ادبستان

نیلابھ مشرا:’میں مل جاؤں گا مٹی میں قلم زندہ رہے گا‘

شور کے اس دور میں سمجھ دار، خاموش لیکن نیلابھ جیسی توانا آواز کا خاموش ہو جانا بہت بڑا خسارہ ہے لیکن زندگی میں لطف لینے اور اس کو قبول کرنے والے دوست کا نہ رہنا جو شکایتی نہ ہو، زیادہ بڑا نقصان ہے۔

فوٹو: نیشنل ہیرالڈ

فوٹو: نیشنل ہیرالڈ

نیلابھ مشرا سے اب کبھی ملاقات نہیں ہوگی۔  اب کبھی ٹھہراؤ، بےفکری اور گہرائی کا وہ احساس لےکر آپ واپس نہ لوٹ سکیں‌گے جو ہر بار نیلابھ سے ملنے کے بعد ہوتا تھا۔چوبیس فروری کی صبح ساڑھے سات بجے انھوں نے چنئی کے اپولو  میں آخری سانس لی۔ 57 کی عمر اس دنیا سے وداع لینے کی نہیں ہوتی ۔ اس معاملے میں نیلابھ نے اپنی فطرت سے الٹ جلدی دکھائی۔کہیں پہنچنے میں جلدی نہ دکھنے والے نیلابھ نے یہاں ہمیں پیچھے چھوڑ دیا لیکن یہ نیلابھ کا فیصلہ نہ تھا۔  وہ جینا چاہتے تھے۔ لیور میں خرابی کی اطلاع ملنے کے بعد سے وہ لگاتار ہسپتال جاتے رہے۔  ڈاکٹر ان کے جسم سے جوجھتے رہے لیکن ان کے سنبھل جانے کی غلط فہمی ہی ہوتی رہی۔

یہ بیماری ان کے پریوار میں تھی اور ان کے والد اور دادا اسی کے شکار کم عمر میں ہوئے تھے۔  نیلابھ اس بات کو اپنی بیماری کی گفتگو کے دوران ایک حقیقت کی طرح بتاتے تھے۔صرف حقیقت ہی نہیں، بیماری پر بات جیسے کسی بہت پرانے رشتے کا بیان ہو، جو پیدائش سے پہلے کا ہے۔  کچھ سال پہلے جب پہلی بار گھنٹی بجی تو انہوں نے کہا، آخر اس نے پکڑ ہی لیا۔  مانو، وہ پچھلی دو پشتوں کا سفر طے کرتے ہوئے ان کے پاس آ پہنچی ہو اور ہاتھ پکڑ لیا ہو۔

میں نے اور دوستوں سے بھی پوچھا، ان کے خاتمے کا انتظار کرتے ہوئے اور سب نے حیرانی کے ساتھ قبول کیا کہ لیور کی اس بیماری کے بارے میں وہ بڑے اپنے پن سے بات کرتے تھے۔میں نے کسی کو اتنے تفصیلی طریقے سے اپنے جسم کی ایک بیماری کے ذرائع اور اس کے اثرات پر بات کرتے نہیں سنا ہے۔  مانو اس سے وہ ناراض نہ ہوں۔  جیسے والد کے کسی زین سے ملی وراثت کے ساتھ وہ ایک رشتہ بنا رہے ہوں۔یہ رشتہ لیکن جان لیوا ثابت ہوا۔  دہلی کی آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسیس کے ڈاکٹر ان کے جسم کو لیوربدلنے کے لئے تیار کرنے میں لگے رہے اور وہ ہر بار نئے طریقے سے چکمہ دیتا رہا۔آخرکار جب وہ چنئی پہنچے نیا لیورلینے کی امید کے ساتھ، پرانے لیورنے جسم کو اس لائق ہی نہیں چھوڑا تھا کہ وہ موقع ڈاکٹر لے سکیں۔

نیلابھ کی اس بیماری سے جوجھنے کا وقت بھی کچھ عجیب تھا۔  یہ وہ قبل ازوقت تھا جب وہ پوری طرح سے چست اور فعال رہنا چاہتے تھے۔ان کے پیارے ملک کو بھی ایک پرانی بیماری نے دھر دبوچا تھا۔  جیسے اس کا بھی پورا جسم آہستہ آہستہ اس بیماری کی چپیٹ میں آ رہا ہو۔  ایک بےچینی اس بیماری کو پھیلتے دیکھنے کا اور اس کا سامنا کرنے میں اپنے سارے ذرائع اور اوزاروں کی مجبوری کا۔نیلابھ مشرا کی موت کے بعد افسوس کے علاوہ کچھ بچا نہیں ہے۔  چنئی میں ہسپتال کے باہر ٹہلتے ہوئے دوست ستیا شیورمن نے کہا، آخر ایک اس طرح کی زندگی کا بننا کتنا مشکل ہوتا ہے! کتنا مطالعہ، کتنی نگرانی، کتنے رشتے، کتنی یادیں! ہر آدمی میں یہ سب کچھ اتنا کامیاب ہو، ضروری نہیں۔

