فکر و نظر

ویریندر سہواگ کا ٹوئٹ :’سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے‘…لیکن

یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس بلے باز نے کیا کیا جب اس کی غلطی اس کو بتائی  گئی ۔یہ بات ان کو ایک بہتر اور زیادہ پسند یدہ انسان بنائے گی ۔

virender-sehwag

  تاریخ اور سیاست پر لکھنا میری روزی روٹی  ہے ، لیکن کبھی کبھار کرکٹ پر بھی لکھتا ہوں۔اکثر  میرا پیشہ اور میرے جذبات  الگ  رہتے ہیں ،بعض دفعہ  یہ  آپس میں ٹکرا جاتے ہیں۔ اس طرح کا ایک موقع پچھلے ہفتے آیا جب میں اپنا ٹوئٹر دیکھ  رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ کرکٹر ویریندر سہواگ نے آدھی ادھوری سچائی  کے ساتھ کیرلا کے ہیٹ کرائم کے بارے میں کچھ باتیں کہی ہیں ۔ دراصل مدھو نام کے ایک لڑکے کو بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر ہندواور مسلمانوں کی  بھیڑ نے مار دیا تھا ۔ مجرموں کے نام کئی اخباروں اور ٹوئٹر پر پہلے ہی عام کر دیے گئے تھے، اس کے باوجود سہواگ نے صرف دو مسلمانوں کے نام  کو ہی  چنا اور اس حادثے  کو’ مہذب معاشرے کی شرمندگی’سے تعبیر کیا۔

میں سہواگ کی بلے بازی  کو بہت پسند کرتا ہوں اور ان کے مداحوں میں ہوں۔اس لیے  جب وہ ہندوستانی  کرکٹ ٹیم سےہٹا دیے گئے تھے تو میں نے ایک کالم لکھاتھا جومیرے معیار  سے  زیادہ بلند تھا ، اس کالم میں ،میں نے یہ تجویز کیا تھا کہ سہواگ اور گوگلی گیند باز  بی ایس چندرشیکھر ہندوستانی کرکٹ کی تاریخ میں دو ناقابل یقین صلاحیتوں  میں سے  ہیں۔ لیکن سہواگ  کے اس ٹوئٹ نے مجھے مایوس کر دیا نہ صرف اس لئے کہ اس نے فقط  دو مسلم ناموں کو ہی مجرم کے طور پرچنا ،اس وجہ سے بھی کہ ہریانہ،  جہاں وہ اپنااسکول چلاتے ہیں ؛ وہاں کی  نفرت  کرنے والی سیاست اورجرم پر وہ خاموش تھے۔  میں نے ان کی منافقت اور نادانی کو لے  کر ٹوئٹ کیا ،یہ کہتے ہوئے کہ  ‘اگر سہواگ میں تھوڑی سی بھی انسانیت ہے تو ان کو اپنا ٹوئٹ ہٹالینا چاہیے’

سہواگ کے ٹوئٹر پر  تقریبًا 16 لاکھ فالوورز ہیں، جن میں سے بہت سے ان کی  کہی بات کو ہی سچ مانتے ہیں۔ میں پریشان تھا کہ وہ اپنی کرکٹ کی شہرت کو استعمال کرکے سماجی کشیدگی کو ہوا نہ  دیں۔ اس لیے خود  ٹوئٹ کرنے کے علاوہ میں نے صحافی راجدیپ سردیسائی کو سہواگ کی  غلطی سے بھی خبردار کیا۔ راجدیپ کے اس معاملے پر ٹوئٹ کے بعد، کرکٹر نے معافی نامہ جاری کیا، اور کہا کہ ان کی معلومات  غلط  تھی، تاہم، اس نے اپنے اصل، جارحانہ، ٹوئٹ کو برقرار رکھا۔لیکن پھر، جب راجدیپ نے اس ٹوئٹ کو ہٹانے  کے لئے ان پر زور دیا، تو انہوں نے راجدیپ کا کہا مان لیا۔

