فکر و نظر

عاصمہ آپاان کی آواز بنیں جن کی آواز بننے کو کوئی تیار نہ تھا

عاصمہ جہانگیر کا پاکستانی فوج سے اختلاف شخصی یا جبلی نہیں تھا بلکہ مضبوط اصولوں پر استوار تھا۔وہ ایک ایسے پاکستان کی داعی تھیں جو وسیع المشرب اور متنوع  قومی ریاست ہو، یعنی ایک ایسا وفاق جس کی بنیاد جمہوریت پر استوار ہو۔

فوٹو: یواین

فوٹو: یواین

ایک روشن دماغ تھا،نہ رہا

شہر میں اک چراغ تھا، نہ رہا

1969 میں اسکول کی کچھ لڑکیاں مارشل لاء حکام کے خلاف احتجاج کرنے لاہور کی گورنر ہاؤس پر جمع ہوئیں۔ان میں سےایک دھان پان سی لڑکی اس مینشن کی دیوار پر چڑھ گئی اور اس پر احتجاج کا سیاہ پرچم لہرا دیا۔اس طالبہ کو اس کےاسکول، کانونٹ آف جیزز اینڈ میری نے اس وقت تو معطل کر دیا مگر آگے چل کر وہ لڑکی جبر کے خلاف ہرمحاذ پر جدوجہد ، بشری حقوق اور شہری آزادیوں  کے انتھک دفاع کانہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں استعارہ بن گئی۔وہ لڑکی عاصمہ جہانگیر تھی جو پاکستان کا ضمیر اور پنجاب کی وہ شیردل کارکن تھی جس نے انسانی حقوق کے کارکنوں، سیاسی ورکروں، وکلاء اور انسان دوستوں کی  دو نسلوں کو اپنے فکر و عمل سے متاثر کیا۔

عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی پارلیامان کے رکن تھے اور پاکستان کے فوجی حکمرانوں فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے۔ ان کا تعلق شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ سے تھا اور مجموعی طور پر سات سال قید میں رہے۔وہ اس وقت بھی قید میں تھے جس کے خلاف عاصمہ جہانگیر و دیگر طالبات احتجاج کر رہی تھیں۔ انہیں فروری یا مارچ 1969 کو رہا کیا گیا۔ ادھر شیخ مجیب کو بھی رہا کردیا گیا اور ایوب خان کی بلائی ہوئی ایک گول میز کانفرنس میں راولپنڈی آنے کی دعوت دی گئی۔ مگر شیخ مجیب راولپنڈی جانے سے پہلے لاہور پہنچے اور ملک غلام جیلانی کے ہاں قیام کیا اور لائحہ عمل طے کیا۔ اس سے تین سال پہلے شیخ مجیب نے ملک غلام جیلانی ہی کی قیام گاہ پر اپنے مشہور چھ نکات کا اعلان کیا تھا۔ گول میز کانفرنس لا حاصل رہی اور پایانِ کار جنرل یحییٰ خان نے اپنے پیش رو کو ہٹا کر ایک نیا مارشل لاء لگا دیا۔ ملک غلام جیلانی کو 22 دسمبر 1971 کو پہلے ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت گرفتار کر لیا گیا اور پھر مارشل لاء قوانین کے تحت قید رکھا گیا۔

عاصمہ جہانگیر نے اپنے والد کی غیر قانونی گرفتاری کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے خانوادے کے وکلاء دوستوں میاں محمود علی قصوری، منظور قادر اور محمد انور سے مشاورت کی ۔ انور صاحب نے درخواست دائر کرنے کی حامی بھری مگر کہا کہ اس میں عاصمہ جہانگیر کی والدہ کی مدد اور دستخط درکار ہوں گے۔ عاصمہ جہانگیر نے انہیں بتایا کہ والدہ تو صدمے کی کیفیت میں ہیں اور پٹیشن تو ان کو مل کر تیار کرنا ہوگی مگر وہ والدہ کے دستخط کروا لائیں گی۔ اس پر انور صاحب نے پوچھا کہ تمہاری عمر کیا ہے؟ اٹھارہ سال، عاصمہ جہانگیر نے جواب دیا۔ وکیل صاحب نے کہا بس تو پھر تم خود درخواست گزار بن سکتی ہو اور دستخط کر سکتی ہو۔

