فکر و نظر

بابری مسجدمعاملہ : پرسنل لاء بورڈ کی معتبریت کو’سلمان ندوی کا چیلنج‘

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن عاملہ اور اخوان المسلمین و داعش جیسی متنازع تنظیموں سے ہمدردی رکھنے نیز ان کی حمایت میں قصیدہ پڑھنے والے مولاناسید سلمان حسینی ندوی کا بورڈ کے خلاف اعلان بغاوت سے اب مطلع مزید صاف ہو تا جا رہاہے۔

sri-sri-with-muslim-leaders

ایودھیا میں واقع بابری مسجد کا قضیہ اس وقت شروع ہوا جب ہندتوا تحریک کے چند شر پسندوں نے مسجد کے صحن میں شری رام کی مورتی رکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہی ان کے بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے جس پر غاصبانہ قبضہ کر کے مغل بادشاہ بابرکے حکم سے مسجد بنائی گئی تھی۔ واضح رہے کہ بابری مسجد یا کسی بھی مسجد کی تعمیر کے تعلق سے جملہ مسلمانوں کا یہ مسلم ایمان ہے کہ وہ کسی بھی غاصبانہ قبضہ یا حرام پیسہ سے خریدی ہوئی زمین پر نہیں بنائی جا سکتی۔ آج بھی جب سرکاری یا دوسروں کی زمینوں پر قبضہ جمانے کیلئے چند قطعہ اراضی کو مندر، درگاہ یا تثلیث سے منسوب کر دیا جاتا ہے تو اس حال میں بھی مسلمانان عالم اپنی مسجد کی تعمیر ایسی ناجائز زمین پر کرنے کا تصور بھی نہیں کرتے ۔ بابری مسجد کے تعلق سے مسلمانان ہند کا یہی موقف اور نظریہ ہے کہ کسی غاصبانہ قبضہ والی زمین پر بابری مسجد کی تعمیر نہیں ہوئی ہے۔ اس ضمن میں مسلمانوں کا نمائندہ کہے جانے والا ادارہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ کا بھی یہی موقف ہے اور سنی وقف بورڈ کا بھی کہ بابری مسجد کی زمین وقف للہ ہے نیزجس کی شرعی حیثیت صبح قیامت تک مسجد ہی ہے ، اسے منتقل کی جا سکتا ہے اور نہ ہی ختم۔

یاد رہے کہ بابری مسجد کے تعلق سے گزشتہ چھ دہائیوں سے حکومت اور انتظامیہ کے ہاتھوں جوتعطل بنائے رکھا گیاہے اسے حسب منشاسیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ بابری مسجد زمین کی ملکیت کے زیر سماعت مقدمہ میں قانون اور عدالت کے وقار کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بابری مسجد کے گیٹ کا تالا کھلوا کر اس میں پوجا پاٹ کی اجازت دی گئی اور بالآخر6 دسمبر 1992 کو حتمی طور پر مسجد کے ڈھانچے کو شہید بھی کر دیا گیا۔ البتہ اس درمیان عدالت کوظاہری طور پر مطمئن کرنے کیلئے سینکڑوں حلف نامے ضرور داخل کئے جاتے رہے ۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں بابری مسجد قضیہ کے تصفیہ کی جانب حالیہ دنوں میں جو پیش رفت ہوئی ہے اس سے ایسا تاثر پہنچ رہا ہے کہ مستقبل قریب میں کوئی رائے سامنے آ سکتی ہے۔ تاہم عدالت نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ صرف اور صرف بابری مسجد کی زمین کی ملکیت پر ہی خود کو محدود رکھے گی۔ فریقین کے اعتقادی اصولوں اور نظریات سے اس کا سر دست کو سروکار نہیں۔

