ادبستان

آج رنگ ہے…

کوئی بھی جشن اور تہوار مذہب سے زیادہ انسان کےعشق و محبت کے جذبے کو بیدار کرتا ہے۔ہولی بھی ایک تہوار سے زیادہ کچھ ہے اس لئے ہندومسلمان میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔

Holi

ہولی بھلے ہی ہندوؤں کا تہوار ہے، لیکن یہ اپنی مذہبی پہچان میں بند نہیں ہے۔ ہو بھی کیوں کہ عشق ہی اس کا مذہب ہے۔صوفیائےکرام ہوں یا پیر فقیر، درویش ہوں یا سادھو و سنت سب اپنے اپنے پیر و مرشد اور خدا سے رشتہ قائم کرنے کے لئے عشق پر زور دیتے ہیں،اور عشق کے کئی رنگوں میں ایک رنگ ہولی کا بھی ہے۔ اس لیے امیر خسرو ہوں یا سید عبداللہ شاہ قادری (بلہے شاہ) ان سب کے کلام میں ہولی کا رنگ خوب نمایاں اور گہرا ہے۔

ہولی کو یوں تو موسم کے بدلنے کی علامت بھی مانا جاتا ہے۔ لیکن یہ عشق اور عشقیہ رنگ میں ڈوب جانے کی کیفیت کا نام ہے۔کیا بادشاہ اور کیا فقیر سب کے دلوں میں عشق اور صرف عشق کا ورد ہوتا ہے۔ ہولی کی مستی اور عشق کی کیفیت سے اردو شاعری کی ہر کتاب روشن ہے۔ آپ کہیں سے کوئی کتاب اٹھا لیجئے آنکھوں میں رنگ و گلال کے منظر طلوع  ہو جائیں‌گے۔ مثال کے طور پر سب سے پہلے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا مشہور زمانہ کلام ملاحظہ فرمائیں :

zafar

کیوں مو پہ رنگ کی ماری پچکاری

دیکھو کنور جی دوں‌گی گاری

بادشاہ کے کلام سے نظر ہٹے تو صوفی شاعر شاہ نیاز کا کلام بھی سنیے کہ :

ہولی ہوئے رہی ہے احمد ضیاکے دوار

حضرت علی کا رنگ بنو ہے حسن حسین کھلار

ایسو ہولی کی دھوم مچی ہے

اور اپنے بلہے شاہ کا کیا کہنا کہ وہ اپنے پیر و مرشد کے ساتھ اس طرح ہولی کھیلتے نظر آتے ہیں کہ :

یہ ہے صوفیائے کرام کی ہولی، جہاں عشق ہی مذہب ہے اور عشق ہی دین و ایمان۔ویسے یہ باتیں یوں ہی برائے بیت ہیں۔ اصل میں کہنا یہ ہے کہ ہولی کی اپنی مذہبی پہچان سے الگ بھی ہولی کے رنگوں کی ایک عشقیہ تاریخ ہے۔ اور شاید یہ صوفی سنتوں کی  عشق رنگ ہولی کا فیض ہی ہو کہ ہندوستان میں ایک دوسرے کے تہوار اور میلوں ٹھیلوں میں شرکت کی خوبصورت کہانیاں جابجا مل جاتی ہیں۔

jahangir-celebrating-holi-painting-by-govardhan

ہندوستان میں مغلیہ ہولی کی عشقیہ تاریخ بھی سحر انگیخت ہے، جہاں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے خوابوں کے جہان کی سیرکر رہے ہیں۔کہتے ہیں اپنے وقت کا مغلیہ ہندوستان دیوالی میں جشن چراغاں کرتا تھا، اور ہولی میں عبیر و گلال سے لال لال ہو جاتاتھا۔ اسی طرح راکھی اور سلونوں کی خوب صورت اور خوب سیرت کہانیاں مل جاتی ہیں۔ دہلی کے ہی ایک مسلمان شاعر کے بارے میں کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ ہولی کے دن گلی گلی پھرتے تھے اور دف بجاکر اپنا کلام پڑھتے تھے۔

کتابوں کی بات چلی ہے تو شاید آپ نے بھی یہ پڑھا ہو کہ جہاں اکبراعظم رنگوں کے تالاب میں ڈبکی لگا کر ہولی مناتے تھے، وہیں جہانگیر اپنی کتاب تزک جہانگیری میں نہ صرف ہولی کی محفلوں کا ذکر کرتا ہے بلکہ رنگوں کی مستی سے بھی سرشار نظر آتا ہے۔