مقدمہ ہائی کورٹ میں سنا گیا اور خارج بھی کر دیا گیا مگر عاصمہ جہانگیر نے سپریم کورٹ میں میں اپیل دائر کی۔ اسی طرح کی ایک اور درخواست محترمہ زرین الطاف گوہر نے بھی داخل کر رکھی تھی۔ ان کے شوہر مشہور صحافی الطاف گوہر تھے جو ایوب خان کے حواری تھے اور اس پاداش میں اس وقت کے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقارعلی بھٹو نے ان کو قید کر رکھا تھا۔ عدالتِ عظمیٰ نے چیف جسٹس حمود الرحمٰن کی سربراہی میں ان دونوں درخواستوں کی شنوائی ایک ساتھ کی اور اپنا تاریخی فیصلہ دیا جو مس عاصمہ جیلانی بنام حکومتِ پنجاب و مرکز کے نام سے آج تک مشہور ہے۔ سپریم کورٹ نے نہ صرف مارشل لاء کو ناجائز اور غیر قانونی ٹھہرایا بلکہ جنرل یحییٰ خان کوغاصب بھی قرار دیا-

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ “ جیسے ہی موقع ملے اور غاصب کے ہاتھ سے ظلم کے ہتھیار گر پڑیں تو اس پر شدید غداری کا مقدمہ قائم کرکے قرار واقعی سزا دی جاۓ کیونکہ یہی ایک طریقہ ہے جو آئیندہ طالع آزماؤں کو باز رکھ سکے گا”۔ عاصمہ جیلانی کیس کی بنیاد پر پاکستان کے پہلے جمہوری اور متفقہ آئین میں شق نمبر چھ شامل کی گئی جوآئین سے بغاوت اور غداری سے متعلق ہے اور اس کے زمرے میں گزشتہ بغاوتیں اور آئین شکنی بھی آتے ہیں۔ گو کہ یحییٰ خان اس فیصلے سے پہلے اقتدار کھو چکا تھا مگر پھر بھی آئین کی بالادستی کے لیے ایسی بے مثال جدوجہد کی بدولت وہ پانچ فِٹ دو انچ قامت کی لڑکی بڑے بڑے جغادری قانونی اور آئینی ماہرین سے میلوں بلند نظر آتی رہے گی۔

عاصمہ جہانگیر نے پنجاب یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری لی اور  پھر پریکٹس کرتی رہیں کہ اس اثناء میں پاکستان کا تیسرا اور شاید سب سے خوفناک مارشل لاء لگ گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تخت الٹ کر ایک بدترین فوجی آمریت مسلط کردی۔  چونکہ یہ مارشل لاء اسلام ازم کا لبادہ بھی اوڑھے ہوۓ تھا لہٰذا اس کی مسمویتبھی دوچند تھی۔ ضیاء الحق کے خلاف تحریک بحالٸ جمہوریت  یا موومنٹ فار دی ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی یعنی ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے شروع ہوئی۔ ایم آر ڈی کے صفِ اوّل کے قائدین کو بار بار جیلوں میں قید اور گھروں پر نظربند کیا جاتا رہا۔ ایسے میں قیادت کا ایک دوسرا پرت ابھرا جو وکلاء، دانشوروں، صحافیوں اور طلباء پر مشتمل تھا۔عدالتوں کے بار روم ضیاء کے خلاف جدوجہد کو منظم کرنے کے مراکز بنے۔ عاصمہ جہانگیر ایم آر ڈی کے کارکنوں اور وکلاء کے ہمراہ سڑکوں پر جدوجہد کرتی نظر آئیں پھر انہیں بھی قید کردیا گیا۔