ویڈیو :بابری مسجد انہدام کی کہانی،صحافیوں کی زبانی

ملحوظ خاطر رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے اکتوبر2010 میں بابری مسجد کی زمین کی ملکیت پر جو فیصلہ سنایا تھا اس میں ایک تہائی سنی وقف بورڈ، ایک تہائی نرموہی اکھاڑہ کو اور ’’ آستھا‘‘ کی لاج رکھتے ہوئے ایک تہائی زمین ’’رام للا‘‘ کو دینے کی رائے دی تھی۔ جسے مسلم فریق کے نمائندہ اداروں اور سنی وقف بورڈ نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور فی الوقت یہی وہ زیر سماعت مقدمہ ہے جس پر سپریم کورٹ کی کارروائی متوقع ہے۔ سیاسی صورتحال یہ ہے کہ 2019 کے لوک سبھا انتخاب کیلئے حکمراں جماعت بی جے پی کو اپنے انتخابی وعدوں کی طرف لوٹنا بھی ضروری ہے، اس لئے ترقیاتی منصوبوں اور بہتر حکومت کے پروپگنڈوں کے مقابلے میں فرقہ وارانہ صف بندی کے اپنے آزمودہ عیاریوں پر وہ ایکبار پھر سے سرگرم ہو گئی ہے۔ البتہ اس بار وہ صرف فرقہ وارانہ صف بندی کا فارمولا ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی مسلکی گروہ بندی اور اس کے نمائندہ اداروں میں موقع شناش پیشواؤں کے نظریاتی اختلافات کوبھی ہوا دے کر مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرنے کی چال رہی ہے۔ اس کام کیلئے جہاں ایک طرف آرٹ آف لیونگ کے سربراہ کا انتخاب کیا گیاہے، وہیں مسلکی تنازعات کھڑے کرنے کیلئے لکھنو کے شیعہ وقف بورڈ کو اپنا آلہ کار بنایا گیاہے ۔ یہ سارے ’’ ایکٹرز‘‘ ( مداری )منصوبہ بند نہج پر ایک خاص وقت کے تعین کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ اس اندیشے کا اندازہ تو اسی وقت ہو چکاتھا جب آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے پیروی کرنے والے سینئر کانگریسی لیڈر اور سپریم کورٹ کے وکیل کپل سبل نے عدالت عظمی سے پہلی شنوئی کے دوران یہ درخواست کی تھی کہ جاریہ مقدمہ کی شنوائی کو 2019 کے لوک سبھا انتخابات کی تکمیل تک موخر کر دے۔

یہ بھی پڑھیں :بابری مسجد تنازعہ : ایسے مسئلوں کا حل مسلمانوں کی رضامندی کے بغیر نہیں نکل سکتا؛سردارپٹیل

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن عاملہ اور اخوان المسلمین و داعش جیسی متنازع تنظیموں سے ہمدردی رکھنے نیز ان کی حمایت میں قصیدہ پڑھنے والے مولاناسید سلمان حسینی ندوی کا بورڈ کے خلاف اعلان بغاوت سے اب مطلع مزید صاف ہو تا جا رہاہے۔ ہر چند کہ مولاناندوی موصوف نے یقینی طور پر ایک دانشورانہ اور فکر انگزیز سوال اٹھایا ہے کہ’’ مسلمانوں کے حق میں بابری مسجد کا فیصلہ آنے کی صورت میں ملک کا سماجی اور فرقہ وارانہ ماحول کیا ہوگا‘‘؟؟ ، تاہم مولانا موصوف کا بورڈ کے خلاف اس طرح اچانک تلوار بے نیام ہو جانا ان کے وقار اور شخصیت کی شایان شان ہے اور نہ ہی پرسنل لا بورڈکی باقی ماندہ معتبریت کیلئے سودمند۔ بلا شبہ موصوف مولانا ندوی کے خدشات لائق توجہ ہیں ، لیکن موصوف نے جس طرز اور نہج پر بورڈ کے اعلی ترین قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر براہ راست ہندو فرقہ کے غیر نمائندہ شخصیات سے تبادلہ خیال کا آغاز کر دیا ہے اس کے مجاز وہ خود ہیں اور نہ ہی ان کے مخالف ہندو پیشوا شری شری روی شنکر۔ یعنی جن خدشات کا موصوف مولانا ندوی خود اظہار کر رہے ہیں ،اسی خدشات سے ہی یہ پہلو بھی نکل کر آتا ہے کہ ان کی نمائندگی یا شری شری روی شنکر کی نمائندگی ان کے متعلقہ فرقوں کے جملہ ہندو اور مسلمان تسلیم کر تے ہیں یا کر لیں گے؟؟

