمیش بابو 

آپ اپنا دماغ لگائیں۔  سارا دماغ پکوڑا تلنے میں لگے‌گا تو لوگ خزانہ لوٹ‌کر فرار ہو جائیں‌گے۔

Photo: Reuters

Photo: Reuters

ہندوستان، فرانس سے 36 رافیل جنگی طیارہ خرید رہا ہے۔  کیا ہندوستان نے ایک طیارہ کی قیمت ٹینڈر میں کوٹ کی گئی قیمت سے بہت زیادہ چکائی ہے؟  اس کو لےکر بحث ہو رہی ہے۔میری اپنی کوئی سمجھ نہیں ہے نہ جانکاری ہے لیکن میں نے ماہرِدفاع اجئے شکلا اور دفاع کی رپورٹنگ کرنے والے شاندار رپورٹر منو پبی کی رپورٹ کی بنیاد پر قارئین کے لئے ایک نوٹ تیار کیا ہے۔کانگریس پارٹی الزام لگا رہی ہے کہ وزیر اعظم نے فرانس سے رافیل جنگی طیارہ کی خرید کو لےکر جو قرار کیا ہے، اس میں گھپلہ ہوا ہے۔  اس گھپلہ میں خود وزیر اعظم شامل ہیں۔گزشتہ سال جب کانگریس نے معاملہ اٹھایا تھا تب وزیر دفاع نرملا سیتارمن نے کہا تھا کہ ہم سب کچھ بتانے کو تیار ہیں۔  کوئی گھوٹالہ نہیں ہوا ہے۔  اب وہ کہہ رہی ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان قرار کی شرطوں کے مطابق ہم جانکاری نہیں دے سکتے۔  مگر قیمت بتانے میں کیا دقت ہے؟

کانگریس کا دعویٰ ہے کہ اس کے دور یعنی 2012 میں جب ڈیل ہو رہی تھی تب ایک رافیل کی قیمت 526 کروڑ روپے آ رہی تھی۔  این ڈی اے حکومت کے وقت جو ڈیل ہوئی ہے اس کے مطابق اسی رافیل کی قیمت 1640 کروڑ روپے دی جا رہی ہے۔

منو پبی کی رپورٹ:

1 دسمبر 2017 کو دی پرنٹ میں منو نے لکھا کہ 36 رافیل جنگی طیارہ خریدنے سے پہلے حکومت نے اس سے سستا اور قابل جنگی طیارہ خریدنے کے اختیار کو نظرانداز کر دیا۔  ایک ‘ یوروفائٹر ٹائفون ‘ 453 کروڑ روپے میں ہی آ جاتا۔برٹن، اٹلی اور جرمنی نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ طیارہ کے ساتھ پوری ٹکنالوجی بھی دے دیں‌گے۔  2012 میں رافیل اور یوروفائٹر دونوں کو ہندوستانی ضروریات کے مطابق پایا گیا تھا۔

یو پی اے نے جو فرانس کے ساتھ قرار کیا تھا اس میں دیری ہو رہی تھی۔  مودی حکومت نے اس کو منسوخ کر دیا۔  جب برٹن، جرمنی اور اٹلی کو پتا چلا تو انہوں نے 20 فیصد کم قیمت پر جنگی طیارہ دینے کی پیشکش کی مگر حکومت نے ان دیکھا کر دیا۔  حکومت کے پاس ان کا آفر جولائی 2014 سے لےکر 2015 کے آخر تک پڑا رہا۔

اجئے شکلا کی رپورٹ :

اجئے شکلا نے لکھا کہ ہندوستانی ایئر فورس اس صدی کی شروعات سے ہی روسی دور کے مہنگے طیاروں کی جگہ سستے اور قابل طیاروں کی تلاش‌کر رہی ہے۔  10 اپریل 2015 کو جب وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا کہ ہندوستان ڈسالٹ سے 36 رافیل جنگی طیارہ خریدے‌گا تب اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پریکر نے دوردرشن پر کہا کہ یہ ایک اسٹریٹجک خرید ہے۔  اس کو مقابلہ جاتی ٹینڈر کے ذریعے نہیں کیا جانا چاہیے تھا یعنی بنا ٹینڈر کے ہی خریدا جانا مناسب ہے۔