ضیاء الحق کے مسلط کردہ قوانین میں مسموم و مذموم ترین شاید حدود آرڈیننس1979  تھا، جو زنا، ریپ، ماوراۓ زوجیت جنسی تعلقات سے متعلق تھا۔ اس متعفن قانون نے جنسی زیادتی کی شکار خواتین کے لیے انصاف کا حصول ناممکن بنا دیا کیونکہ اس قانون کے تحت زیادتی ثابت کرنے کی ذمہ داری مجروح خاتون پر ڈال دی گئی تھی اور ایسا نہکرسکنے کی صورت میں وہ جنسی بے راہروی یا قذف کی مرتکب قرار پاتی۔  عاصمہ جہانگیر نے اس کالے قانون، جس میں رجم اور ہاتھ کاٹنے جیسی بہیمانہ سزائیں بھی تھیں، کے خلاف آواز اٹھائی اور اس کی پرزور مذمت اور مخالفت کی۔

Asma Jahangir. Credit: YouTube

فوٹو : یو ٹیوب

ضیاء الحق کا ایک اور زہریلا قانون  بلاسفیمی لاء یا توہین رسالت کا قانون تھا جس کے تحت شعائر اسلام یا  پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی یا سب و شتم کرنے کی سزا تجویز کی گئی تھی۔ عاصم جہانگیر نے اس دنیاوی فوجی قانون کی بھی ڈٹ کر مخالفت کی۔ انہوں نے خود بتایا کہ اس قانون پر ایک سیمینار میں وہ خطاب کر رہی تھیں اور وفاقی  شریعتکورٹ کے چیف جسٹس بھی وہاں تھے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ پیغمبر اسلام  اُمّی تھے، جو کہ ایک معروف اسلامی خیال ہے۔ ایک شخص نے اٹھ کر الزام لگا دیا کہ انہوں نے نبی اسلام کو جاہل کہا ہے اور توہین رسالت کی مرتکب ہوئی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے اُمّی اور جاہل کے فرق کی وضاحت بھی کی مگر ضیاء الحق کی پالتو پارلیمنٹ نے عاصمہجہانگیر کے خلاف قرارداد منظور کر کے موت کی سزا مانگی۔ اس وقت تک اس قانون میں موت کی سزا نہ تھی۔ ضیاء الحق نے تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا مگر عاصمہ جہانگیر نے اس کو رد کردیا۔ حسنِ اتفاق سے عاصمہ جہانگیر کی ایک ساتھی نے اس سیمینار کی ٹیپ رکارڈنگ کی ہوئی تھی۔ وہ جیسی ہی منظرِ عام پر آئی عاصمہ کی بیگناہی اور مخالفینکی بدطینتی ظاہر ہو گئی۔ ضیاء الحق نے بہرحال قانون میں ترمیم کر کے اس میں موت کی سزا داخل کردی۔

1993 میں ایک بارہ سالہ کرسچیئن بچے سلامت مسیح پر الزام لگایا گیا کہ اس نے رتہ دھوتراں گاؤں کی مسج کی دیوار پر گستاخ رسول کلمات لکھے یا تصاویر بنائی ہیں۔ بچے اور دو مسیحی مردوں کو قید کردیا گیا۔ تین گاؤں والوں کی گواہی پر ان کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ اس فیصلے اور عدالتی کاروائی نے انصاف اور عقل سلیم دونوں کی دھجیاںاڑا دیں۔ ہوا یوں کہ مسجد کی دیوار فی الفور دھو دھا دی گئی اور مبینہ گستاخ کلمات سواۓ تین دعویداروں  کے کسی نے نہ دیکھے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا لکھا تھا تو انہوں نے یہ کہہ کر بتانے سے انکار کر دیا کہ کفر کو دہرانا بھی کفر ہے۔ عدالت نے ان کے اس بیہودہ اور لغو استدلال کو مان کر تین مسیحیوں کو موت کی سزا سنا دی۔ ان میںسے ایک مسیحی آدمی کو عدالت کے باہر قتل کردیا گیا۔ عاصمہ جہانگیر نے سلامت مسیح، جو اس وقت چودہ سال کا ہو چکا تھا، کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی۔ بالآخر لاہور ہائی کورٹ کے جج عارف اقبال بھٹی نے سلامت مسیح کو بری کردیا۔ سلامت کو جلد جرمنی میں پناہ مل گئی مگر جسٹس عارف بھٹی کو ان کے دفتر میں قتل کردیا گیا۔عاصمہ جہانگیر پر ہر قسم کا دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ایسے  مقدمات کی پیروی سے باز آجائیں مگر وہ ڈٹی رہیں۔ ایسے سینکڑوں مقدموں میں وہ ان ذلتوں کے مارے لوگوں کی داد رسی کو آئیں جنہیں زمانہ اپنی ایڑی تلے کچلنا چاہتا تھا۔ غلامی میں پستےبھٹہ خشت مزدور ہوں یا وہ لڑکیاں جن پر ان کے اپنے اعزاء نام نہاد غیرت کےنام پر ظلم کرتے ہیں، عاصمہجہانگیر نے ان کی خبر گیری بھی کی اور ڈنکے کی چوٹ پر ان کی وکالت بھی۔