 اس کے بعد، کئی ویب سائٹس نے سہواگ کے ‘ ٹوئٹ پر اسٹوری کرتے ہوئےغور و فکر  کیا  کہ اس نے یہ  پوسٹ کیوں کیا تھا، اور پھر اس نے اسے کیوں ہٹا دیا تھا۔ کچھ رپورٹس نے مجھے کرکٹر کو سیدھے راستے پر لانے کا کریڈیٹ دیا۔سچ تو  یہ ہے کہ راجدیپ سردیسائی کی  بات میں میری بات سے زیادہ وزن تھا۔ راجدیپ کے  والد، سہواگ کی طرح   ہندوستان کے لئے کرکٹ کھیل  چکے ہیں۔  میں اخباروں کے لئے لکھتا ہوں، راجدپ ٹیلی ویژن پر آتے ہیں جو   ایک زیادہ مقبول ذریعہ  ہے ،اور میرے مقابلے  ان  کے پاس ٹوئٹر پر چار  گنا زیادہ  فالورز ہیں۔یہ  یقینی طور پر راجدیپ کے ٹوئٹ ، اور ان کے ایک فون کال کی وجہ سے ہوا، جس نے سہواگ کو آدھی ادھوری سچائی کے خوفناک نتائج سے خبر دار کیا ۔  دوسروں کے ٹوئٹ خواہ وہ  کتنےہی  شور و  غل والے  ہوتے ،  شاہد سہواگ کو یہ کرنے پر مجبور نہیں کر پاتے۔

بیسویں صدی میں Manchester Guardian کے  ایڈیٹر سی پی اسکاٹ نے کہا تھا ؛تبصرے آزاد ہیں ،لیکن حقائق مقدس ہیں ۔ لیکن 21  صدی کے آغاز میں،  ہر سیکنڈ سوشل  میڈیا پر اس اصول  کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ ٹرولز اور نظریاتی شدت پسند جان بوجھ کرہروقت جھوٹ بولتے ہیں، لیکن  جانے مانے ذمہ دار لوگوں کو اپنا معیار بلند رکھنا چاہیے، تاکہ  اس بات پر  یقین کیا  جاسکے  کہ کرکٹرز یا فلم اسٹار پر اس بات کی  پابندی نہیں ہے کہ وہ اپنے شعبوں سے الگ دوسرے موضوعات پر کیوں بولتے  ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی شہری ہیں، تاہم بد عنوانی ، فرقہ وارانہ فسادوغیرہ کے بارے میں رائے دینے  سے قبل، انہیں یقینی طور پر اس بات   سے متعلق حقائق کو دیکھنا چاہیے اور  عوام کے سامنے  تمام حقائق  کوپیش کر ناچاہیے۔

virender-sehwag-tweet

اس واقعے پر غور کرنے کے دوران  مجھے ایک واقعہ  یاد آیا  کہ  سیاسی ایجنڈے کے لیے ایک معروف شخصیت نے آدھا سچ نہیں پورا جھوٹ ہی بولا تھا۔ یہ 2002 میں گجرات کے فرقہ وارانہ  فسادات کے بعد ہوا جہاں ہزاروں   مسلمان   تشدد میں مارے گے تھے ،اس میں ایم پی احسان جعفری بھی تھے ۔ جب احمدآباد میں ان کی عمارت  کو متشدد ہندوؤں  نےگھیر لیا تھا تو جفری نے اعلیٰ پولیس افسران اور سیاست دانوں سے مدد مانگی،  لیکن کوئی ان کو کسی طرح کی مدد نہیں ملی تھی۔ اس لیے یہ بھی وہاں بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ قتل کیے گئے۔