کئی ماہرین کی نگاہ میں رافیل خریدنے کی کوئی پختہ وجہ نہیں دکھتی ہے کیونکہ اس کے پاس پہلے سے سات قسم کے جنگی طیارے ہیں۔  ان کے رکھ رکھاؤ کا سسٹم بنا ہوا ہے، رافیل کے آنے سے کافی پیچیدگی پیدا ہو جائے‌گی۔رافیل کی خرید کو اس لئے جائز ٹھہرایا جا رہا ہے کہ اس پر ایٹمیہتھیار لوڈ کیا جا سکتا ہے۔  ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دوسرے طیاروں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔کہنے کا مطلب ہے کہ ہندوستان کو غور کرنا چاہیے کہ اتنا مہنگا طیارہ وہ کیوں خرید رہا ہے۔  یہی کام تو ‘ سکھوئی 30MKI ‘ بھی کر سکتا ہے۔

اور اگر اتنے مہنگے طیارے کی خرید اس لئے ہو رہی ہے کیونکہ اس کا ایٹمی ہتھیار ڈھونے کی صلاحیت دوسروں سے بہتر ہے تو حکومت نے پبلک میں کیوں نہیں کہا۔2030-35 تک ‘ جگوآر ‘ اور ‘ میراز 2000 ‘ کو اپ گریڈ کر دیا جائے‌گا جو ہوا میں ایٹمیہتھیار لےکر مار‌کر سکیں‌گے تو پھر رافیل کی ضرورت کیا ہے۔

اجئے شکلا کہتے ہیں کہ ‘ میراز 2000 ‘ بھی فرانس کے دسالت کی ہے۔  وہ اب اس کی پیداوار بند کر رہا ہے۔  کئی لوگ اس سوچ کے ہیں کہوہ اپنی یہ ٹکنالوجی ہندوستان کو دے، جس کی بنیاد پر پہلے سے بہتر ‘ میراز 2000 ‘ تیار کیا جا سکے کیونکہ کارگل جنگ میں ‘ میراز 2000 ‘ کے مظاہرہ سے ایئر فورس مطمئن تھی۔لیکن اس وقت جارج فرنانڈیز بنا مقابلہ جاتی ٹینڈر کے سیدھے ایک کمپنی سے قرار کرنے سے پیچھے ہٹ گئے کیونکہ تب تک تہلکہ کا اسٹنگ آپریشن ہو چکا تھا۔

شکلا لکھتے ہیں کہ 15 سال بعد وہی ہوا جو جارج نہیں کر سکے۔  حکومت نے سنگل وینڈر سے رافیل خریدنے کا فیصلہ کر لیا۔  کیوں بھائی؟

اجئے کا خیال ہے کہ رافیل خریدنے کے بعد بھی ایئر فورس کی ضرورت پوری نہیں ہوئی ہے، تبھی تو 144 سنگل انجن جنگی طیاروں کے لئے ٹینڈر جاری کئے جا رہے ہیں۔  اس ڈیل سے میک ان انڈیا کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے۔رافیل سے بھی سستے اور چار طیارے ہیں، جن پر غور کیا جا سکتا تھا۔  دنیا کے ہر ایئر فورس کے بیڑے میں F-16 SUPER VIPER، F / A-18E، F SUPER HORNET شان سمجھے جاتے ہیں۔  ہندوستان نے ان پر غور کرنا ممناسب نہیں سمجھا۔  جس کی ضرورت نہیں تھی، اس کو خرید لیا۔

اجئے کا ایک مضمون اسی پر ہے کہ کیا ہندوستان نے ایک رافیل طیارہ کے لئے بہت زیادہ پیسے دئے ہیں؟

کانگریس کا الزام ہے کہ حکومت اصل ٹینڈر میں دئے گئے دام سے 58000 کروڑ روپے زیادہ دے رہی ہے۔  چونکہ حکومت نے اپنی طرف سے کوئی ڈیٹا نہیں دیا ہے اس لئے بازار میں جو دستیاب ہے اس کی بنیاد پر ان الزامات کی تفتیش کی جا سکتی ہے۔نرملا سیتارمن نے تو کہا تھا کہ رافیل کے دام کی جانکاری پبلک کر دی جائے‌گی لیکن اجئے شکلا نے جب پوچھا تو کوئی جواب نہیں ملا۔