گووردھن جیسے عظیم مغلیہ مصور کی پینٹنگس میں بھی جہانگیر اپنی ملکہ نور جہاں کے ساتھ ہولی کھیلتا نظرآتا ہے ۔گووردھن کے آرٹ کے کچھ نمونے ہمارے سامنے ہیں،لیکن دنیا بھر کے کتب خانوں اور میوزیم کے علاوہ رام پور رضا لائبریری میں بھی گووردھن آرٹ کے وہ صفحے محفوظ ہیں جو ہمارے پریم اتہاس اور مشترکہ وراثت کا حوالہ ہیں۔

ہولی اور مغلیہ ہندوستان کی بات ہو رہی ہو تو شاہجہاں کا ذکر بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ شاہجہانی دور میں ہولی کو عیدگلابی اور آب پاشی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ ان باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیسے کوئی جشن اور تہوار مذہب سے زیادہ انسان کےعشق و محبت کے جذبے کو بیدار کرتا ہے۔

holiradhakrishna2

اردوجرنل  تہذیب الاخلاق (1855) کے ایک شمارہ کے پیش نظر کئی لوگوں نے لکھا ہے کہ بہادر شاہ ظفر ہولی میں اپنی پیشانی پر عبیر و   گلال لگواتے تھے، اور ان کا یہ کلام  دلی کی گلیوں میں گایا جاتاتھا :

کیوں مو پہ ماری رنگ کی پچکاری

دیکھو کنور جی دوں‌گی گاری

اسی بات کو کچھ لوگوں نے اس طرح بھی لکھا ہے کہ بہادر شاہ ظفر اپنے ہندو وزیروں  سے پیشانی پر عبیر و گلال لگواتے تھے اور خاص طرح سے دربار سجواتے تھے۔

اردو کے پہلے اخبار جام جہاں نما کے ایک شمارہ کے مطابق ظفر کے زمانے میں ہولی کے لئے خصوصی انتظام اس طرح کئےجاتے تھے کہ تیسو کے پھول سے تیار زرد یعنی پیلا رنگ ایک دوسرے کو لگایا جاتا تھا۔ اس کے لئے دھات، شیشہ اور لکڑی کی پچکاریاں استعمال کی جاتی تھیں۔

ہولی کی اس تہذیب پر کون عش عش نہیں کرے‌گا کہ بادشاہ سلامت پر بھی لال اور زرد رنگ ڈالا جاتا  تھا۔محمد شاہ رنگیلا کے حوالے سے کئی جگہوں پر اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ اس وقت کی مصوری میں ان کو اپنی ملکہ کے ساتھ ہولی کھیلتے دکھایا گیا ہے۔کل ملا کر اس وقت کی ہولی کا عالم یہ تھا کہ جب زیورات سے لدی پھندی لڑکیاں رقص کرتی تھیں اور ہولی گیت گاتے ہوئے لال قلعہ کے قریب سے گزرتی تھیں تو پردہ نشیں شہزادیوں پر بھی ہولی کی مستی کا رنگ چڑھنے لگتا تھا۔

اسی طرح اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر اور بادشاہ قلی قطب شاہ کے یہاں بھی ہولی پر نظم مل جاتی ہے۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ قطب اپنی محبوباؤں اور کنیزوں کے ساتھ جی کھول‌کر رنگ کھیلتا تھا۔ محلوں اور باغوں میں پھول جمع کیے جاتے تھے اور حوضوں کو رنگوں سے بھر دیا جاتا تھا۔

یہاں زیب داستان کے لئے عرض کرتا ہوں کہ ہولی کے بارے میں کئی طرح کے خیالات ہیں۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ اس کا تعلق آریاؤں کےکامودی تہوار سے ہے۔ کامودی تہوار میں کامدیو کی پوجا کی جاتی ہے۔ اسی طرح اس کو جہاں کرشن جی کی عشقیہ کہانی اور کنس کی داسی اور دیو پوتنا کے ایک خاص سیاق سے جوڑ‌کر دیکھا جاتا ہے، وہیں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ہولی اصل میں پرہلاد کی یاد میں منائی جاتی ہے۔کہتے ہیں پرہلاد نے اپنے باپ کی خدائی سے انکار کردیا تھا۔اس کے بعد پرہلاد کے باپ اور بہن نے اس کو مارنے کی سازش کی تھی۔