گو کہ عاصمہ جہانگیر نے اپنی بہن حنا جیلانی، گل رخ اور شہلا ضیاء کے ساتھ مل کر 1987 میں پاکستان کی پہلی خواتین وکلاء فرم  قائم کی۔ وہ ضیاء الحق کے بدنامِ زمانہ قانون جس میں عورت کی گواہی آدھی مانی جاتی ہے کے خلاف بھی جدوجہد کرتی رہیں۔ وہ وومین ایکشن فورم کے فعالین میں سے تھیں مگر ان کا عندیہ ہمیشہ یہ تھا کہ خواتین کےحقوق  انسانی حقوق ہیں اور اس جُز کو کُل سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ انیس سو ستاسی میں ہی عاصمہ جہانگیر نے اپنے مربی و مشفق، مشہور لبرل جج جسٹس دوران پٹیل کے ساتھ مل کر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ( ایچ آر سی پی) کی داغ بیل ڈالی۔  ایچ آر سی پی نہ صرف ان کا طرۂ امتیاز بن گیا بلکہ پاکستان میں انسانی حقوق اور شخصیآزادیوں کا سب سے بڑا داعی بھی۔ مرکزی سیکریٹریٹ، صوبائی شاخوں اور متفرق خصوصی ٹاسک کمیٹیوں کے ذریعے ایچ آر سی پی نے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا باقاعدہ اندراج کیا، بشری حقوق اور انفرادی اور شہری آزادیوں کی علمبرداری کی اور سب سے بڑھ کر ان مظلوموں کی آواز بنا جن کی نہ آواز تھی نہ شنوائی۔

Asma Jahangir (1952-2018). Credit: UN Geneva/ Flickr (CC BY-NC-ND 2.0)

فوٹو: یو این

میں سولہ برس کا تھا جب میں پشاور کے ڈینز ہوٹل میں عاصمہ جہانگیر سے ملا جہاں وہ بائیں بازو کے دانشور اور کہنہ مشق صحافی آئی اے رحمٰن کے ساتھ ایچ آر سی پی کی صوبائی تنظیمی میٹنگ میں آئی ہوئیں تھیں۔ جب کارِ منصبی ختم ہوا تو کچھ چنیدہ ساتھی عاصمہ جہانگیر اور رحمٰن صاحب کے ساتھ غیر رسمی شخصی نشست کے لیے ان کےکمرے میں چلے گۓ۔ میں واقعتاً عاصمہ جہانگیر کے قدموں میں بیٹھا ان کو سنتا اور ان سے سیکھتا رہا۔ اس بعد سے وہ میرے لیے عاصمہ آپا تھیں، ایک استاد اور کامریڈ جن کی جانب میں رہنمائی اور انسپیریشن کے لیے دیکھتا تھا۔ یہ میٹنگز  تواتر سے ہوتی تھیں اور بعد کی مجلس تو ایک سٹڈی سرکل یا علمی حلقے کا رنگ اختیار کر لیتی۔ عاصمہ جہانگیر،رحمٰن صاحب اور مشہور صحافی مرحوم عزیز صدیقی جو ایچ آر سی پی کے سربراہ بھی رہے، سیاست، پالیسی، اور بالخصوص تحریکی فعالیت کی حکمتِ عملی اور داؤ بیچ کے رموز کمال شفقت سے بیان کرتے چلے جاتے۔