اجئے شکلا کے مطابق، پوری قیمت جاننے کے لئے طیارہ کی قیمت، ٹکنالوجی ٹرانسفر کی قیمت، کل پرزے کی قیمت، ہتھیار اور میزائل اور رکھ رکھاؤ کی قیمت کا بھی اندازہ ہونا چاہیے۔اجئے کا کہنا ہے کہ 2015 میں جو ڈیل سائن ہوئی ہے اس کا ایک سرکاری اعداد و شمار دستیاب ہے۔  36 رافیل کے لئے ہندوستان 7.8 ارب یورو دے‌گا۔

اجئے لکھتے ہیں کہ ڈیل کے فوراً بعد وزیر دفاع نے کچھ نامہ نگاروں کے ساتھ آف رکارڈ بریفنگ میں کہا تھا کہ ایک رافیل کی قیمت 686 کروڑ روپے ہے۔  اجئے بھی وہاں موجود تھے۔اگر ایسا تھا تو 36 رافیل جنگی طیاروں کی قیمت ہوتی ہے 3.3 ارب یورو۔  صرف طیارہ-طیارہ کی قیمت۔  اس کے علاوہ ہندوستان نے اپنی ضروریات کے حساب سے اور بھی قیمت ادا کی جو 7.85 ارب یورو ہو جاتی ہے۔

اجئے ایک سوال کرتے ہیں کہ ایئرکرافٹ کی قیمت میں اضافی لاگت کتنی ہے؟  مطلب ایک دام تو ہوا صرف طیارہ کا، باقی دام ہوئے اس کے رکھ رکھاؤ، ٹکنالوجی منتقلی، ہتھیاروں سے مسلح کرنے کے۔کئی جانکاروں کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی ضروریات کے حساب سے تبدیلی کی قیمت طیارہ کی اصل قیمت میں شامل ہونی چاہیے نہ کہ الگ سے ادا کی جائے۔  اس کی وجہ سے ایک طیارہ کی قیمت ہو جاتی 1063 کروڑ روپے۔  13 اپریل 2015 کو اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پریکرنے دوردرشن سے کہا تھا کہ رافیل کافی مہنگا ہے۔

Photo: PTI

Photo: PTI

اگر آپ ٹاپ اینڈ ماڈل لیں تو 126 طیارے کی قیمت 90000 کروڑ روپے پہنچ جاتی ہے۔  اس حساب سے تو ایک طیارہ کی قیمت ہوتی ہے 714 کروڑ روپے۔  یعنی جو ہندوستان چکا رہی ہے اس سے بھی کم۔اجئے کا کہنا ہے کہ رافیل نے جو ایم ایم آر سی ٹینڈر میں دام کوٹ کیا تھا اسی سے موازنہ کرنے پر صحیح دام کا اندازہ ملے‌گا۔  فرانس کی پارلیامنٹ یعنی فرینچ سنیٹ وقت وقت پر رافیل طیارہ کی قیمت جاری کرتی ہے۔

2013-14 کی فہرست کے مطابق، ایک رافیل کی قیمت ہے 566 کروڑ روپے۔  527 کروڑ روپے اور 605 کروڑ روپے کے بھی ماڈل ہیں۔  فرانس کی پارلیامنٹ جو دام بتا رہی ہے وہ تو کافی کم ہے۔  ہندوستان اس سے زیادہ دے رہا ہے۔  کہیں ایسا تو نہیں کہ ہندوستانی ایئر فورس فرانس کی طیارہ کمپنیوں کو سبسیڈی دے رہی ہے۔

ان دو خبروں کے علاوہ پچھلے دسمبر میں ایک اور خبر آئی۔ فرانس نے انکار کیا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے رافیل طیارہ کے لئے دام سے زیادہ دام پر معاہدہ کیا ہے۔یہ خبر سرکاری چینل سے نہیں آئی بلکہ خبروں میں فرینچ سیاسی رہنما کے ذرائع کا حوالہ دیا گیا ہے۔  ظاہر ہے یہ حوالہ لانٹ زیادہ لگتا ہے۔

پرشانت بھوشن کا ٹویٹ دیکھیے۔  وہ کافی جارحانہ ہیں۔  بھوشن سوال کر رہے ہیں کہ 28 مارچ 2015 کو امبانی کی کمپنی ریلائنس ڈیفینس رجسٹرڈ ہوتی ہے۔دو ہفتے کے اندر اس کو مودی 600 کروڑ روپے میں ایک رافیل طیارہ کی پرانی ڈیل کو منسوخ کرکے نئی ڈیل کرتے ہیں کہ 1500 کروڑ میں ایک رافیل طیارہ خریدیں‌گے۔  ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ کو ہٹاکر ریلائنس ڈیفینس کمپنی کو اس ڈیل کا ساجھےدار بنا دیا جاتا ہے۔  اس میں گھوٹالہ ہے۔

آپ اپنا دماغ لگائیں۔  سارا دماغ پکوڑا تلنے میں لگے‌گا تو لوگ خزانہ لوٹ‌کر فرار ہو جائیں‌گے۔

دفاعی معاہدوں کو لےکر اٹھنے والے سوال کبھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچتے ہیں۔  آج تک ہم بوفورس کی تفتیش میں وقت برباد کر رہے ہیں اور دنیا کو ورغلا رہے ہیں۔دو ہفتہ پرانی کمپنی کو ہزاروں کروڑ روپے کی ڈیفینس ڈیل مل جائے یہ صرف اور صرف اسی دور میں ہو سکتا ہے جب ملک ہندو مسلم میں ڈوبا ہوا ہے ورنہ عوام کو الو بنانے کا کوئی چانس ہی نہیں تھا۔

اسی 9 جنوری کو اٹلی سے ایک خبر آئی جس کو لےکر کسی نے اس پر دمدار گفتگو نہیں کی۔ سی این این-آئی بی این کے بھوپیندر چوبے کو چھوڑ‌کر۔جبکہ اگستا ویسٹلینڈ کا معاملہ آتا ہے تو گودی میڈیا زبردست جارحانہ ہوجاتی ہے کیونکہ اس سے حزب مخالف کو گھیرنے میں بنتا ہے لیکن جب حکومت اس مقدمہ میں پٹ گئی تو خاموش ۔

9 جنوری کو اٹلی کی عدالت نے اگستا-ویسٹلینڈ وی آئی پی ہیلی کاپٹر کی خرید کے معاملے میں دو اہم ملزمین کو جیسیپی او رسی اور برونو اسپیگنولنی کو بری کر دیا کہا کہ ان کے خلاف مناسب ثبوت نہیں ہے۔وکیل نے کہا کہ ان کے خلاف رشوت کا کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔  نہ ہی کسی ہندوستانی افسر نے ٹینڈر میں مداخلت کی تھی۔  کہا گیا کہ اس بات کے کوئی ثبوت نہیں دئے گئے کہ ایئر فورس کے سابق چیف تیاگی نے ہیلی کاپٹر کمپنی سے رشوت لی تھی۔

اس کے بعد بھی سی بی آئی کہتی ہے کہ ان کی تفتیش پر کوئی اثر نہیں پڑے‌گا۔  جبکہ وہ اٹلی کی عدالت میں ثبوت پیش نہیں کر سکی۔  سی بی آئی کے سینئر افسر کورٹ میں گئے تھے۔اٹلی کے جج نے وہی کہا جو 2جی معاملے میں جج اوپی سینی نے کہا کہ ہم انتظار کرتے مگر سی بی آئی کوئی ثبوت پیش نہیں کر پائی۔  2جی معاملے میں بھی ثبوت پیش نہیں کر کے کس کو بچایا گیا ہے، کس کس سے پیسہ کھایا گیا ہے یہ کون جانتا ہے۔  بہر حال اس پر بھی دعویٰ ہے کہ بد عنوانی کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