ان باتوں سے الگ یہاں ہمارا موضوع اردو شاعری اور ہندوستانی کلچر ہے، سو عرض ہے کہ مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کی ہولی کے رنگ کو ان کی کتاب نوادرات شاہی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ قلعہ معلی میں پھاگ گانے اور کھیلنے کا چلن کتنا مضبوط تھا۔ یہ وہی شاہ عالم ہیں جن کی آنکھوں میں سلائیاں پھیری گئی تھیں اور اندھا کر دیا گیا تھا۔

شاہ عالم نے اپنی کتاب میں ہولی گیت اور دوہے کا خاص اہتمام کیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ اردو اور فارسی کے علاوہ ہندی بھی جانتے تھے۔ ان کی کتاب نوادرات شاہی اردو کے ساتھ ہندی میں ہے اور اس کا ایک نسخہ کتب خانہ عالیہ رام پور میں موجود ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کیا جانا چاہیے کہ ثانی کے حکم پر ہی یہ کتاب 1797 میں اردو اور ہندی دونوں رسم الخط میں لکھی گئی تھی۔

7

مغلوں کے ہندی پریم  کی کہانی سنانے کا یہ موقع نہیں ہے لیکن ایسے ناموں کی کوئی کمی نہیں جو زبان اور کلچر کے شیدائی تھے۔شاید اس زمانے میں تعصب نہیں تھا۔ لوگوں کے دل ملے ہوئے تھے۔ گوپی چند نارنگ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ شاہ عالم ثانی ہندو ماں کے بیٹے تھے اس لئے بھی ان کے یہاں کسی طرح کی شدت پسندی نہیں تھی۔ ثانی تمام مغل بادشاہوں سے الگ ہندوستانی تہذیب کا جشن مناتا ہوا نظر  آتا ہے :

تم تو بڑی ہو چاتر کھلار، لالن تن سوں کھیل مچاؤں، رنگ بھجاؤں

دف، تال، مردنگ، مہچنگ بجاؤں، پھاگ سناؤں، انیک  بھانت کے بھاؤ بتاؤں

چوبا، چندن عبیر سگندھ لگاؤں، پھینٹ گہن کوں دھاؤں، اور تم کو رجھاؤں

جب یہ راگ رنگ ڈھنگ مچاؤں، تب دیکھوں چتورائی، تمہارے جی کوں  کیسے نہ بھاؤں

فائز دہلوی (1690-1737) کے یہاں دلی کی ہولی کا بیان اس طرح کیا گیا ہے کہ سکھیاں عبیر اور گلال چھڑکتی ہیں۔ رنگ اڑاتی ہیں۔ گلال سے ان کا رخسار آتش فشاں  کی طرح ہو جاتا ہے۔ آنکھیں کنول کی پتیوں کی طرح جھپکتی اور کھلتی ہیں۔ گھرگھر ڈھولک بجتے ہیں اور پچکاری چلتی ہے :

جوش عشرت گھربہ گھر ہے ہرطرف

ناچتی ہیں سب تکلف برطرف

گوپی چند نارنگ نے لکھا ہے کہ حاتم کے ہم عصر ہدایت علی خان ضمیر نے ہولی پر جو نظم لکھی تھی، گارساں دتاسی نے اس کی بڑی تعریف کی ہے اور فرانسیسی میں ترجمہ بھی کیا۔  یہ نظم تاریخ ادبیات ہندی میں موجود ہے۔

ہولی کا ذکر محمّد رفیع سود (1713-1780) کے یہاں بھی ملتا ہے :

برج میں ہے دھوم ہولی کی و لیکن تجھ بغیر

یہ گلال اڑتا نہیں بھڑکے ہے اب یہ تن میں آگ

خدائےسخن میر تقی میر (1722-23-1810) کے یہاں ہولی پر دو مثنوی ملتی ہے۔ ان میں سے ایک ‘درجشن ہولی و کتخدائی ‘ جو آصف الدولہ  کی شادی کے موقع پر لکھی گئی :

آؤ ساقی بہار پھر آئی

ہولی میں کتنی شادیاں لائی

جشن نوروز ہند ہولی ہے

راگ  رنگ اور بولی ٹھولی ہے

غالب نے اپنے ایک قصیدے میں ہولی کو اس طرح لکھا :