اس لئے نیلابھ کے نہ رہ جانے کے بعد افسوس کی جو گہرائی ہے، وہ ان کے اندر کے ان تمام تجربات کے گم ہو جانے کی بھی ہے۔ نیلابھ کے مطالعے کا قائل،ان سے  گفتگو کرنے والا اوران سے ملنے والا ہر شخص ہوجاتا ہے۔  ان کے دوست اننت نے بتایا کہ نیلابھ ہمیشہ کہتے تھے کہ ادب انھیں فکر کی وسعت، آفاقیت عطا کرتا ہے، تاریخ کےتسلسل کا احساس اور صحافت اپنے آج کے لمحے کا سیدھا تجربہ۔میتھلی اور بھوجپوری کے خاندانی ماحول میں پلنے والے نیلابھ کی تعلیم انگریزی کے ذریعے ہوئی اور انہوں نے انگریزی ادب کا مطالعہ کیا۔  لیکن پیشہ چنا انہوں نے ہندی صحافت کا۔ان کے سامنے  انگریزی کی اخباری دنیا میں جانے کا راستہ تھا جس کی لالچ میں وہ نہیں پڑے۔  اگیہ کی بات یاد آ جاتی ہے کہ ہندی میں کام کرنا اپنے آپ میں جوکھم ہے۔

آپ کے گمنام رہنے کا خطرہ بنا رہتا ہے۔  اس لئے نیلابھ کا یہ فیصلہ، انگریزی میں کام کرنے کی تمام صلاحیت کے باوجود ایک سیاسی فیصلہ ہی کہا جائے‌گا۔پٹنہ میں نوبھارت ٹائمس سےان کی صحافتی زندگی  کا دور شروع ہوا۔  ان کے پاس سیاست کی گہری سمجھ تھی۔  والد، دادا اور ماں گاندھی کے پیروکار اور بعد میں کانگریس پارٹی سے جڑے رہے۔والد بہار حکومت کے کابینہ  وزیر بھی رہے۔  نیلابھ نے اس وراثت کو نہیں چنا۔  انہوں نے سیاست میں حصہ لینے کی جگہ اس کو سمجھنے کی لیاقت سماج میں پیدا ہو، اس کے لئے بیدار صحافی کی طرح کام کرنے کا فیصلہ کیا۔بہار میں ان کی سرگرمی پیپلز یونین اب سول لبرٹیز میں تھی۔  وہ اس کی ریاستی سکریٹری تھے۔  کمیونسٹ سیاست کے ہر رجحان سے ان کی گہری آشنائی تھی۔  لیکن صحافی کے کردار کو ان تقاضوں نے کبھی مسدود نہیں کیا۔نوبھارت ٹائمس کے پٹنہ ایڈیشن کو ختم کرنے کی انتظامیہ کی سازش کو دیکھتے ہوئے انہوں نے پٹنہ چھوڑ‌ کر راجستھان کا رخ کیا۔  راجستھان نے نیلابھ کو نیا موڑ دیا۔

فوٹو:یوٹیوب

فوٹو:یوٹیوب

سب سے بڑی کامیابی نیلابھ کی تھی کویتا شریواستو، جو انسانی حقوق کےتحریک کی روح ہیں۔  راجستھان میں نیلابھ نے مزدور کسان شکتی سنگٹھن اورآر ٹی آئی کی تحریک کے ساتھ بہت قریب سے کام کیا۔سیاسی تحریک کے ساتھ نئی سماجی تحریکوں سے منسلک رہنے سے نیلابھ کے نظریےکو نئی وسعت دی۔  کویتا کی وجہ سے یا اپنے سیاسی فطرت کی وجہ سے ہی وہ حقوق نسواں کے علمبردار بنتے گئے۔

یہ رشتہ سماجی تحریک کے دوستوں کے درمیان ایک خوبصورت چیز تھی۔  نیلابھ اور کویتا کے دو گھر تھے، ایک دہلی، دوسرا جے پور میں۔  اور یہ گھر کیا سرائے تھے۔نوجوانوں کے لئے پناہگاہ اور اسکول۔  نہ جانے کتنے نوجوان ان گھروں میں رہ‌ کر الگ الگ سمتوں میں کام کرنے نکلے۔  نیلابھ ان سب کے خاموش استاد رہے۔  کویتا کا ہر مہمان خودبخود نیلابھ کا دوست بن جاتا۔  2003 میں راجستھان سے دہلی آنا ہوا ان کا آوٹ لک (ہفتہ وار) کے معاون مدیر کے طور پر۔  2008 میں انہوں نے مدیر کی ذمہ داری سنبھالی لیکن تب تک ہندی آوٹ لک کو لےکر انتظامیہ کا تعاون کم ہو رہا تھا۔  اس کو ماہانہ کر دیا گیا تھا۔

