خبریں

دلت مظاہرین کی آواز کو دبایا نہیں جانا چاہیے : ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا

 ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے مطابق” حال کے سالوں میں تشدد اور جانبداری کو چیلنج دینے اور اپنے آئینی حقوق کو حاصل کرنے کے لئے جد وجہد کرنے والی دلت خواتین اور مردوں کی آوازوں کو بلندی سے سنا گیا ہے جس کا استقبال کرنا چاہئے۔  لیکن ان کے اٹھائے گئے مدعوں کو خطاب کرنے کے بجائے، حکومت نے یا تو تحریکوں کو دبانے کی کوشش کی ہے یا دلت مظاہرین پر حملہ  ہونے پر آنکھیں موند لی ۔

علامتی تصویر : پی ٹی آئی

علامتی تصویر : پی ٹی آئی

نئی دہلی :حقوق انسانی کی تنظیم  ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کا کہنا ہےکہ ریاستی حکومتوں کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ دلت مظاہرین کو، پُرامن طریقے سے جمع ہونے اور اظہاررائے کی آزادی کے ان کے حقوق سے، محروم نہیں کیا جائے ۔  تنظیم کی طرف سے آج جاری ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ریاستی پولیس کو صرف اپنےحقوق کے تحت  مظاہرہ کرنے کے لئے کسی کو گرفتارکرنے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے،بلکہ پر امن طریقے سے مظاہرہ کرنے والے دلتوں پر حملہ کرنے کے لئے ذمہ دار لوگوں کے خلاف عدالتی قدم اٹھانا چاہئے۔

واضح ہو کہ18 فروری کو دلت کارکن اور گجرات اسمبلی کے ممبر، جگنیش میوانی کو گجرات ریاستی پولیس نے دلتوں کی  زمین کے حقوق کے لیے  ایک احتجاج میں حصہ لینے سے روک دیا تھا۔ میڈیارپورٹس کے مطابق جگنیش  کو ان کی کار سے باہر کھینچ لیا گیا تھااور پولیس نے کئی گھنٹوں تک  حراست میں رکھاتھا۔ان کے بیان کے مطابق ان کی کار کی چابیاں بھی توڑ دیں تھیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی پروگرامس ڈائریکٹر اسمتا باسو کا کہنا ہے کہ، ” گجرات کے افسروں کا فرض ہے کہ وہ لاء اینڈ آرڈربنائے رکھیں، ساتھ ہی یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ پر امن دلت مظاہرین اپنی بات کا اظہار کر سکیں “۔محترمہ باسو کے مطابق” حال کے سالوں میں تشدد اور جانبداری کو چیلنج دینے اور اپنے آئینی حقوق کو حاصل کرنے کے لئے جد وجہد کرنے والی دلت خواتین اور مردوں کی آوازوں کو بلندی سے سنا گیا ہے جس کا استقبال کرنا چاہئے۔  لیکن ان کے اٹھائے گئے مدعوں کو خطاب کرنے کے بجائے، حکومت نے یا تو تحریکوں کو دبانے کی کوشش کی ہے یا دلت مظاہرین پر حملہ  ہونے پر آنکھیں موند لی ۔  “

غورطلب ہےکہ نومبر 2017 میں، اتّر پردیش پولیس نےدلت لیڈر چندرشیکھر آزاد ‘ راون ‘کو الٰہ آباد ہائی کورٹ  کے ذریعے ضمانت دئے جانے کے ایک ہی دن بعد پھر قومی سلامتی ایکٹ کے تحت انتظامی حراست میں لیا گیا تھا۔  واضح ہو کہ سہارن پور، اتّر پردیش میں، دو دلتوں کے قتل اور کم سے کم 50 دلت گھروں کو جلائے جانے کے بعد مظاہرہ کر رہے دلتوں اور دبنگ گروپوں کے درمیان ہوئے ٹکراؤ کے دوران فساد بھڑکانے سمیت دیگر جرائم کے لئے آزاد کو جون 2017 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

علاماتی تصویر : پی ٹی آئی

علاماتی تصویر : پی ٹی آئی

اسی طرح1 جنوری کو، بھیما کورےگاؤں، مہاراشٹر میں دلتوں پرمبینہ طور پر کٹّر ہندو گروپوں کے ممبروں نے حملہ کیا تھا۔  ان حملوں کی تفتیش کے لئے پونے پولیس کے ذریعے تشکیل شدہ دلت کارکنوں کی ایک کمیٹی کی قیادت پونے کے نائب چیئرمین نے کی تھی۔ان کے مطابق  پولیس کو پہلے سے ہی معلوم تھا کہ دلت مظاہرین پر حملہ کیا جائے گا،لیکن کوئی سخت قدم نہیں اٹھایا گیا۔پولیس نے کمیٹی کے نتائج کو خارج کر دیا ۔بھیما کورے گاؤں میں تشدد کے بعد مہاراشٹر میں کئی مظاہرے ہوئے جن میں سے میں کچھ میں تشدد بھی ہوئے ۔3جنوری کو نانڈیڑ میں پولیس  لاٹھی چارج کے دوران سولہ سالہ یوگیش جادھو کی موت ہوگئی۔اس کے والد کا کہنا ہے کہ اس کے سر پر مارا گیا تھا جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ بھاگنے کے دوران جادھو کو مظاہرین نے کچل دیا تھا۔

دریں اثناکانچہ الیا شیفرڈ کو ان کے لکھنے کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔دلتوں پر ہورہے حملے کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ لگتا نہیں ہے کہ ریاست ذات پات اورچھوا چھوت کو ختم کرنا چاہتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دلت مظاہرین کی بات سننے کے بجائے ان کو گرفتار کیا جاتا ہے اور ان کے حقوق سے ان کو محروم کیا جاتا ہے۔

  ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کا مزید کہنا ہے کہ امن کے ساتھ مظاہرہ کرنے والوں کو دبانے کے لیے اور دلتوں کو اپنے حقوق سے محروم کرنے کے لے ریاستی حکومتیں اپنی ہی عوام کی آنکھوں میں بے معنی ہوجاتی رہی ہیں۔افسروں کو اس کے بجائے ایک واضح پیغام بھیجنے کی ضرورت ہے کہ دلتوں کے خلاف امتیازی رویہ کو برداشت نہیں کیا جائے گا ۔