فسادات کے بعد ، ناول نگار ارندھتی را ئےنے ان کے بارے میں ایک مضمون لکھا۔ یہاں انہوں نے جعفری کے واقعے کے بارے میں لکھا تھا کہ’ایم پی کا قتل کرنے سے پہلے بھیڑ  نے  ‘[رکن پارلیامنٹ کی] بیٹیوں کو بر ہنہ کرکے  انہیں زندہ جلا دیا تھا’یہ دعوے پہلے ہی ان کی تصدیق کے بغیر کئے گئے تھے ۔اس بات کو خارج کرنے والا  جعفری کا اپنا بیٹا تھا۔انہوں نے لکھا تھا کہ؛ رائے کے آرٹیکل کو پڑھنے کے بعد ہم سب  حیران تھے اور سن ہو گئےتھے ‘۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ایسا  کیوں: ‘میرے بھائیوں اور بہنوں میں،  صرف میں ہی ہندوستان میں رہتا ہوں ۔ میرے بہن  بھائی یو ایس میں رہتے ہیں ۔’

گجرات میں فروری ، مارچ 2002 کے واقعات خوفناک تھے ۔ انگریزی  پریس نے فسادات کی رپورٹنگ بڑے پیمانے پر (اور حساس طور پر)کی تھی ،  جس  میں تشدد کو پھیلانے  اور ان کو ختم کرنے میں ریاستی حکومت کی پیچیدگی کو بھی دکھایا تھا ۔ حکمراں بی جے پی( گجرات اور مرکز میں)اس وقت تک دفاعی پوزیشن میں تھی  جب تک  کہ رائے  کے غیر مصدقہ  اعدادو شمار   نے  انہیں جواب دینے کا موقع فراہم نہیں کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ پریس، اپنی طرف سے حقائق پیدا کرکے  ‘ہندوؤں کو بدنام کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ بی جے پی کے ترجمان نے کہا کہ مصنفہ’بناوٹی باتوں کا استعمال کرکے محب  وطن ہندوؤں کو بدنام کر رہی ہیں’-ان کا کہنا تھا کہ ؛’ہندوستان  کی معروف مصنفہ نے ایسے واقعات کا ذکر کیا ہے جو مکمل طور پر بناوٹی تھے ‘،دوسرے نے کہا ‘اس آرٹیکل کے شائع ہونے کے تین ہفتے بعد ارندھتی رائےنے  معافی مانگی۔

سہواگ خوش قسمت ہیں کہ اس وقت تک ٹوئٹر وجود میں آچکا ہے  اور ان کو  شرمندہ کرنے کے بعد ان سے معافی  منگوائی جاسکتی ہے۔مجھے امید ہے  کہ اس ایپی سوڈ میں  دوسری مشہور شخصیات  بھی حصہ لیں گی   جنہوں نے اپنا نام خاص شعبوں میں  بنا یا ہے اور دوسروں پر تبصرہ کرنا چاہتے ہیں۔  فلم اسٹار اور کرکٹرز کو خاص طور پر اس سلسلے میں  محتاط رہنا ہوگا۔ کیونکہ،اگر وہ حقائق کوجانے انجانے میں چھپاتے ہیں  تو نہ صرف ان کے اپنے اعزاز کو نقصان پہنچے گا ،بلکہ ہندوستانی سماج کی  نازک  ڈور کو بھی نقصان ہو گا۔

یہ ایک درس ہے جو میں نے  سہواگ والے ایپی سوڈسے لیا،دوسرے  یہ  کہ جب اس طرح کی غلطی ہوتی ہے تو بہتر ہے  کہ اس کو مان لیا جائے   اور معافی مانگ لی جائے۔ مجھے راحت ملی جب سہواگ نے جزوی طور پرمعافی نامہ جاری کیا  اور خوشی ہوئی  جب زور دینے پر انہوں نے اس ٹوئٹ کو ہٹا دیا۔کہتے ہیں  غلطیاں انسان سے ہوتی ہیں،لیکن ظاہر ہے کہ ہمارے فلم اسٹار اور کرکٹ کھلاڑیوں میں سے کچھ نے کبھی غلطی نہیں کی ہے نا ہی ہمارے سائنس دانوں اور کاروباری اداروں نے ، اور سب سے اوپر، ہمارے سیاستدانوں  سے  بھی کوئی غلطی  نہیں ہوئی ہے۔ ان سب کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس بلے باز نے کیا کیا جب اس کی غلطی اس کو بتائی  گئی ۔ یہ بات ان کو ایک بہتر اور  زیادہ پسند یدہ انسان بنائے گی۔