نیلابھ کے لئے اس کو بامعنی طریقے سے جاری رکھنا ایک بڑا چیلنج تھا۔  پھر بھی انہوں نے قارئین کی دلچسپی اس میں بنائے رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔آوٹ لک کی ادارت کی رکاوٹوں کا اندازہ ہمیں تھا۔  پھر بھی نیلابھ ناؤ کھیتے رہے۔  جیسا ہوتا ہے، ہندی اشاعت کو انتظامیہ کے عدم تعاون کے باوجود  اپنی عزت بنائے رکھنا ہوتا ہے۔

آگے میگزین نظریاتی ہوئی لیکن نیلابھ کی ادارتی غیرجانب داری انتظامیہ کے لئے بہت مددگار نہیں تھی۔  ایک بار انگریزی آؤٹ لک نے اترپردیش حکومت پر تیکھا حملہ کیا۔حکومت نے اشتہار بند کر دئے۔  انتظامیہ نیلابھ سے گزارش کر رہی تھی کہ وہ اسے ابار لیں۔  نیلابھ کے لئے یہ ممکن نہ تھا۔  اسی وقت طے ہو گیا کہ نیلابھ کارآمد مدیر نہیں رہ گئے تھے۔

اسی وقت بیماری کی سنگینی  کا پتا بھی چلا۔  اور آؤٹ لک نے اسی وقت اپنے پرانے، عملی مدیر کو واپس بلایا لیا۔  نیلابھ نے آؤٹ لک سے استعفیٰ دے دیا۔استعفے کے بعد نئے کام کے لئے نیلابھ پریشان نہ تھے۔  یہ بات ہمیں عجیب لگتی تھی۔  اسی بیچ ان کو نیشنل ہیرالڈ سے دعوت ملی۔  فیصلہ لینا مشکل تھا۔

اخبار بھلے نہرو کا شروع کیا ہو لیکن اب اس پر کانگریس کا سایہ تھا۔  کشمکش یہ تھی کہ اس سے جڑنے پر کیا نیلابھ کی پیشہ ور وابستگی پر شک ہوگا!یہ بھی ہمارے یہاں کی عجیب بات ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے منسلک رہنے سے عزت نہیں جاتی لیکن دوسری طرف وہ آخری طور پر داغدار ہو جاتی ہے۔  نیلابھ نے یہ مشکل فیصلہ کیا۔

ان کی پیشہ ورانہ شرطیں صاف تھیں۔  وہ پارٹی کے ترجمان اخبار کی ادارت کرنے کے خواہش مند نہ تھے۔  اور جیسے آؤٹ لک انتظامیہ کے دباؤ کو ماننے سے انہوں نے انکار کیا تھا ویسے ہی پارٹی کے دباؤ کو ماننے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔  انہوں نے کہا کہ جیسے ہی دباؤ پڑے‌گا، نکل جائیں‌گے۔نیلابھ مشرا کے لئے یہ نئی شروعات تھی۔  ہیرالڈ کے ساتھ نوجیون اور قومی آواز کو شروع کرنا چیلنج تھا۔  نیلابھ کی ساکھ کی وجہ سے ایک وسیع تعاون اس گروپ کو ملا۔

وہ پیشہ ور صحافیوں کی ایک ٹیم بنانے میں کامیاب رہے لیکن ابھی تو آغاز ہی تھا۔  نیلابھ اپنے سب سے چیلنج بھرے دور میں تھے اور ابھی ہی بیماری نے ان کو بے بس کرنا شروع کیا۔  ہم نے کئی بار ان کو ہسپتال سے دفتر جاتے ہوئے دیکھا لیکن یہ جدو جہد بوجھل ہوتی گئی۔

نیلابھ مشرا جیسے شخص کا تصور کرنا مشکل ہے جو ہمیشہ سمجھنے پر زور دیتا ہو۔  جو پیچھے رہنے اور آہستہ بولنے کو کمزوری نہ مانتا ہو۔  جو حمایتی کو ہمیشہ اپنی حمایت کی وکالت کے لئے مجبوری نہ مانتا ہو۔  جو زبان کی ہمدردی کو سب سے  بڑی نعمت مانتا ہو۔

نیلابھ مشرا چمک دار مدیروں میں نہ تھے۔  لیکن وہ ٹھہرے ہوئے، تجزیے پر زور دینے والے، گہری کھوج کے لئے متاثر کرنے والے استاد مدیر تھے۔میں نے انھیں زبان کی ناشائستگی پر غصہ کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے لیکن وہ انسانی حدود کو بھی سمجھتے تھے۔

سہل پسندی  اور شور کے اس دور میں اس سمجھ دار، خاموش لیکن توانا آواز کا خاموش ہو جانا بڑی کمی ہے لیکن زندگی میں لطف لینے اور اس کو شکر گزاری سے قبول کرنے والے ایسے دوست کا نہ رہنا جو شکایتی نہ ہو، زیادہ بڑا نقصان ہے۔

(مضمون نگار دہلی  یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔)