فکر و نظر

’ایک ملک، ایک انتخاب‘ جمہوریت کا گلا گھونٹ دے‌گا 

ایک ملک، ایک انتخاب کے ورد کے پیچھے چھپے مقصد کوسمجھنے کے لئے بہت باریکی میں جانے کی بھی ضرورت نہیں اور کچھ موٹی موٹی باتوں سے ہی اس کا پتا چل جاتا ہے۔  ان میں پہلی بات یہ کہ ابھی تک نہ ملک میں ایک تعلیمی نظام ہے، نہ ہی سارے شہریوں کو ایک جیسی طبی سہولت مل رہی ہے۔

Photo: PTI

Photo: PTI

حکومتیں مسائل کی پیچیدگیوں میں جا کر ان کے حل کی مناسب کوششوں کا راستہ چھوڑ‌ کر کہیں نہ لے جانے والی سہولت کی جملے بازیوں میں الجھنے اور الجھانے لگ جائیں تو وہی ہوتا ہے، جو ہم ان دنوں اکثر  دیکھ رہے ہیں۔ان میں تازہ معاملہ انتخابات سے جڑا ہے، عرصے سے ٹھہرے  ہوئے اصلاحی عمل کو صحیح طریقے سے آگے بڑھانے کے بجائے ‘ ایک ملک، ایک انتخاب ‘ کے جملے کو اس طرح آگے کیا جا رہا ہے، جیسے وقت کی سب سے بڑی ضرورت وہی ہو۔

وزیر اعظم نریندر مودی تو جب بھی دل ہوتا ہے، اس جملے کا ورد کرنے ہی لگ جاتے ہیں، اب انہوں نے اپنے اس ورد میں صدر رامناتھ کووند کو بھی شامل کر لیا ہے۔  سو،پارلیامنٹ کے بجٹ سیشن کے شروع میں اپنے خطاب میں پارلیامنٹ اور اسمبلیوں کے انتخاب ساتھ ساتھ کرانے کو لےکر صدر نے بھی دوہرا ڈالا کہ سرکاری مشینری کے بار بار انتخابات میں مصروف ہونے سے ترقی کے کاموں میں رکاوٹ آتی ہے۔

یوں اس ورد کے پیچھے چھپا مقصد سمجھنے کے لئے بہت باریکی میں جانے کی بھی ضرورت نہیں اور کچھ موٹی موٹی باتوں سے ہی اس کا پتا چل جاتا ہے۔  ان میں پہلی بات یہ کہ ابھی تک نہ ملک میں ایک تعلیمی نظام ہے، نہ ہی سارے شہریوں کو ایک جیسی طبی سہولت مل رہی ہے۔

حکومت کے سب سے بڑے انٹر پرائز ریلوں میں بھی ایک ملک، ایک مسافر، ایک کوچ کا متضاد نظام ہی نافذ ہے۔  سکھ اور خوش حالی کے لیے  ایک جیسےبٹوارے کی تو بات ہی مت کیجئے، الٹے ایک فیصد امیر 73 فیصد جائیداد پر قابض ہو گئے ہیں۔جی ایس ٹی سے جڑے ‘ ایک ملک، ایک بازار، ایک محصول ‘ کے نعرے کو حکومت کے ‘ ایک ملک، ایک انتخاب ‘ کے جملے کی ترغیب مانیں تو ابھی وہ ‘ ایک ملک، ایک بازار ‘ کے اپنے خواب کو بھی پوری طرح زمین پر نہیں اتار پائی ہے۔

لیکن ان سارے حالات سے اس کو کوئی پریشانی نہیں محسوس ہو رہی ہے اور وہ اس سوال سے بھی نہیں جوجھنا چاہتی کہ اگر انتخابات کے عمل میں اصلاح نہیں ہوتا اور ان میں دولت اور قوت، ذات و مذہب، فرقہ اور علاقہ وغیرہ کا بڑھتا دخل نہیں روکا جاتا تو وہ ایک بار میں سمیٹ لئے جائیں یا بار بار ہوں، ان سے جڑے مسئلہ تو بڑھنے ہی والے ہیں۔وہ اس حقیقت کو بھی نہیں قبول کرتے کہ اصل مسئلہ انتخابات کے دنوں دن بڑھتے خرچ اور اس سبب متضاد مقابلے میں بدلتے جانے کا ہے۔

ایسے میں ‘بار بار کے ‘ انتخابات سے چھٹکارے کی بنیاد پر اگر وہ یہ کہنا چاہتی ہے کہ لوگ ایک بار جس حکومت کو چن لیں، سینہ پر مونگ دلنے لگ جانے پر بھی پانچ سال تک اس کو ڈھونے کو مجبور رہیں تو اس کو جمہوری‎ کیسے کہا یا کیسے سہا جا سکتا ہے؟آخر ہم نے جمہوری‎حکومتی نظام کو بہترین مان‌کر قبول کیا ہوا ہے یا اس کے سستا ہونے کی وجہ سے؟  اس کو سستا کرنے کی دلیل تو، کم سے کم موجودہ حالات میں، حقوق کی ایسی  مرکزیت  تک لے جا سکتی ہے، جس سے ہماری بھلائی ہی ممکن نہ ہو۔

