خبریں

ایس ایس سی پیپر لیک معاملہ:’پیسے دو نوکری لو‘؟

کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سورجے والانے اس معاملے میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ؛یہ دوسرا ویاپم اسکیم ہے۔ساتھ ہی کانگریس رکن پارلیامنٹ ششی تھرور نے اس معاملے کی سی بی آئی انکوائری کی بات کہی ہے۔

Credit: Valay Singh

فوٹو : ولے سنگھ

نئی دہلی :ایس ایس سی؛سی جی ایل،ٹیر 2(Combined Graduate Level)امتحانات میں مبینہ طور  پر پیپر لیک ہو نےکی بات کہی جارہی  ہے۔اس  کو لے کردہلی میں ایس ایس سی دفتر کے باہرسی جی او کمپلیکس میں طلباپر زور مظاہرہ کر رہے ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ پروٹسٹ کر رہے طلبا نے ہولی بھی یہیں منائی ہے۔ اس معاملے پرطلباکا کہنا ہے کہ ایس ایس سی؛سی جی ایل،ٹیر 2کے17 سے 22فروری کوہوئےسبھی امتحانات کے پرچے لیک ہوئے ہیں۔ ان کی مانگ ہے کہ معاملے کی سی بی آئی جانچ کرائی جائے۔دی وائر سے ہوئی بات چیت میں طلبا نے  الزام لگایا ہے کہ پندرہ پندرہ  لاکھ میں پیپر فروخت کیے گئے اور سوشل میڈیا پر ڈالے گئے ، یہاں تک کہ لوگوں کے گھروں  تک پہنچائے گئے ہیں۔اس سے قبل این ڈی ٹی وی پر بھوپال اور پٹنہ سینٹر میں جو امتحانات ہوئے تھے اس میں پیپر لیک ہونے کی بات کہی گئی تھی ۔این ڈی ٹی وی  کے مطابق ایس ایس سی نے بھی یہ بات مانی تھی ،لیکن باقی سنٹروں پر پیپر لیک ہونے کی بات قبول نہیں کی اور پریس ریلیز کے ذریعےاس طرح کی باتوں کو بے بنیاد  بتایا۔غور طلب ہے کہ 24 فروری کو ایس ایس سی نے ایک  نوٹس جاری کیا تھا،جس میں طلبا اور دوسرے سینٹروں سے ملے ان پٹ کو دیکھتے ہوئے 21 فروری کے امتحان کورد کرنےاور 9 مارچ کو دوبارہ کرائے جانے کی بات کہی۔جبکہ طلبا اس پورے معاملے کو ایک بڑا اسکیم بتاتے ہوئےسی بی آئی جانچ اور نئے سرے سےامتحانات کرائے جانے کی مانگ کر رہے ہیں۔

The papers reportedly found their way on to social media.

مبینہ طور پر سوشل میڈٖیا پر لیک پرچے کا عکس

واضح ہو کہ ایس ایس سی کے ذریعےہونے والے امتحانات سےمختلف مرکزی وزارت اور ان کے ماتحت محکموں میں Non Gazettedاسٹاف کی بحالی کی جاتی ہے۔ ہر سال لاکھوں طلبہ و طالبات اس امتحان میں بیٹھتے ہیں۔ اس سال بھی تقریباً 9372اسامیوں کے لیے 189843لوگ ایس ایس سی؛ سی جی ایل ٹیر 2 کے امتحانات میں شریک ہوئے تھے۔یہ امتحانات 17 فروری سے 22 فروری کے درمیان کرائے گئے،جن میں طلبا کی طرف سےپیپر لیک ہونے کی شکایت کی جا رہی ہے۔