عاصمہ جہانگیر ہمیشہ کہا کرتیں کہ کارکن کو اپنی اقدار کی طاقت سے متحرک ہونا چاہیے، اس کے لیے جی داری بھی ضروری ہے اور ایک سوچنے والا دماغ بھی۔ وہ فعالیت کے لیے تنظیم اور آپسی رابطوں پر بہت زور دیتی تھیں۔چند سال بعد ایک تعلیمی معاملے میں میرا اور میرے ساتھی میڈیکل سٹوڈنٹس کا پشاور یونیورسٹی سے تنازعہ ہوگیا۔ یونیورسٹینے زبردستی کرنی چاہی مگر ہم بھی کچھ سرد و گرم چشیدہ ہو چکے تھے۔ ہم نے یونیورسٹی پر پشاور ہائی کورٹ میں مقدمہ کر دیا۔ فیصلہ نہ صرف ہمارے حق میں آیا بلکہ چیف جسٹس نے اسے رپورٹ بھی کروایا۔ یونیورسٹی حکام نے منغض ہو کر ہمارے خلاف سپریم کورٹ میں وکلاء کی فوج کے ذریعے اپنی پوری طاقت کے ساتھ اپیل کردی۔ میں سیدھالاہور گیا اور عاصمہ جہانگیر سے کُل معاملہ بیان کیا۔ انہوں نے چشم زدن میں ہمارا، یعنی چند کنگلے طلباء،  کا مقدمہ لڑنے کی حامی بھر اور بھی بغیر فیس لیے۔ دو اور بلند پایہ وکلاء عابد حسن منٹو اور مرحوم کے ایم اے صمدانی نے بھی ہماری پیروی پر آمادگی ظاہر کی۔ لطف کی بات یہ کہ اس کے بعد یونیورسٹی ہر بار عدالت سے التواء کا تقاضا کرتیرہی۔ خدا جانے ان باوقار، باصفا ناموں سے گھبرا گئی شاید۔

عاصمہ جہانگیر میرے لیے اخلاقی قطب نما تھیں، ا ایک کسوٹی جس پر میں کسی بھی سیاسی و سماجی معاملے کو پرکھ سکتا تھا۔ اگر کبھی ذہن میں الجھاؤ ہوا تو فقط اتنا دیکھ لینا کافی ہوتا تھا کہ عاصمہ جہانگیر اس مسئلہ پر کہاں کھڑی ہیں کہ جہاں وہ ہوتیں  وہی مقام درست ہوتا۔ پچھلے بتیس سالوں میں میری نظر سے کوئی ایسا سیاسی، سماجی یا قانونیمسئلہ نہیں گزرا جس پر عاصمہ جہانگیر کی پوزیشن اور استدلال غلط ہو۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ چند مرتبہ جب ہمارے دوسرے رہنماء اور اساتذہ اجتہادی غلطیاں کر بیٹھے، عاصمہ جہانگیر اس وقت بھی صحیح سمت میں جا رہی تھیں۔ ایک مرتبہ عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی نے پشاور کی ایک نوجوان خاتون سامیہ سرور ، جو کالج میں میری جونیئر رہچکی تھی، کا کیس لیا۔ واقعہ یوں تھا کہ سامیہ کے والدین نے اس کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کردی تھی اور وہ اس سلسلے میں عاصمہ جہانگیر کی مدد چاہتی تھی۔ لڑکی کے والد متمول بزنس مین تھے اور والدہ ہمارے علاقے کی ڈاکٹر تھیں۔ انہوں نے عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی کے خلاف قانونی، صحافتی اور سیاسی زعماء کو متحرک کیا۔ باتپاکستان کے سینٹ تک پہنچی جہاں ہمارے مشفق اور محترم بائیں بازو کے قائد و دانشور اجمل خٹک مرحوم نے بھی لڑکی کے والدین کی نام نہاد غیرت کی تھیوری مان لی۔ مگر عاصمہ جہانگیر لڑکی کی قانونی پیروی سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹیں۔ سامیہ کی والدہ نے اپنی بیٹی سے ملاقات کی اجازت مانگی اور اپنے ہمراہ اپنے ایک گارڈ کو لے کر آئیں جسنے سامیہ کو عاصمہ جہانگیر دفتر کے اندر قتل کردیا۔ عاصمہ جہانگیر ہمارے سماج کے ایسے بہیمانہ رویے کے خلاف برسر پیشکار رہی جو رواج کے نام پر اپنی اولاد کو خون میں نہلانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

