خبریں

سہراب لدین معاملہ : ریٹائر جج کا ملزمین کی رہائی پر سوال، کہا؛دوبارہ جانچ ہو

ہائی پروفائل ملزمین کی رہائی، ضمانت اور گواہوں پر دباؤ ہونے جیسے کئی سوال اٹھاتے ہوئے ممبئی ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ابھے ایم تھپسے نے اس معاملے کو عدلیہ کی ناکامی کہا ہے۔

فوٹو:الہ آبادہائی کورٹ /فائل

فوٹو:الہ آبادہائی کورٹ /فائل

نئی دہلی :ممبئی ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ابھے ایم تھپسے نے گجرات کے مشہور سہراب الدّین شیخ انکاؤنٹر معاملے سے جڑے ہائی پروفائل ملزمین کی رہائی، ججوں کے تبادلے اور گڑبڑیوں پر کئی سنگین سوال اٹھائے ہیں۔روزنامہ انڈین ایکسپریس  سے ہوئی بات چیت میں تھپسے نے کہا کہ معاملے میں کئی طرح کی گڑبڑی ہیں، جس سے لگتا ہے کہ معاملے کے گواہ دباؤ میں ہیں۔

تھپسے نے بھی ممبئی ہائی کورٹ میں اس معاملے سے جڑی 4 ضمانت عرضی پر سماعت کی تھی۔  تھپسے نے کہا کہ ہائی کورٹ کو خود جانکاری لےکر معاملے کی دوبارہ سماعت کرنی چاہیے۔  انہوں نے کہا کہ معاملے کے ایسے کئی پہلو ہیں جو عام سمجھ‌کے الٹ ہے۔ تھپسے نے کہا، ‘ آپ یہ مانتے ہیں کہ اس کا (سہراب الدّین) اغوا ہوا تھا۔  آپ یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ فرضی انکاؤنٹر تھا۔  آپ کو اس بات پر بھی اعتماد ہے کہ اس کو غیرقانونی طریقے سے فارم ہاؤس میں رکھا گیا تھا۔  پر آپ یہ نہیں مانتے کہ اس میں ونجارا (اس وقت کے ڈی آئی جی، گجرات)، دنیش ایم این (اس وقت کے ایس پی، راجستھان) یا راج کمار پانڈین (اس وقت کے ایس پی، گجرات) شامل تھے۔  کسی کانسٹیبل یا انسپکٹر سطح کےپولیس اہلکار کے سہراب الدّین سے کوئی رابطہ کیسے ہو سکتا ہے؟  آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک سب انسپکٹر سہراب الدّین کو حیدر آباد سے اٹھا کر دوسری ریاست میں لے آیا؟  وہیں اسی بنیاد پر آپ کہتے ہیں کہ دونوں ایس پی (پانڈین، دنیش) کے خلاف کوئی معاملہ نہیں بنتا۔  تو شک اس بات سے پیدا ہوتا ہے کہ سینئر افسروں سے الگ رویہ رکھا گیا۔  ‘

انہوں نے کہا کہ ان احکام کی مناسب منچ پر تجزیہ کئے جانے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی ہائی کورٹ کو بھی اس پر توجہ دینی چاہیے۔معلوم ہو کہ اس معاملے میں گجرات کے اس وقت کے وزیر داخلہ امت شاہ، راجستھان کے وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریہ، گجرات اور راجستھان پولیس کے کئی اعلیٰ افسروں سمیت 38 ملزم تھے، جن میں سے 15 کو بری کیا جا چکا ہے۔

وہیں نومبر 2017 سے سی بی آئی کی خصوصی عدالت میں چل رہی سماعت میں ابتک 30 گواہ اپنے بیان سے پلٹچکے ہیں۔جسٹس تھپسے نے کہا کہ خبروں میں گواہوں کے بیان سے پلٹنے کے بارے میں پڑھنے کے بعد انہوں نے اس بارے میں بولنا ضروری سمجھا۔  انہوں نے کہا، ‘ اس معاملے کی سنجیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔  جب میں نے اس مقدمہ میں دئے گئے رہائی کے حکم پڑھے، اس میں بہت سے ایسے پہلو ہیں جو غیرفطری دکھتے ہیں۔  ‘

