حقوق انسانی

نتیش نے بھاگل پور فسادات کے دوران تنازعات میں رہے آئی پی ایس کے ہاتھوں میں دی پولیس کی کمان

بھاگل پور فساد ہندوستان کے سب سے بڑے اور مشہور فسادات میں سے ایک ہے۔  اس فساد میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1100 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔

فوٹوز: پی ٹی آئی

بہار کے نئے ڈی جی پی کے ایس دویدی اور نتیش کمار / فوٹوز: پی ٹی آئی

پٹنہ :بھاگل پور فسادات کے دوران تنازعات میں رہے آئی پی ایس افسر کرشن سوروپ  دویدی  کو بہار پولیس کی سب سے اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے۔  جبکہ ان کو بہار کا اگلا پولیس ڈائریکٹر جنرل یعنی ڈی جی پی بنائے جانے کی  اپوزیشن  نے تنقید کی ہے۔  وہ آج سبکدوش ہو رہے ڈی جی پی، پی کے ٹھاکر کی جگہ لیں‌گے۔  ان کی تقرری ایک مارچ کو ہوگی۔  1989 کے اکتوبر میں بھاگل پور میں جب فرقہ وارانہ فسادات بھڑکے تھے تب کے ایس  دویدی  وہاں کے ایس پی تھے۔  بطور ایس پی ان کا دورمتنازعہ  رہا تھا۔  1984 بیچ کے بہار کیڈر کے آئی پی ایس افسر دویدی اتر پردیش کے جلون ضلع سے ہیں۔  وہ ابھی بہار میں پولیس ڈائریکٹر جنرل (ٹریننگ) کے عہدے پر تعینات ہیں۔  ساتھ ہی سینٹرل سلیکشن بورڈ آف کانسٹبل (سی ایس بی ایس) کے چیئر مین کی ذمہ داری بھی ان کے پاس ہے۔

ان کی تقرری پر سوال کھڑا کرتے ہوئے دہلی یونیورسٹی میں سوشل ورک کے پروفیسر اورآر جے ڈی کے قومی ترجمان منوج جھا نے ٹوئٹ کیا، ” کیا19-2018 میں بہار 2002 کے گجرات کی طرف بڑھ رہا ہے؟  کیا بہار بھی ‘ لیبارٹری جیسے ‘ استعمال ہونے کا گواہ بننے جا رہا ہے؟  “

انہوں نے آگے لکھا، بھاگل پور فسادات پر پی ایچ ڈی کرتے ہوئے ان سے بات چیت کی تھی اور یہ جانا تھا کہ ان کے کردار کے بارے میں جو بھی لکھا گیا تھا وہ سو فیصد صحیح تھا۔

دراصل اس ٹوئٹ کے ذریعے منوج جھا ان تبصروں کا بلاواسطہ طور پر ذکر کر رہے تھے جو کے ایس دویدی کے کردار کے بارے میں ایک جوڈیشیل کمیشن نے کی تھی۔بھاگل پور فسادات کے بعد کانگریس نے ایک بار پھر سے ڈاکٹر جگن ناتھ مشر کو بہار کا سی ایم بنایا۔  انہوں نے بھاگل پور فساد کی تفتیش کے لئے جسٹس رامانند پرساد کی صدارت میں ایک رکنی جوڈیشیل کمیشن بنائی۔  کچھ ہی مہینوں بعد حکومت بدل گئی۔  لالو پرساد کی حکومت نے اس کمیشن کو تین رکنی بنا دیا۔  جسٹس شمش الحسن اور آر سی پی سنہا بھی کمیشن کے ممبر بنائے گئے۔  سال 1995 میں صدر اور ممبروں کے ذریعے الگ الگ رپورٹ حکومت کو سونپی گئی۔  لیکن حکومت نے صرف ممبروں والی رپورٹ ہی منظور کی تھی۔  جسٹس شمش الحسن اور آر سی پی سنہا کی رپورٹ میں بھاگل پور کے اس وقت کے ایس پی کو بھی فسادات کے لئے ذمہدار مانا گیا تھا۔