گو کہ عاصمہ جہانگیر نے کبھی باقاعدہ سیاست نہیں کی مگر ان کی سیاسی بصارت 20/20  اور بصیرت سیاستدانوں کے لیے بھی قابلِ رشک تھی۔ جب جنرل پرویز مشرف نے پاکستان پر چوتھا مارشل لاء مسلط کیا تو عاصمہ جہانگیر ان معدودے چند لوگوں میں سے تھیں جنہوں نے اس کی فوراً مخالفت و مذمت کی۔ کئی سیاسی قائدین، سماجی دھڑے بلکہبعضے بائیں بازو کے لوگ بھی مشرف کی آئین شکن بغاوت کو ایک لبرل جنرل کا انقلاب سمجھ رہے تھے۔ عاصمہ جہانگیر نے ببانگ دہل کہا کہ کتے پالنے اور الکحکل کا شوق رکھنے سے کوئی لبرل نہیں ہوجاتا۔ لبرل ازم سیاسی اور شخصی آزادیوں اور اقدار کا نام ہے جن سے مشرف کا دور دور تک واسطہ نہ تھا۔

عاصمہ جہانگیر کا پاکستانی فوج سے اختلاف شخصی یا جبلی نہیں تھا بلکہ مضبوط اصولوں پر استوار تھا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانے سے لے کر آج تک فوج پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست بنانا چاہتی ہے جس کی ماوراء النسلی بنیاد آرمی کے وضع کردہ اسلامی نظریات، ہندوستان دشمنی اور جنگویئت پر ہو اور جہاں حقِ حکمرانی عوام کے ووٹوںکی بجاۓ فوج کی پسند و ناپسند پر مبنی ہو کہ جب جی چاہا مارشل لاء لگا دیا اور جب پسند ہوا تو پس پردہ حکومت کی-

اس کے برعکس عاصمہ جہانگیر ایک ایسے پاکستان کی داعی تھیں جو وسیع المشرب اور متنوع  قومی ریاست ہو، یعنی ایک ایسا وفاق جس کی بنیاد جمہوریت پر استوار ہو۔ ایسا نہ تھا کہ وہ بعضے سیاستدانوں کی خامیوں سے آگاہ نہ تھیں اور نہ انہوں نے ایسی کسی چیز کی پردہ پوشی تھی۔ ان کا نظریہ یہی تھا کہ جمہوریت کے بگاڑ مزید جمہوریت لانے سےسنورتے نہ کہ نت نئی آمریتیں مسلط کر کے۔ وہ پنجاب سے تعلق رکھتی تھیں مگر بلوچ، پشتون، سندھی اور کشمیری سب کے حقوق کے لیے سدِ سکندی کی طرح کھڑی رہیں۔ وہ صحیح معنوں میں آفاقیت کی پرچارک تھیں اور بطور انٹرنیشنلسٹ سرحدوں وغیرہ کو خاطر میں نہ لاتی تھیں۔ ان کا عقیدہ انسان دوستی تھا اور اس کی جستجو انہوں بے مثال لگناور لازوال جرات سے کی۔

عاصمہ جہانگیر کی جدوجہد تو جاری رکھنا ہی ہو گی مگر گو کہ موت برحق ہے، ابھی تک یقین نہیں آتا کہ وہ چل بسیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی  وجود کا ایک بہت بڑا ٹکڑا جدا ہو گیا۔ الوداع عاصمہ آپا، “آپ کے چہرے پر مجھے  عزت، سچائی اور وفا کا نقشہ نظر آتا ہے”-

بقول ساحر:

نہ منہ چھپا کے جئے ہم نہ سر جھکا کے جئے

ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے

اب ایک رات اگر کم جئے تو کم ہی سہی

یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جئے

(محمد تقی پاکستانی امریکن کالم نگار ہیں ، @mazdaki ان کا ٹوئٹر ہینڈل ہے۔)