فکر و نظر

کیا ترنگا یاترائیں طاقت کے مظاہرے کا ذریعہ بنتی جا رہی ہیں؟ 

ملک کے جھنڈے کو بھی کیوں فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کیا جا رہا ہے؟  کیا ہم لڑتےلڑتے اتنے دور آ گئے ہیں کہ ملک کے پرچم کو بھی تقسیم کر دیں‌گے؟

فوٹو:ٹوئٹر/نظیرمسعودی

فوٹو:ٹوئٹر/نظیرمسعودی

کیا کبھی کسی نے یہ سوچا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے‌گا کہ ملک کی آن بان شان ترنگے پر سیاست ہونے لگے‌گی؟  ایک بدکار ملزم کی حمایت میں ترنگا لہرایا جائے‌گا؟  جس شخص نوین جندل نے ترنگے کو عام آدمی تک پہنچانے کی لمبی قانونی لڑائی لڑی، اس نے بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ عام آدمی تک ترنگا کے پہنچنے پر اس کا غلط استعمال ہونے لگے‌گا؟  عام آدمی کو ترنگا پھہرانے کی اجازت سات سال کی لمبی لڑائی ملنے کے بعد ملی تھی۔

سپریم کورٹ نے 23 جنوری 2004 کو فیصلہ دیا تھا کہ قومی پرچم پھہرانا ہر آدمی کا حق ہے۔  اس فیصلے کے بعد ترنگا ہر ہاتھ میں دکھائی دینے لگا۔  یوں تو بی جے پی اکثر ہی ترنگا یاترا نکالنے کے لئے جانی جاتی رہی ہے، لیکن جب 5 اپریل 2011 کو انا ہزارے نے جنتر منتر پر جن لوک پال بل کی مانگ کے لئے تحریک کی تھی، تب پہلی بار اس تحریک میں ترنگے کا جم کر استعمال کیا گیا تھا۔  یہ بھی کوئی چھپی بات نہیں ہے کہ انا تحریک میں جو ہجوم تھا، وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے لوگوں کا ہی تھا، اس لئے اس میں ترنگا لہرانا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔

انا آندولن  کی کوکھ سے عام آدمی پارٹی (عآپ) نکلی، جو بھاری اکثریت سے دہلی کےاقتدار پر قابض ہو گئی۔  تحریک کا فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی ملا تھا، جو بد عنوانی کو بڑا مدعا بنا کر 2014 میں مکمل اکثریت کے ساتھ مرکز کی اقتدار پر قابض ہو گئی۔  لیکن جس جن لوک پال بل کے لئے تحریک چلائی گئی تھی، وہ آج تک بیابان میں بھٹک رہا ہے۔  بلکہ اس کو بھلا دیا گیا ہے۔

اس کے بعد ہر تحریک میں ترنگا دکھائی دینے لگا۔  ترنگے کا غلط استعمال تب بھی کیا گیا، جب جے این یو میں مبینہ طور پر ہندوستان مخالف نعرے لگے۔  ان نعروں کی مخالفت میں تمام ہندوستانی طلبہ یونین نے کئی دن تک ترنگا یاترائیں نکالیں۔اس طرح ترنگے کو فرقہ وارانہ رنگ دینا شروع ہوا۔  ملک میں اچانک ترنگا یاتراؤں کا سیلاب آ گیا۔  حب الوطنی ثابت کرنے کے لئے اپنے گھروں، دفتروں اور گاڑیوں پر ترنگا لہرایا جانے لگا ہے۔  انتہا یہ ہے کہ مذہبی جلسے جلوسوں میں مذہبی جھنڈوں کے ساتھ ترنگا بھی لہرایا جا رہا ہے۔

ویڈیو:کاس گنج تشدد کے بعد کیسے ہیں شہر کے حالات ؟

پچھلے دو-تین سالوں میں کانوڑیاترا میں بھگوا پرچم کے ساتھ ترنگے بھی خوب لہرائے جا رہے ہیں۔  مذہبی جلوسوں میں ترنگا کیا کر رہا ہے، یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔  ہم یقین نہیں کر سکتے کہ جس ترنگے کو ہاتھ میں لےکر جنگِ آزادی کے سپاہی نے ملک کی آزادی کی لڑائی لڑی اور ہنستے-ہنستے پھانسی کے پھندے پر جھول گئے، ان کی روح کو شاید ہی کبھی یہ گوارا ہوگا کہ ترنگا کسی فرقہ وارانہ فساد کی وجہ بن جائے۔  خاص یومِ جمہوریہ کے موقع پر کاس گنج میں ترنگا یاترا کو لےکر جو فرقہ وارانہ تشدد ہوا، جس میں چندن نام کا ایک نوجوان مارا گیا، وہ بدقسمتی تھی۔

کاس گنج کے واقعہ کے کچھ دن بعد آگرہ میں کچھ تنظیموں ے ترنگا یاترا نکالنے کا اعلان کیا۔  انتظامیہ نے اس پر پابندی لگا دی۔ دو دن بعد ہی ایک مسلم تنظیم نے ترنگا یاترا نکالنے کا اعلان کیا تو اس کو بھی روک دیا گیا۔

تازہ واقعہ جموں کا ہے۔  یہاں پر ایک بچّی کے ساتھ ریپ ہوا، جو مسلم تھی۔  ایک ملزم پولیس اہلکار دیپک کھجوریا کو گرفتار کیا گیا۔  حیرت انگیز طور پر  بدکار کی حمایت میں ‘ ہندو ایکتا منچ ‘ نے ترنگا یاترا نکال‌کر ساری حدیں توڑ ڈالیں۔کیا کسی بدکاری کے ملزم کی حمایت میں ترنگا یاترا نکالنا ترنگے کی بے عزتی نہیں ہے؟  اگر ریپکی شکار لڑکی اور اس کے ساتھ زنابالجبر کرنے والا ایک ہی مذہب سے ہوتے تو کیا تب ملزم کی حمایت میں ترنگا یاترا نکالا جاتا؟  چونکہ لڑکی اور ملزم الگ الگ مذہب سے ہیں، تو اس کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا۔  ہو سکتا ہے ملزم بے گناہ ہو۔  لیکن گناہ اور بےگناہی تو عدالت میں ثابت ہوگی۔

لیکن جب وزیر اعظم نریندر مودی ہی ترنگا یاترا کو حمایت دیں تو کیا کیا جا سکتا ہے؟  مودی گزشتہ سال کہہ چکے ہیں کہ بی جے پی ملک بھر میں ترنگا یاترا منعقد کر رہی ہے اور یہ یاترائیں 2022 تک ‘ نیو انڈیا ‘ کے لئے کام کرنے کی سمت میں لوگوں کو جوڑ رہی ہیں۔  ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم کی نظر میں ترنگا یاترائیں ملک کو جوڑنے کا کام کر رہی ہوں، لیکن حقیقت میں یہ توڑنے کا کام کر رہی ہیں۔  یہ یوں ہی نہیں ہے کہ بی جے پی نے ترنگا کو بھگوا کے ساتھ جوڑ‌ کر اس کو ہندوواد کی سان پر چڑھا دیا ہے۔  اس کے ذریعے بی جے پی ملک میں پولرائزیشن کا کھیل کھیل رہی ہے۔یہ وزیر اعظم کی شہ کی وجہ ہے کہ بی جے پی کارکن ایک ریپ کے ملزم کی حمایت میں ترنگا یاترا نکالنے نکل پڑتے ہیں، لیکن وزیر اعظم کا تو دور، کسی بی جے پی رہنما تک کا بیان نہیں آتا کہ ایسا کرنا غلط ہے۔

کیا ترنگا یاترا طاقت کے مظاہرے کا ذریعہ بنتی جا رہی ہیں؟  اگر ایسا ہو رہا ہے، تو کیوں ہو رہا ہے؟  ملک کے پرچم کو بھی کیوں فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کیا جا رہا ہے؟  کیا ہم لڑتے-لڑتے اتنے دور آ گئے ہیں کہ ملک کے پرچم کو بھی تقسیم کر دیں‌گے؟  اس تقسیم کو ہلکے میں لےکر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔  یہ سنگین مسئلہ ہے۔فرقہ وارانہ بنیاد پر ہونے والے ترنگا یاتراؤں کا مقصد جاننا بہت ضروری ہے۔  ہندو فرقہ وارانہ تنظیموں کا ترنگا یاترا نکالنے کا ایک مقصد اپنے آپ کو سچّا محب وطن ثابت کرنے کا ہو سکتا ہے۔  مسلم جب ترنگا اٹھا کر چلتے ہیں، تو وہ بھی شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم بھی کم وطن پرست نہیں ہیں۔  لیکن کیا حب الوطنی ترنگا یاترانکالنے سے ثابت ہوگی؟

جب ترنگا یاترا لوگوں کو ڈرانے لگیں، ریپکے ملزم کی حمایت میں ترنگا یاترا نکالی جانے لگیں، ترنگا یاترا کے چلتے فرقہ وارانہ فساد ہو جائے تو کیا بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال نہیں آیا ہوگا کہ کیوں نہ پھر سے ترنگا کو عام آدمی کے ہاتھ سے واپس لے لیا جائے؟ترنگا کی اہمیت کم نہ ہو، اس کے لئے ضروری ہے کہ اس پر پھر سے خیال کیا جانا چاہیے کہ کیا ہم اس لائق ہو چکے ہیں کہ ترنگے کے وقار کو قائم رکھ سکیں؟  اس سوال سے بہت لوگ غیرمتفق ہو سکتے ہیں۔  لیکن ترنگا یاترا کی وجہ سے فرقہ وارانہ خیرسگالی اور قانونی نظام کو جو خطرہ پیدا ہو گیا ہے، اس سے کیسے نمٹا جائے؟  ترنگے کو نہ تو کسی سیاسی جماعت کے ہاتھوں کا کھلونہ بننے دیا جائے اور نہ ہی اس  مقصد پورا کرنے کا اوزار بننے دیا جائے۔  ترنگا کو ترنگا ہی رہنے دیا جانا چاہیے۔

(مضمون نگار دینک جن وانی میں سب ایڈیٹر ہیں۔)