یہ بھی پڑھیں :رام جنم بھومی اور بابری مسجد کا تنازعہ : عہد وسطیٰ کی شہادت

سر دست اگرچہ اس تفصیل میں جانے کا موقعہ نہیں کہ بیشتر وقتوں میں اور طلاق ثلاثہ کے معاملہ میں خصوصاً آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے جملہ مسلمانوں کی نمائندگی کے حق کو کمزور بنا دیا ہے، تاہم وہ اپنے رکن عاملہ سید سلمان ندوی سے یہ سوال کرنے کا ضرور حق رکھتاہے کہ انہوں نے بورڈکو اعتماد میں لئے بغیر بابری مسجد کے معاملہ میں اس کے اعلان شدہ موقف سے ہٹ کر میڈیا میں جانے کی ضروت کیوں محسوس کی؟؟ مولانا موصوف سید سلمان ندوی جس طرح پرسنل لاء بورڈ کے خلاف باغیانہ تیور اختیار کر چکے ہیں اور اپنی ذات سے ہی پورے ملک کے مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ ٹھونک رہے ہیں، یہ بھی ان کی خام خیالی اور زمینی حقیقت سے نا سمجھی ہے۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن عاملہ کی حیثیت سے مولانا موصوف نے کل تک اپنا اختلاف ظاہر نہیں کیا تھا، لیکن آج بالفرض صحیح ہونے کی صورت میں بھی مولانا کے طرز استدلال سے مسلمانوں کے درمیان مزید اختلافات کا جواز پیدا ہو گیا ہے۔ ایک طرف پرسنل لا ء بورڈ کا اعلان شدہ موقف ہے جس میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلیمن کے سربراہ اسعد الدین اویسی جیسے سیاسی لیڈروں کی حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف مولانا سید سلمان حسینی ندوی کے اندیشوں کے پس منظر میں راتوں رات وہ سر گرمیاں( جس کے محرکات کے سر بستہ راز وں سے ابھی پردہ اٹھنے باقی ہیں)،جوملک کے عام اور بھولے بھالے مسلمانوں کے جذبات اور احساسات پر ضرور بالضرور اثر ڈالیں گی۔

یہ بھی پڑھیں :سنگھ پریوار کو پھوٹی آنکھوں سے بھی مسجد برداشت نہیں،ایودھیا میں نئے کھیل کی تیاری

مولانا سید سلمان حسینی ندوی کے اندیشوں میں بہ ظاہر ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی اگر بحالی کی امیدیں چھپی ہیں تو دوسری طرف فسطائیت اور فرقہ پرست طاقتوں سے بر سر پیکار ملک کے مسلمانوں نیز ممبئی 1993 اور گجرات 2002 کے مسلم کش فسادات میں لٹنے والوں کی ذہنوں میں یہ سوالات بھی بدستور موجود ہیں کہ ہزاروں قرباینوں اور خانماں برباد ہونے کے باجود آج بھی انہیں ’’ دیش دروہی ‘‘ کہہ کر پاکستان بھیجنے کی دھمکیاں سننے ملتی ہیں، بابری مسجد کی زمین سے دستبرداری کی صورت میں انہیں کون سا ’’ دیش بھکت‘‘ کا تمغہ امتیاز دیدیا جائیگا؟؟۔ ہندتو تحریک کی ذہنیت کا عالم تو یہ ہے کہ وہ ہندو ؤں کے شنکر اچاریہ، سربر آورادہ رشی منیوں اور پیشواوں کو بھی ہندو سمجھتے ہیں اور نہ ہی دیش بھکت۔ بلکہ ان کی نظروں میں ہر وہ ہندو جو سنگھیوں کے افکار اور نظریات سے اتفاق نہیں رکھتا وہ بھی ’’ دیش دروہی‘‘ اور ’’ پاکستانی‘‘ کے مترادف ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہندتوا اور غیر ہندتوا کی خود ساختہ نظریات کے درمیان اس قطبی دوری کو بابری مسجد کی قطعہ اراضی کی دستبرداری سے کس حد تک کم کیا جا سکے گا؟؟ جس کا جواب یہ ہے کہ شری شری روی شنکر یہ ضمانت دے سکتے ہیں اور نہ ہی مولانا سید سلمان حسینی ندوی اسکے مجاز ہیں۔

واضح رہے کہ ہمارا ملک اصولی اعتبار سے دستور اور قانون کی بنیاد پر قائم ہے ، ا س لئے جمہوریت اور سیکولر روایت کی بقاء کیلئے ملک کے عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہی ہوگاکہ وہ جمہوریت اور سیکولر روایت کو دستور اور قانون کی بنیاد پر زندہ دیکھنا چاہتے ہیں؟ یا ہندتوا کے اس بلیک میلنگ کے عوض ایک اورغلامی کا طوق گلے میں ڈالنا؟؟ ممکن ہے مولانا سید سلمان حسینی ندوی کے خدشات درست ہوں، نیز سیرت نبوی کے حوالے سے صلح حدیبیہ یا مدینہ کے بیئر روما کے واقعہ سے اپنے موقف میں مزید وزن بھی پیدا کر سکتے ہیں ، تاہم مسلمانوں کے وسیع تر مفاد کی خاطر انہیں مسلم پرسنل لاء بورڈ کو اعتماد میں لے کر اپنی حکمت علمی ترتیب دینی چاہئے اور مخالف خیمہ میں یہ پیغام پہنچانا چاہئے کہ نظریاتی اختلافات کے باجود مسلمانان ہند متحد ہیں اور امن و شانتی کے اتنے ہی متلاشی ہیں جتنے دیگر برادران وطن۔