آج انتخابات کو ترقی میں رکاوٹ  کی دلیل مان لیا گیا تو کیا کل پوری جمہوریت کو ہی ترقی مخالف ٹھہرانے والے آگے نہیں آ جائیں‌گے؟  کس کو نہیں معلوم کہ ترقی ہمیشہ ہی حکمراں جماعتوں کا ہتھیار رہا ہے اور حکومتوں کو پریشانی تبھی ہوتی ہے جب اس کے فائدوں کی منصفانہ تقسیم کی بات کہی جائے۔چونکہ حکومت اپنے ورد کے آگے کسی کی اور کچھ بھی سننے کو تیار نہیں ہے، فطری طور پر اس کے  ارادوں کو لےکر شک گہرے ہو رہے ہیں۔ہمارے آئینی ڈھانچے میں عام حالات میں حکومتیں پانچ سال کے لئے چنی جاتی ہیں۔  ہاں، ان سے عوام کا بھروسا اٹھتا ہے اور وہ گرتی ہیں، تو وسط مدتی انتخاب ہوتے ہیں، جن میں عوام کو پھر سے ااپنی سرکارچننے کا موقع ملتا ہے۔’ ایک ملک، ایک انتخاب ‘ کے نام پر اس کے اس اختیار کو ختم کرنے کی وکالت کیسے کی جا سکتی ہے؟  اس کے نام پر ملک کی جمہوری‎ رنگارنگی اور پارپارلیامانی نظام کو بھی خطرے میں کیسے ڈالا جا سکتا ہے؟

Photo: PTI

Photo: PTI

ٹھیک ہے کہ 1952 میں پہلے عام انتخاب میں پارلیامانی اور ساری اسمبلیوں کے انتخاب ایک ساتھ ہوئے تھے اور بعد میں جمہوری‎ تقاضے کے تحت نہ صرف ریاستوں بلکہ مرکز میں بھی وسط مدتی انتخاب ہوئے، جن کے وجہ سے یہ انتخاب الگ الگ ہونے لگے۔وقت کے ساتھ ان کی شکل بدلی تو کئی بدصورتی بھی ان سے آ جڑیں۔  اب انہی کے بہانے کہا جانے لگا ہے کہ بار بار انتخابات کی وجہ سے حکومتیں بار بار مثالی انتخابی ضابطہ اخلاق  کے تحت ہو جاتی ہیں اور ترقی کے کاموں میں رکاوٹ ہوتی ہے۔لیکن سچ پوچھیے تو یہ ایک عملی دقت بھر ہے، اس لئے اس کے عملی حل تلاش کیے جانے چاہیے، عوام کو مجبور بنانے والے قدم اٹھا کر نہیں۔

یہاں یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی انتخاب تب تک سچے معنوں میں عوامی فرمان کا اظہار نہیں کر سکتا، جب تک امیدواروں میں اس کے مدعوں کو لےکر مناسب بحث و مباحثے اور مقابلہ نہ ہو۔  دوسرے الفاظ میں کہیں تو یہ بحث و مباحثے اور مقابلہ ہی ان کی روح  ہے۔ایسے میں ‘ ایک ملک، ایک انتخاب ‘ کی بات کرنے والوں کو اس بابت بھی اپنا رخ  صاف کرنا چاہیے کہپارلیامنٹ اور اسمبلی کے انتخاب ساتھ ساتھ ہوں‌گے تو وہ اس روح کی حفاظت کیسے کریں‌گے؟  خاص طور پر، جب ان دونوں انتخابات کے نہ امیدوار ایک ہوتے ہیں، نہ حالتیں اور نہ مدعے۔  جذبے الگ الگ ہوتے ہیں، سو الگ۔

کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخاب میں علاقائی توقعات کے مدنظر علاقائی جماعت اقتدار کے خاص دعوے دار ہوتے ہیں اور پارلیامانی انتخاب میں ان کی وہ حالت نہیں ہوتی۔پوچھا جانا چاہیے کہ دونوں انتخاب ایک ساتھ ہوں‌گے اور مرکزی اقتدار کے مقابلہ میں شامل جماعت ریاستوں کی گوناگوں توقعات پر حاوی ہوں‌گے تو کیا ان میں عوامی پہلو صحیح سے ظاہر ہو پائیں‌گے اور ملک کی جمہوریت کی صحت سدھرے‌گی؟یہ اقتدار کی لامرکزیت کی طرف لے جانے والا قدم ہوگا یا بےلگام رجحانوں کو مضبوط کرنے والا؟سوال پھر وہی کہ انتخابات میں وقت کی بربادی کی اتنی ہی فکر ہے تو ان  کے لائحہ  عمل کی غلطیاں دورکرکے ان میں ہونے والے بےتحاشہ خرچ گھٹانے کی تدبیر کیوں نہیں کئے جاتے؟  ان کے دوران مینڈٹکے لئے جواوٹ پٹانگ حرکتیں کی جاتی ہیں ، ان کو روکنے کی طرف دھیان کیوں نہیں دیا جاتا؟

کیا انتخابات میں داغی اور مجرموں کی حصے داری کو اس لئے بڑا مسئلہ نہیں مانا جانا چاہیے کہ ان کو لےکر ساری سیاسی جماعتوں میں پارلیامنٹ تک میں اتفاق رائے ہے اور مجرم یا داغی ساری جماعتوں میں پائے جاتے ہیں؟ملک کی جمہوری‎ صحت کے لحاظ سے تو پارلیامنٹ اورقانون ساز کاؤنسل کے وقت کی غیرضروری کاموں میں بربادی بھی بڑی فکر کی وجہ ہونی چاہیے۔  آخر انتخاب ہوتے ہی اس لئے ہیں کہ منتخب عوامی نمائندہ پارلیامنٹ اور اسمبلیوں میں بیٹھ‌کر مفاد عامہ اور  ملک مفاد کے موافق فیصلے لیں اور پالیسیاں بنائیں۔پھر ان کے سیشن رسمی کیوں ہونے لگے ہیں؟  مثالی انتخابی ضابطہ اخلاق سے ڈری ہوئی حکومت کو جمہوری‎ اصولوں کا زیادہ سے زیادہ نہیں تو کم از کم بوجھ تو اٹھانا ہی چاہیے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔)