ادبستان

الوداع سری دیوی! آپ ہمیں بہت یاد آئیں‌گی

سری دیوی کے نہیں ہونے کی خبر کے ساتھ جو چیز میرےذہن میں سب سے پہلے آئی، وہ تھی کہ ہم ان کو ہمیشہ ایک ہی شکل اور صورت میں یاد کر پائیں‌گے۔ 

فوٹو: رائٹرز

فوٹو: رائٹرز

سری دیوی مجھ سے تیرہ سال بڑی تھیں۔  میں جب تیرہ سال کا تھا، تب وہ ہندوستانی سینما کے چوٹی پر تھیں۔  ہمت والا، صدمہ، آخری راستہ، نگینہ اور مسٹر انڈیا کے علاوہ تیس سے زیادہ فلموں کے ذریعے ان کا جادو لوگوں کے سامنے تھا۔  اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ ہم شرط لگاتے تھے کہ سری دیوی کے مقابلے میں کون ہے۔  وہ ایک قسم کی بیت بازی ہوتی تھی، جس میں فلموں کے نام گنانے ہوتے تھے۔  تب نہ موبائل تھا نہ گوگل،ظاہر ہے، کامیاب اور مقبول عام فلموں کے نام ہی ہم جانتے تھے۔سری دیوی کے حصے میں زیادہ فلمیں آتی تھیں۔  یہ ریکھا اور جیا بھادری کے بعد کا زمانہ تھا اور مادھوری دکشت آنے ہی والی تھیں۔

ان دنوں سینما کے ستارے ہمارے لئے آسمان میں چمکنے والے ستاروں کی طرح تھے۔  اس لئے سالوں بعد جب ہم نے سامنے سے سری دیوی کو دیکھا تو یقین کرنا مشکل تھا۔  حالانکہ ان کے پاس بونی کپور کھڑے تھے ،لیکن میں ایک ٹک سری دیوی کو دیکھے جا رہا تھا۔  وہ کوئی ایوارڈ فنکشن تھا اور وہ اسٹیج پر کسی کو ایوارڈ دینے آئی تھیں۔  مجھے اس پورے منظر میں صرف سری دیوی کی یاد ہے۔  نہ دوسری شخصیت، نہ ان کے علاوہ چاروں طرف بکھری ہوئی روشنی۔  صرف اور صرف سری دیوی۔  ان کا سحر شاید ہماری عمر کے تمام لوگوں پر رہا ہوگا۔

سن نوے کے بعد ہم نے بہت اچھی اور بےحد خوبصورت اداکارہ دیکھی ہیں، لیکن سری دیوی کا چلبلاپن اور چہرے پر تراشی ہوئی سنجیدگی سے خالی ہوئی جگہ کسی نے نہیں بھری۔  حالانکہ بیچ بیچ میں وہ آتی رہیں اور ناظرین کو چونکاتی رہیں۔  اور یہی دور تھا، جب پرائیویٹ ٹیلی ویژن پر پرانی فلمیں بےتحاشہ دکھائی جانے لگیں اور سری دیوی کبھی سین سے اوجھل نہیں ہو پائیں۔  مسٹر انڈیا ہم نے کتنی ہی بار دیکھی ہوگی اور موگینبو کے علاوہ ان پر فلمائے گئے نغمات میں الجھے اور کھوئے رہے ہوں‌گے۔  چاہے کرتے ہیں ہم پیار مسٹر انڈیا سے… ہو ، یا ساری دیدی اب ہم نہیں کریں‌گے شور… ہو، یا بجلی کی رانی میں ہوں آئی ،کہتے ہیں مجھے ہواہوائی۔  اس وقت جب ان کے نہیں ہونے کی خبر ذہن میں پریشان کر دینے والے گھنٹے کی طرح بج رہی ہے، یہ گانا پورے جسم کے مساموں پر تیر رہے ہیں۔