جسٹس تھپسے نے ممبئی ہائی کورٹ میں معاملے سے منسلک 4 ضمانت عرضی پر سماعت کی تھی، انہوں نے ڈی جی ونجارا، مکیش پرمار (ڈپٹی ایس پی، گجرات اے ٹی ایس) این کے امین (ڈپٹی ایس پی، گجرات کرائم برانچ) اور بی آر چوبے (سب انسپکٹر، گجرات پولیس) کی ضمانت عرضی پر سماعت کی تھی، جہاں انہوں نے ونجارا اور امین کی عرضی منظور کرتے ہوئے باقی دونوں عرضیاں خارج کر دی تھیں۔

جسٹس تھپسے کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر ان کا دھیان سی بی آئی کے خصوصی جج بی ایچ لویا کی موت سے جڑی رپورٹ میڈیا میں آنے کے بعد بھی گیا۔  حالانکہ انہوں نے جج لویا کی موت پر تبصرہ کرنے سے منع کیا، لیکن انہوں نے کہا کہ جج لویا کے کال رکارڈس کی تفتیش ہونی چاہیے۔

انہوں نے سی بی آئی اسپیشل کورٹ میں یہ معاملہ سن رہے ججوں کے جلدبازی میں ہوئے تبادلے پر بھی سوال اٹھایا۔جسٹس تھپسے کے مطابق، لویا 2011 سے ایڈیشنل سیشن جج تھے، جن کو فروری 2014 میں ممبئی ہائی کورٹ میں جیوڈیشیل رجسٹرار مقرر کیا گیا تھا۔  چار مہینوں کے اندر ان کا تبادلہ پھر سیشن کورٹ میں ہوا اور ان کو سہراب الدّین معاملے میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت کا جج مقرر کر دیا گیا۔

جسٹس تھپسے کا کہنا ہے کہ یہ بہت چھوٹا وقت تھا۔  ‘ اگر رجسٹری میں کسی شخص کی تقرری ہوتی ہے، تب آپ اس کو اتنے کم وقت میں واپس نہیں بھیجتے ہیں۔  یہ غیرمعمولی ہے۔  اس کے پہلے جج جےٹی اتپت کا تبادلہ بھی اچانک ہوا تھا۔  اچانک اس لئے کیونکہ اگر کوئی غیرمعمولی صورت حال نہیں  تو تین سال سے پہلے ٹرانسفر نہیں ہوتے۔  اتپت کا 3 سال کی مدت پوری  نہیں ہوئی  تھی۔  ‘

جسٹس تھپسے نے بیتے نومبر میں سی بی آئی کورٹ کے ذریعے معاملے کے میڈیا رپورٹنگ پر لگائی گئی پابندی پر بھی سوال کیا۔  حالانکہ سی بی آئی کورٹ کے ذریعے میڈیا رپورٹنگ پر روک کے حکم کو ہائی کورٹ نے خارج کر دیا تھا۔جسٹس تھپسے نے کہا، عام طور پر ملزم عوام کی نظروں کے سامنے رہنا چاہتا ہے۔  ‘ اوپن ٹرائل ملزم کے لئے سب سے محفوظ ہوتے ہیں لیکن یہاں ملزم نے کورٹ سے کہا کہ میڈیا کو سماعت کے بارے میں رپورٹ کرنے سے روکا جائے۔  ٹرائل کورٹ نے یہ حکم بھی دے دیا، جس کو بعد میں ہائی کورٹ کے ذریعے منسوخ کر دیا گیا۔  سوال یہ ہے کہ جب عوام کو پتا ہی نہیں ہے کہ کورٹ میں کیا ہوا تو ملزم کیسے محفوظ محسوس‌کر سکتا ہے؟  میرے حساب سے یہ چونکانے والا ہے۔  ‘

جسٹس تھپسے مارچ 2017 میں الہ آباد ہائی کورٹ سے ریٹائر ہوئے تھے۔  یہ پہلی بار ہے کہ جب انہوں نے عوامی طور پر سہراب الدّین معاملے پر کوئی تبصرہ کیا ہے۔