میڈیا کے ساتھ طلبا کی بات چیت میں امتحانات میں نقل ہونے کی بات بھی کہی جارہی  ہے۔دہلی یونیور سٹی کے طالب علم شوم نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ”ایس ایس سی ایک ایسا کمیشن ہے جو ایک بھی امتحان بغیر نقل کے نہیں کرا پاتا۔شوم نےنقل کرانے کے لیے ٹھیکہ لیے جانے کا الزام بھی لگایا،اس نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر کمیشن اس میں ملوث نہیں ہے تو ہمارے ساتھ کوآپریٹ کیوں نہیں کر رہی؟ اس کا مزید کہنا ہے کہ ہم ثبوت لے کر کمیشن کے پاس گئے تو دو بار تو کوئی ملا ہی نہیں اور تیسری بار یہ کہہ کر ہمیں واپس بھیج دیا گیاکہ ثبوت صحیح فارمیٹ میں نہیں ہیں۔شوم نے پولیس افسروں کے رویے کے متعلق  دی وائر کو بتایا کہ ہم ان سے پیس فل پروٹیسٹ کرنے کی درخواست کر رہے تھےجو کہ ہمارا قانونی حق ہے تو جواب میں پولیس افسر وں نے کہا کہ ‘آئین صرف کتابوں میں ہے یہاں ہماری چلتی ہے تمھیں ٹھنڈا کر دیں گے’ ۔ ایک اور طالب علم ونیت نے یہ سوال  اٹھایا کہ جو لوگ 15 لاکھ رشوت دے کر ایس ایس سی میں جائیں گے وہ جن کلیان کریں گے؟اس نے مزید کہا کہ وہ ایسے ہی نوجوانوں کو بے وقوف بنا کر لاٹھی چارج کروائے گا جیسا کہ ہمارے ساتھ کل ہوا”۔واضح ہو کہ طلبا نےپولیس پر لاٹھی چارج کرنے اور بے ہودہ  زبان استعمال کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔

Credit: Valay Singh

فوٹو : ولے سنگھ

میڈیاسے بات چیت میں اسٹوڈنٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ  کچھ لوگ رشوت  دے کر آگے بڑھ جا رہے ہیں،’پیسے دو نوکری لو کا الزام لگاتے ہوئےکچھ طلبا نے یہ بھی کہا کہ ہم غریب گھر سے ہیں ، محنت کر سکتے ہیں ،پیسے نہیں دے سکتے’۔طلبااس پورے معاملے کی سی بی آئی جانچ کیے جانے اور امتحان نئے سرے  سے کرائے جانے کی مانگ کو لے کر پروٹیسٹ کر رہے ہیں۔ دریں اثنا کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سورجے والانے اس معاملے میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ؛یہ دوسرا ویاپم اسکیم ہے۔ساتھ ہی کانگریس رکن پارلیامنٹ ششی تھرور نے اس معاملے کی سی بی آئی انکوائری کی بات کہی ہے۔

ویڈیو: مظاہرین کے ساتھ دی وائر کی بات چیت

اس معاملے کی سچائی  کیا ہے؟یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ ایس ایس سی کے چیئر مین کا واضح طور پر کہنا ہے کہ یہ مظاہرے اور پروٹیسٹ دو کوچنگ سینٹر کے اشارے پر ہورہے ہیں ۔حالاں کہ انہوں نے کوچنگ سینٹر کے نام نہیں لیے ہیں اورطلبا سے پروف لانے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔ایس ایس سی اور طلبا کے اپنے اپنے دعووں کے بیچ سب سے اہم سوال ان بے روزگار نوجوانوں کا ہے جو اس معاملے کی انکوائری کی مانگ کر رہے ہیں ۔طلبا کے الزام کہاں تک صحیح ہیں اس پر بغیر جانچ کے کچھ کہنا  مشکل ہے ،لیکن طلبا نے ایس ایس سی پر  جو سوال اٹھائے ہیں ، الزام لگائے ہیں ، وہ بے حدسنجیدہ ہیں۔طلبا کی شکایت کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا جا رہا ؟ کیا طلبا کے ذریعے صاف شفاف امتحانات کرانے کا کا مطالبہ غلط ہے؟آخر کمیشن طلبا کی باتوں کو ٹال مٹول کے انداز میں کیوں  لے رہی ہے ؟ وہ بھی اس وقت جب ملک بے روزگاری کےبدترین دور سے گزر رہا ہے، اس کو رویش کمار کی جاب سیریز سے ٹھیک ٹھیک اعداد وشمار کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے ہیں۔اس صورت حال میں اس طرح کے پروٹیسٹ اور ہزاروں کی تعداد میں موجود طلبا کی مانگوں کو دیر تک نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔اپنے اپنے دعووں کی سچائی سے الگ ایس ایس سی کے اپنے  اعتبار کو قائم رکھنے کے لیے جانچ   ضروری ہے۔