ان دنوں ہماری فیملی دربھنگہ میں رہتی تھی۔  میں آٹھویں کلاس کا طالب علم تھا۔  میرے اباجان تھوڑے دنوں کے لئے محمدپور نام کے ایک قصبے میں اسکول کے پرنسپل تھے۔  محمدپور دربھنگہ سے سیتامڑھی کی طرف جانے والی ریل لائن کے بیچوں بیچ پڑتا تھا۔  نسبتاً پسماندہ جگہ تھی، جہاں ہاٹ لگتا تھا اور مستقل بازار جیسی کوئی چیز نہیں تھی۔  لیکن ایک سینما ہال تھا وہاں، بانس کی ایک لمبی سی جھونپڑی۔  ایک روپے میں فلم دکھائی جاتی تھی اور نیچے زمین پر پھیلے ہوئے بھوسے پر بیٹھنا ہوتا تھا۔  مجھے یاد ہے، میں نے وہاں ہمتوالا دیکھی تھی۔  یہ فلم 1983 میں ریلیز ہوکر پورے ہندوستان سے اتر چکی تھی۔  یہی وہ فلم تھی، جہاں سے مجھے سری دیوی کی فلمیں دیکھنے کا جنون سوار ہوا تھا۔

Sridevi

انہی دنوں نگینہ فلم بھی ریلیز ہوئی تھی اور مجھے یاد ہے، ہمارے گھر میں کسی کی شادی ہوئی تھی اور نئے مہمان سب کو نگینہ دکھانے لے گئے تھے۔  چھوٹا ہونے کی وجہ سے مجھے نہیں لے جایا گیا تھا اور بہت بعد میں میں نے یہ فلم کسی بارات میں دیکھی تھی۔  تب باراتی کی تفریح کے لئے وی سی پی پر فلمیں دکھائے جانے کا چلن شروع ہو چکا تھا۔  سرسوتی پوجا جیسے تہواروں میں ہم سڑک پر نکلتے تو تقریباً لاؤڈسپیکر پر یہ گانا گونجتا ہوا ملتا تھا، میں تیرا دشمن ، دشمن تو میرا ؛ میں ناگن تو سپیرا! مجھے حیرانی تب ہوتی تھی جب بارات کے ساتھ چلنے والی بینڈ پارٹی بھی اس گانا کو بڑے جوش کے ساتھ گاتی تھی۔

پرانی اداکارہ کے نئے روپ ہمیں سوتے سے جگاتے ہیں کہ سب دن ہوت نہ ایک سمان۔  وحیدہ رحمان، ویجنتی مالا، شرمیلا ٹیگور اور جیا بہابھادری عمر کے ساتھ ڈھلتی گئیں لیکن دو اداکارہ کبھی عمر دراز نہیں ہو پائیں۔  ریکھا اورسری دیوی۔ سری دیوی کے نہیں ہونے کی خبر کے ساتھ جو چیز میرےذہن میں سب سے پہلے آئی، وہ تھی کہ ہم ان کو ہمیشہ ایک ہی شکل اور صورت میں یاد کر پائیں‌گے۔  لمبے عرصہ بعد جب وہ انگلش ونگلش فلم میں دکھیں، تب بھی ان کے چہرے میں زیادہ بدلاؤ نہیں تھے۔  اوّل اداکاری کا ایک نیا رنگ اور چڑھ گیا تھا۔  مام میں بھی ہم نے ان کو ویسا کا ویسا دیکھا، جیسے اسّی کی دہائی میں وہ دکھتی تھیں۔  ہم کہہ سکتے ہیں کہ روپ اور خوبی کو ہوبہو رکھنے کے لئے انہوں نے مضبوط قوتِ ارادی کا امرپھل چکھ لیا تھا۔

لیکن سری دیوی مجھے یاد رہیں‌گی صدمہ فلم کے لئے۔  ایک معصوم، سرپھری اور دماغی شکل سے کمزور لڑکی کا ہلا دینے والا کردار اور کمل ہاسن کے آنسو یادوں کے دروازے پر ہمیشہ کھڑے رہتے ہیں۔  خاص کر وہ نغمہ، سرمئی آنکھوں میں ننھامنا ایک سپنا دے جا رے ؛ نندیا کے اڑتے پاکھی رے، آنکھوں میں آ جا رے…را را رو رو! اور وہ آخری منظر، جب صحت یاب ہوکر ریل میں بیٹھی سری دیوی جا رہی ہے اور کمل ہاسن کھڑکیوں کے پاس لنگڑاتا ہوا دوڑ رہا ہے۔  آج ہم سب صدمہ کے سوم پرکاش (کمل ہاسن) کی طرحبدحواس ہیں اورسری دیوی ہمیں پہچاننے سے انکار کر رہی ہیں۔  بہر حال، الوداع سری دیوی! آپ ہمیں بہت یاد آئیں‌گی۔

(مضمون نگار فلم ‘انارکلی آف آرا’کے ڈائرکٹر ہیں۔)