خبریں

نجی اسکولوں میں تعلیم کا خرچ بچوں کے اسکول چھوڑنے کی وجہ:اسٹڈی 

نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کا یہ مطالعہ دہلی کے 650 اسکولوں کے ذریعے اسکولی تعلیم بیچ میں چھوڑنے والے بچوں کے بارےمیں دئے گئے سالانہ اعداد و شمار پر مبنی ہے۔

Photo: Reuters

Photo: Reuters

نئی دہلی :نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کے ایک مطالعے میں یہ کہا گیا ہے کہ انگریزی میں بات چیت، نصاب سے الگ ایڈیشنل سرگرمیوں میں اور تعلیم پر بےتحاشہ خرچ، ایسی  اہم وجہیں ہیں جن کے سبب دہلی کے نجی اسکولوں میں پڑھنے والے اقتصادی طور پر کمزور طبقہ اور محروم کمیونیٹی کے طالب علم اپنی تعلیم بیچ میں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔

دہلی کے نجی اسکولوں میں محروم طبقوں کے  بچوںکے داخلہ سے متعلق تعلیم کا حق قانون (آر ٹی ای)، 2009 کی دفعہ 12 (1) (سی) کی عمل آوری پر مطالعے میں یہ بھی پایا گیا کہ 2011 میں اسکول کی تعلیم بیچ میں چھوڑنے والے طالب علم تقریباً26 فیصد تھے، جو سال 2014 میں گر‌کر 10 فیصد ہوا تھا۔

آر ٹی ای قانون کی دفعہ 12 (1) (سی) کمزور اور محروم طبقوں کے بچّوں کے لئے مفت اور ضروری تعلیم کے لئے نجی غیرامدادی اسکولوں کی جوابدہی طے کرتی ہے۔اس کے مطابق ایسے اسکولوں کوکلاس ایک یا پری اسکول کی تعلیم میں طلباء کی کل اہلیتکے کم سے کم ایک چوتھائی حصے میں ایسے طبقے کے طالب علموں کو داخلہ دینا ہوتا ہے۔

این سی پی سی آرکے ذریعے کئے گئے مطالعے کے مطابق، بالخصوص ابتدائی درجہ یعنی ابتدائی اور ماقبل ابتدائی سطح کی کلاس میں اسکولی تعلیم بیچ میں چھوڑنے والے طالب علموں کا فیصد ابتدائی سطح پر زیادہ ہوتا ہے۔ہندوستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اس  ادارہ کا یہ مطالعہ پوری ہلی کے 650 اسکولوں کے ذریعے اسکولی تعلیم بیچ میں چھوڑنے والے بچّوں کے بارے میں دئے گئے سالانہ اعداد و شمار پر مبنی تھا۔

مطالعے میں کہا گیا، ‘ سرپرستوں کا دعویٰ ہے کہ کتابیں اور نصاب سے الگ سرگرمیوں کا خرچ بہت زیادہ ہوتا ہے جس کے سبب وہ اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔  ‘این ڈی ٹی وی کے مطابق، ایک سرپرست نے کہا، ‘ میں ہر سہ ماہی 3100 روپے اپنے بیٹے کے لئے دیتا ہوں۔  اس کے علاوہ 12000 کتابوں پر اور یونیفارم کا الگ خرچ ہوتا ہے۔  اسکول اگر پکنک لے جائے، تو اس کا بھی الگ سے دینا پڑتا ہے۔  ‘

 این سی پی سی آر نے یہ بھی مشورہ دیا کہ جہاں تک ممکن ہو بچّوں کو پڑھانے کا ذریعہ ان کی مادری زبان ہونی چاہیے۔