فوٹو:دی ہندو

فوٹو:دی ہندو

کارواں  میگزین کے مطابق حکومت کی جانچ کمیشن نے اپنی آخری رپورٹ میں دویدی کو قتل عام کے لئے ” پوری طرح سے ذمہ دار ‘ ٹھہرایا ہے۔  رپورٹ میں ان کو مسلمانوں کے تئیں ‘ فرقہ وارانہ جانبداری ‘ کرنے والا بتایا گیا ہے۔  دویدی کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے  کمیشن نے کہا، ” ہم  دویدی ، بھاگل پور کے اس وقت کے سینئر پولس سپریٹنڈنٹ، کو 24 اکتوبر اور اس کے پہلے اور اس سکے بعد جو کچھ بھی ہوا اس کے لئے پوری طرح ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔  مسلمانوں کی گرفتاری اور ان کو بچانے کے لئے خاطر خواہ مدد نہیں دینا ان کے فرقہ وارانہ تعصب کو پوری طرح سے سامنے رکھتا ہے۔  “

دراصل سال 1989 کے 24 اکتوبر کو ہی فساداست شروع ہوئے تھے۔  پورے لالورابڑی حکومتی مدت میںکے ایس  دویدی  کو کوئی اہم ذمہ داری نہیں دی گئی۔  سال 1999 میں مرکز میں جب اٹل بہاری واجپئی کی حکومت تھی تو اس نے اسی سال فروری-مارچ میں قریب ایک مہینے کے لئے بہار میں صدرراج نافذ کیا تھا۔  اس دوران کے ایس دویدی کو مظفرپور ضلع کے ایس پی کی اہم ذمہ داری سونپی گئی تھی۔  جان کار اس کو بھارتیہ جنتا پارٹی سے کے ایس دویدی کی قربت کے طور پر دیکھتے ہیں۔

بھاگل پور فساد ہندوستان کے سب سے بڑے اور مشہور فسادات میں سے ایک ہے۔  اس فساد میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گیارہ سو سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔سال 2005 میں جب نتیش حکومت بنی تو اس نے بھاگل پور فسادات کی دوبارہ تفتیش کے لئے جسٹس این این سنگھ کمیشن بنایا تھا۔  اس کمیشن کے ذریعے 28 اگست 2007 کو سونپی گئی عبوری رپورٹ کی بنیاد پر نہ صرف بند کئے گئے قریب تین درجن معاملوں کو پھر سے کھولا گیا بلکہ فساد میں مارے گئے لوگوں کے خاندان کے لئے بہار حکومت کے ذریعے پینشن اسکیم بھی شروع کی گئی۔  ساتھ ہی نقصان-تلافی معاوضہ بھی دیا گیا تھا۔  یہ معاوضہ اسی طرز پر دیا گیا جس بنیاد پر مرکز کی اس وقت کی منموہن سنگھ حکومت کے ذریعے سکھ فسادات کے متاثرین کے لئے معاوضے کا اعلان کیا تھا۔

فوٹو: عمر اشرف

فوٹو: عمر اشرف

آگے چل‌ کر سال 2015 کمیشن نے اپنی آخری رپورٹ بھی سونپی جس کو اس وقت کی نتیش حکومت نے ایوان میں رکھا بھی تھا۔  رپورٹ میں 22 معاملوں کی تفتیش کرتے ہوئے پولیسافسروں کی جوابدہی طے کی گئی ہے۔  ان میں انڈین  پولیس سروس کے کئی افسر شامل ہیں۔  لیکن اس رپورٹ کی فہرست میں کے ایس دویدی کا نام نہیں ہے۔

بھاگل پور فسادات کے بعد سے متاثرین کی راحت-بازآبادکاری اور فرقہ وارانہ خیرسگالی قائم کرنے کے لئے راشٹریہ سیوا دل فعال رہی ہے۔  اس کے مرکزی مجلسِ عاملہ کے رکن  اور بھاگل پور کے سماجی کارکن اُدے بتاتے ہیں، ” سال 1989 کے ستمبر میں ایک مسلم رکشہ ڈرائیور کا قتل اور پھر اس کے بعد ہوئی گرفتاریوں کی وجہ سے بھاگل پور میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول بننے لگا تھا۔  دوسری طرف ملک کے بڑے حصے میں رام شیلا پوجن اور رتھ یاتراؤں کی وجہ سے ایسے ہی حالات تھے۔  لیکن ان سب سے آگاہ ہونے کے باوجود اس وقت کے ایس پی کے ایس دویدی نے ان حالات سے نمٹنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔  “

وہ آگے بتاتے ہیں، ” کہا جاتا ہے کہ جس وقت فسادات شروع ہوئے اس وقت پولیس نہ صرف اس کو روکنے کے لئے خاموش بنی رہی بلکہ اس نے فسادیوں کو پوری چھوٹ دے رکھی تھی۔  ایسا تب تک چلتا رہا جب تب تک کہ فوج نہیں آ گئی۔  “