خبریں

اپرکاسٹ کے مقابلے میں تقریباً 14 سال کم جیتی ہیں دلت عورتیں:رپورٹ 

اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ملک میں دلت عورتوں کے لئے موت کا خطرہ مناسب صاف صفائی، پانی کی کمی اور صحت کی مناسب خدمات کے فقدان میں بڑھ جاتا ہے۔

علامتی فوٹو:رائٹرس

علامتی فوٹو:رائٹرس

نئی دہلی :ملک میں مردوں کی مقابلے میں خواتین کو ہرجگہ زیادہ امتیاز ی سلوک کا سامناکرنا پڑتا ہے، چاہے بات سماجی حقوق کی ہو یا تنخواہ کی، خواتین زیادہ تر مردوں کے پیچھے ہی نظر آتی ہیں۔  اب اقوام متحدہ (یو این) کی ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ خواتین کے ساتھ ہونے والا امتیاز ی سلوک صرف جنسی نہیں ہے، بلکہ ذات اور اقتصادی حیثیت پر بھی مبنی ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق ٹرننگ پرامیسیس ان ٹو ایکشن ،جینڈر ایکوالٹی ان دی 2030 ایجنڈا نام کی اس رپورٹ کے مطابق ایک اپرکاسٹ  عورت کے مقابلے میں ایک دلت خاتون تقریبا 14.6 سال کم زندہ رہتی ہے۔  انڈین انسٹی ٹیوٹ آف دلت اسٹڈیز کے 2013 کے ایک ریسرچ کا حوالہ دیتے ہوئے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہاں ایک اپر کاسٹ عورت  کی اوسط عمر 54.1 سال ہے، وہیں ایک دلت خاتون اوسطاً 39.5 سال ہی جیتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ دلت خواتین کو مناسب صاف صفائی نہ ملنا، پانی کی کمی اور مناسب صحت خدمات کی کمی ہے۔رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ دلت خواتین کی موت کی عمر تب بھی کم ہے، جب شرح اموات سے جڑے ان کے تجربے اپر کاسٹ  خواتین جیسے ہی تھے۔  ‘ اگر سماجی حیثیت کے فرق کو بھی دیکھا جائے، تب بھی دلت اور اپرکاسٹ خاتون کی موت کے درمیان 5.48 سال کا فرق دکھتا ہے۔  ‘

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف دلت اسٹڈیز کے محققین نے پایا تھا کہ اگر اونچی ذات اور دلت خواتین کی صاف صفائی اور پینے کے پانی جیسے سماجی حالات ایک جیسےبھی ہیں، تب بھی اپرکاسٹ خواتین کے مقابلے میں دلت خواتین کی زندگی  میں تقریباً 11 سال کا فرق دکھتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘ سماج میں پچھڑنے والوں میں کئی بار وہ خواتین اور لڑکیاں ہوتی ہیں، جن کو  صنفی امتیاز یا کسی بھی وجہ سے نقصان  اٹھانا پڑتا ہے۔  ‘ رپورٹ کے مطابق جس کی وجہ سے ان کو نہ اچّھی تعلیم مل پاتی ہے، نہ مناسب کام اور نہ ہی مناسب صحت خدمات۔

رپورٹ کہتی ہے کہ عدم مساوات کی بڑھتی کھائی کے لئے اقتصادی حالت اور جگہ / ماحول جیسے پہلو بھی ذمہ دار ہیں۔  مثال کے لئے کسی دیہی گھر کی20-24 سال کی لڑکی کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہونے کا امکان شہر میں رہنے والی کے مقابلے میں 5 گنازیادہ ہوتا ہے۔  شہری ماحول کی خاتون کے مقابلے میں دیہی خاتون کی کم عمر میں ماں بننے، اپنے پیسے کا استعمال نہ کر سکنے یا خرچ کے بارے میں جانکاری نہ ہونے کے امکانات بھی کم ہی رہتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق خاتون کے غریب ہونے کا امکان تب اور بڑھ جاتا ہے اگر اس کے پاس کوئی زمین نہیں ہے اور وہ  درج فہرست ذات سے آتی ہے۔  اس کی کم تعلیم اور سماجی درجہ بندی میں اس کی حالت بھی یہ طے کرتی ہے کہ اگر وہ کہیں تنخواہ پر کام کرتی ہے تو وہاں بھی اس کو استحصال کا سامناکرنا ہوگا۔یواین کے ذریعے دو سال پہلے اپنائے گئے مسلسل ترقی کے اس ایجنڈا میں ‘  لیو نو ون  بی۔ہائنڈ ‘ کا نعرہ دیا گیا ہے، جس کی ترجیحات سماج کے سب سے زیادہ محروم کی ضروریات کو اٹھانا ہے۔