گرچہ ہولی کے بعد ہے نوروز

لیک بیش از سہہ ہفتہ بود نہیں

سو اس اکیس دن میں ہولی کی

جا بجا مجلسیں ہوئیں رنگیں

شہر میں کوں بہ کوں عبیر و گلال

باغ میں سو بہ سو، گل و نسرین

شہر گویا نمونہ گلزار

باغ گویا نگار خانہ چیں

تین تہوار اور ایسے خوب

جمع ہرگز ہوئے نہ ہوں‌گے کہیں

اردو تہذیب کی بات ہو تو لکھنؤ کی بات بھی ضروری ہو جاتی ہے۔  کتابوں سے الگ ہمارے کچھ لکھنوی دوست بتاتے ہیں کہ یہاں آج  بھی عید ہی کی طرح ہولی پر گلے ملنے اور مصافحہ کرنے کی رسم ہے۔

میر صاحب نے لکھنؤ میں ہی ہولی پر دو مثنوی لکھی اور اس میں لکھنؤ کو دلی سے بہتر قرار دیا :

لکھنؤ دلی سے بھی بہتر ہے

کہ کسو دل کی لاگ ادھر ہے

شاید اس لئے بھی لکھنؤ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں ہولی کے موقع پر ہندوستانی کلچر کی گنگاجمنی تہذیب کا عام نظارا ہوتا ہے۔  یہاں ہولی ایک تہوار سے زیادہ کچھ ہے اس لئے ہندومسلمان میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔  کچھ لوگوں کے مطابق پرانے لکھنؤ میں ایک چوک  ہولی بارات کے نام سے مشہور ہے۔  کمال کی بات یہ ہے کہ یہاں 1947 سے ہی ہولی ایک مذہبی تہوار سےزیادہ ہندومسلم یکجہتی کی علامت ہے۔

کہتے ہیں جب یہاں رنگوں کے شیدائی ہولی مناتے ہوئے اکبری گیٹ اور راجا بازار سے گزرتے ہیں تب لوگ نہ صرف ایک دوسرے کو رنگوں سے رنگتے ہیں بلکہ اپنےاپنے گھروں کے چھجہ سے پھولوں کی بارش کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا استقبال کرتے ہیں۔

یہاں مسلمان ہولی کے ٹھیک بعد نوروز کے موقع پر بھی رنگ کھیلتے ہیں۔  رہی لکھنؤ کی اردو شاعری تو اس میں بھی ہندومسلم یکجہتی کا جشن خوب منایا گیا ہے۔

اور پھر دلی کے میر نے لکھنؤ میں یوں ہی نہیں کہا ہوگا :

آؤ ساقی بہار پھر آئی

ہولی میں کتنی شادیاں لائی

جس طرف دیکھو معرکہ سا ہے

شہر ہے یا کوئی تماشہ ہے

خوان بھربھر عبیر لاتے ہیں

گل کی پتی ملا اڑاتے ہیں

آتش کے یہاں ہولی کا ایک خاص معنی ملاحظہ کیجئے :

ہولی شہیدِناز کے خون سے بھی کھیلیے

رنگ اس میں ہے گلال کا بو ہے عبیرکی

لکھنؤ کی بات اودھ کے آخری نواب اور ہندوستانی موسیقی، رقص اور ڈرامے کے محافظ واجد علی شاہ اختر (1822-1887) کے بنا کیسے پوری ہو سکتی ہے۔  وہ نہ صرف ہولی کھیلتے تھے بلکہ ان کی شاعری بھی ہولی کے رنگوں کو پیش کرتی ہے :

مورے کانہا جو آئے پلٹ‌کے

اب کی ہولی میں کھیلوں‌گی‌ ڈٹ کے

ان کے پیچھے میں چپ کے سے جا کے

یہ گلال اپنے تن سے لگا کے

رنگ دوں‌گی انھیں بھی لپٹ‌کے

اردو میں ہولی کے رنگوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے۔  اس لئے یہاں کچھ خاص رنگوں کو پیش کیا جا رہا ہے۔  اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی مجاہد آزادی، دستور ساز اسمبلی کے ممبر، ‘ انقلاب زندہ باد ‘ کا نعرہ دینے والے اور اپنی  کرشن بھکتی کے لئے مشہورمولانا حسرت موہانی (1875-1951) ہیں جو ہندوستانی کلچر کے ایک بڑے اور سچےمحافظ تھے۔  ان کی ہولی دیکھیے:

