فکر و نظر

پردھان منتری جی، عام لوگوں کی محنت کی کمائی سے کارپوریٹ لوٹ کی بھرپائی کب تک ہوتی رہے‌گی؟ 

پچھلی حکومتوں میں سسٹم کو اپنے فائدے کے لئے توڑ نے مروڑنے والے سرمایہ دار مودی حکومت میں بھی پھل پھول رہے ہیں۔

Photo: PTI

Photo: PTI

جب تک بدعنوان سرمایہ دار اپنے فائدے کے لئے سسٹم  اور ادارہ جاتی ڈھانچوں کا استحصال کرتے رہیں‌گے، تب تک وزیر اعظم کے ذاتی طور پر پاک صاف یا بدعنوانی کے الزامات سے آزاد ہونے سے اصل میں کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔  یہ کسی بھی طرح سے آدمی سے جڑا ہوا معاملہ ہے ہی نہیں۔اس بات کی اطلاع ہمیں تب ملی جب منموہن سنگھ کی حکومت میں سسٹم کی باہیں مروڑی جا رہی تھیں۔  ہم نریندر مودی کے زمانے  میں بھی اسی کی تکرار دیکھ رہے ہیں۔  وزیر اعظم نے ہیرا کاروباریوں-نیرو مودی اور میہل چوکسی کے ذریعے کئے گئے بینک گھوٹالے پر ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں کہا ہے۔

اگر اس بینک گھوٹالے کے ساتھ ان دونوں پر پنجاب نیشنل بینک اور دوسرے بینکوں کا بقایاخراب قرضوں کو بھی جوڑ دیا جائے، تو ان کی کمپنیوں پر 20000 کروڑ روپے کی دین داری بنتی ہے۔گھوٹالوں اور فرضی واڑوں کے معاملوں کے ایک کے بعد ایک متعین وقفے پر اجاگر ہونے سے سسٹم کی تمام بیماریوں کو دور کرنے کے وزیر اعظم کا بار بار کیا جانے والا دعویٰ کھوکھلا نظر آ رہا ہے۔وزیر اعظم مودی نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت نے رجسٹرار آف کمپنیز کے تحت   3 لاکھ سے زیادہ بےعمل اور شیل کمپنیوں کا رجسٹریشن منسوخ کر دیا ہے۔  لیکن معلوم پڑتا ہے کہ ان کمپنیوں میں  نیرو مودی اور چوکسی کی وہ 200 شیل کمپنیاں شامل نہیں تھی، سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹر کے مطابق، جن کا استعمال فرضی واڑا کرکے حاصل کئے گئے 11400 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرنے کے لئے کیا گیا۔

بینکنگ نظام کے اندر  نیرو مودی اور میہل چوکسی کی پہنچ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی کمپنیوں کے افسر آزادانہ طورپر پنجاب نیشنل بینک (پی این بی) کے ملازمین‎ کی لاگ ان جانکاریوں کا استعمال کرکے انٹرنیشنل انٹربینک فائنینشیل میسیجنگ سسٹم (SWIFT) کو چلا لیا کرتے تھے۔  یہ حقیقت حد درجے کی سانٹھ گانٹھ اور فرضی واڑےکی ایک حیران کر دینے والی کہانی کہتی ہے۔بینکوں کو نیا سرمایہ مہیّا کرائے جانے (ری کیپیٹلائزیشن) کے وقت وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے دعویٰ کیا تھا کہ بینکوں کو یہ نیا سرمایہ اندرونی اصلاحات اور بہتر انتظامیہ کو سختی سے اپنانے کی شرط پر دیا جا رہا ہے۔  لیکن اگر اس حقیقت کے آئینے میں دیکھیں کہ پی این بی کے ذریعے فرضی طریقے سے جاری کئے گئے زیادہ تر ایل او یو (لیٹرس آف انڈرٹیکنگ) 2017 کے آغاز میں جاری کئے گئے تھے، تو جیٹلی کا دعویٰ کسی مذاق کی طرح لگتا ہے۔

بینکوں کو نیا سرمایہ دینے کے پہلے مرحلے میں پنجاب نیشنل بینک کو 5000 کروڑ روپے کا تازہ سرمایہ دیا گیا تھا۔  یہ بدقسمتی ہے کہ پی این بی کو ملا سرمایہ کا تین گنا غالباً اس فرضی واڑے کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔حکومت کی اسکیم اگلےدو تین  سالوں میں بینکوں کو 2 لاکھ کروڑ روپے نئے سرمایہ کے طور پر دینے کی ہے۔  ہم بس یہ امید کر سکتے ہیں کہ یہ نیا سرمایہ بھی فرضی واڑےکے معاملوں اور عام طور پرنان پرفارمنگ اسیٹ (این پی اے) کے ذریعے نہ ہضم کر لی جائے۔

یاد رکھیےکہ بینکنگ سسٹم میں کل اعلان شدہ این پی اے 9 لاکھ کروڑ روپے کے ہیں، جس کے 30 فیصد کی بھرپائی پہلے ہی پچھلے منافع سے کی گئی ہے۔  اور انسالوینسی کورٹ میں بھیجے جانے پر کسی بھی معاملے میں 30 فیصد سے زیادہ کی وصولی نہیں کی جا سکی۔موٹے طور پر کل قرض کا 40 فیصد، جو این پی اے میں بدل گیا ہے یا بدلنے والا ہے، (یہ تقریبا 4 لاکھ کروڑ روپے کے برابر ہے) بینکنگ سسٹم کے اندھے کنوئیں کے برابر ہے۔  اس لئے 2 لاکھ کروڑ روپے کےتازہ سرمایہ کاانتظام کرکے بھی جیٹلی اس اندھے کنوئیںکو بس آدھا ہی بھر پائیں‌گے۔

یہاں دھیان دینے والی اہم بات یہ ہے کہ پچھلی حکومت یا حکومتوں میں سسٹم کو اپنے فائدے میں توڑنے مروڑنے والے سرمایہ دار، چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، مودی حکومت میں بھی پھل پھول رہے ہیں۔  ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ بینک کا قرض نہ چکا پانے والی دیوالیہ کمپنیوں کے ذریعے جب اپنی جائیدادوں کو بیچی جا رہی ہے، تب دور کے فیملی ممبروں کے ذریعے ہی اونے پونے داموں میں اس کی بولی لگائی جا رہی ہے، جس سے پورا پروسس ایک مذاق بن‌کر رہ گیا ہے۔

ان میں سے کچھ کارپوریٹ گروپ تو مودی حکومت کے ساتھ دفاعی پیداوار جیسے کیپٹو کاروباروں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں خاص پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ سسٹم کے تحت کام کر رہے ہیں، جبکہ ان میں سے کچھ کمپنیوں کے اوپر بینکوں کا قریب 3 لاکھ کروڑ روپے بقایا ہیں۔مودی حکومت کے ذریعے ان بڑے کارپوریٹ گروپوں کے ساتھ برتی جا رہی نرمی کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ کو  ریزرو بینک آف انڈیااور دیگر بینک دانستہ ڈفالٹر اعلان نہیں کر رہے ہیں۔  جبکہ وزارت خزانہ کی تحقیق سے یہ صاف پتا چلتا ہے کہ انہوں نے گھریلو بینکوں سے لئے گئے قرض کو بجلی محکمہ میں بنیادی ڈھانچہ سے متعلق اوزاروں کے در آمد کی اوور انوائسنگ (اصل سے زیادہ قیمت دکھانا) کے ذریعے بیرون ملک بھیج دیا۔

آخر وزیر اعظم اور وزیر خزانہ اپنے ہی وزارتوں کی تفتیش کے نتیجوں پر کارروائی کیوں نہیں کر رہے ہیں، جبکہ ان نتیجوں میں صاف طور پر بڑے پیمانے پر در آمد کی اوور انوائسنگ کے بارے میں بتایا گیا ہے۔  یہ اصل میں کسی بڑے راز سے کم نہیں ہے۔جب کبھی یہ معاملے بڑے گھوٹالہ کے طور پر سامنے آئیں‌گے، جیسا میہل چوکسی اور نیرو مودی کے معاملے میں ہوا ہے، تب حکومت اور ریگولیٹرز پر اس کی ذمہ داری آئے‌گی، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔

اگر وزیر اعظم اور وزیر خزانہ بینکنگ نظام کی خرابی کو دور کرنے کو لےکر واقعی میں سنجیدہ ہیں، تو ان کو فوراً سرفہرست 50 کارپوریٹ قرض کھاتوں، جو یا تو پہلے ہی این پی اے میں بدل چکے ہیں یا خوفناک دباؤ میں ہیں کے قریب سے نگرانی کرنے کے لئے تفتیش کاروں کی ایک پوری ٹیم بنانی چاہئے، جس میں آر بی آئی کے ممبر بھی ہوں۔  اگلے مرحلہ کے طور پر چیزوں کے ہاتھ سے نکلنے سے پہلے تیز رفتاری سے کارروائی کی جانی چاہئے۔

فرضی واڑا اور قرض کی ادائیگی نہ کرنے والے کے درمیان کا فرق بہت تیزی سے مٹتا جا رہا ہے۔  مودی کے لئے یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ یہ قرض یو پی اے کے وقت میں دئے گئے تھے۔  حقیقت یہ بھی ہے کہ ان میں سے کچھ کارپوریٹ گروپوں نے این ڈی اے-1 کے وقت میں خوب ترقی کی، جب بڑے پیمانے پر قرضوں کو رائٹ-آف کیا گیا تھا۔  وزیر اعظم چاہے کچھ بھی دعویٰ کریں، سچائی یہی ہے کہ یہ کمپنیاں آج بھی سسٹم کو چکمہ دے رہی ہیں۔

جیسا شروع میں ہی کہا گیا کہ وزیر اعظم اور ان کے لوگوں کی ذاتی ایمانداری سے عام ٹیکس دہندگان کو کوئی مدد نہیں مل رہی ہے، جو آج بھی سسٹم کی اس لوٹ کی بھرپائی اپنے خون پسینہ کی کمائی سے کرنے کے لئے مجبور ہیں۔