موہے چھیڑ کرت نند لال

لئے ٹھاڑے عبیرگلال

ڈھیٹ بھئی جن کی برجوری

اوراں پر رنگ ڈال ڈال

اردو شاعری میں ہندوستانی کلچر اور تہذیب کا صفحہ الٹ رہے ہوں تو پہلی نظر نظیر اکبرآبادی (1740-1830) پر پڑتی ہے۔  نظیر کی شاعری میں ہندوستان بولتا اور چلتاپھرتا نظر آتا ہے۔  آپ اپنی تہذیب کے کسی بھی رنگ کو دیکھنا چاہیں، نظیر اس کا جشن مناتا نظر آئے‌گا۔  صرف ہولی کی ہی بات کر لیجئے تو نظیر نے لوگوں کی ہولی کھیلنے کے طورطریقوں، ان کے امنگوں اور تمام ساز و سامان کا ذکر جس طرح سے کیا ہے کسی اور شاعر کے یہاں نظر نہیں آتا :

جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی

اور دف کے شور کھڑکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی

ہولی کی خاص بات یہ ہے کہ جہاں تمام اردو شاعروں نے رنگوں کا جشن منایا ہے وہیں رنگوں کو نئی نئی شعری تمثیل میں بھی ڈھال دیا ہے۔  اب اپنے سیماب اکبرآبادی (1880-1951) کو ہی لیجئے کہ انھوں نے ‘ میری ہولی ‘ کے عنوان سے ہولی کو ایک نیا معنی دے دیا۔  گویا ہولی عشق ہے محبت ہے اور انقلاب بھی :

ارتقا کے رنگ سے لبریز جھولی ہو مری

انقلاب ایسا کوئی ہو لے تو ہولی ہو مری

اردو کے مسلم شاعروں کو جانے دیجئے اردو کے ایک انگلش شاعر جارج پیش شور کے یہاں رنگ دیکھیے:

خوشی سے پھول‌کے بلبل بھی ہولی گاتی ہے

اٹھی ہے چار طرف سے پکار ہولی ہے

گلال و عبیرکے بادل ہیں سر بسر چھائے

کھلا ہے چرخ پہ باغ و بہار ہولی ہے

ہولی اور اردو کے کچھ رنگوں کو پیش کرنے کے بعد افضل اور ان کی بکٹ کہانی کا ذکر بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ ہندی اردو ادب میں اس کتاب کو خاص اہمیت حاصل ہے۔  یوں تو افضل کی اپنی کہانی بھی کم دلچسپ نہیں، لیکن یہاں ان کی ہولی کا رنگ دیکھیے کہ اس پر بات  کم کم کی جاتی ہے :

bikat-kahani

اس طرح ہولی کی عشقیہ رنگ کی تاریخ اردو شاعری اور ہندوستانی تہذیب کی تاریخ ہے۔ ہولی میں رنگوں کی تہذیب بڑی چیز ہوتی ہے۔  یہ بات میں نے اس لئے کہی کہ بہت پہلے زاہدہ حنا نے ہولی اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف ایک مضمون لکھا تھا۔  آپ بھی اس کا ایک خاص حصہ ملاحظہ کیجئے :

گزرے ہوئے سال کی ناخوشگوار یادوں کی بنا پر اس بار بھی لوگ سہمے ہوئے تھے۔  ان کو یاد تھا کہ پچھلے سال کئی مندروں پر حملے ہوئے تھے لیکن اس مرتبہ بہت سے مسلمانوں نے طے کر لیا تھا کہ وہ اس طرح کی غنڈہ گردی نہیں ہونے دیں‌گے۔  اسی لئے کراچی کے شری سوامی نارائن مندر کے پیچھے ایک بڑے میدان میں جب کراچی اور سندھ کے دوسرے شہروں اور دیہاتوں سے آئے ہوئے لوگ ہولی منا رہے تھے توبہت سے مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام‌کر مندر کے گرد انسانی زنجیر بنائی۔

یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اس مرتبہ کسی کو بھی مندر میں گھسنے اور اس کا تقدس پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے‌گی کہ یہ اسلامی تعلیمات کے قطعا برعکس ہے۔جی ہولی کی تہذیب ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ ہم عشق اور محبت کے رنگوں کو پہچانیں۔  تعصب اور نفرت سے پاک و صاف ہولی منائیں کہ بقولِ خسرو آج رنگ ہے

اور پھر اردو کا ایک شاعر یہ بھی کہتا ہے :

ایمان کو ایمان سے ملاؤ

عرفان کو عرفان سے ملاؤ

انسان کو انسان سے ملاؤ

گیتا کو قرآن سے ملاؤ

دیر وحرم میں ہو نہ جنگ

ہولی کھیلو ہمارے سنگ

یہ مضمون  2 مارچ 2018 کو شائع کیا گیا تھا۔