فکر و نظر

بینک قرض کی ہیراپھیری کے معاملے میں’ نیو انڈیا‘میں کچھ نہیں بدلا

چاہے ہیراکاروبار کا معاملہ ہو یا بنیادی ڈھانچوں کے کچھ بڑے منصوبے، کام کرنے کا طریقہ ایک ہی رہتا ہے-منصوبے کی لاگت کو بڑھاچڑھاکر دکھانا اور بینکوں اور ٹیکس دہندگان کا زیادہ سے زیادہ پیسہ اینٹھنا۔

Photo: PTI

Photo: PTI

وزیر اعظم نریندر مودی نے 23 فروری کو اکانومک ٹائمس کے گلوبل بزنس کانفرنس میں کافی سخت لفظوں میں کہا کہ سسٹم ‘ عوام کے پیسے کی لوٹ ‘ کو منظور نہیں کرے‌گا۔  نئی معیشت اور نئے اصولوں کے بارے میں یہ بات سب کو پتا ہونی چاہیے۔اسی کانفرنس میں وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے افسوس کا اظہار کیا کہ متعینہ وقفے پر ہونے والے بینک گھوٹالے معیشت اور ہندوستانی کاروباری دنیا کی ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

سامعین میں ہندوستان کے کچھ سب سے بڑے بزنس پرموٹر بیٹھے تھے اور مودی کے بیان میں چھپے المیہ کو انہوں نے ضرور محسوس کیا ہوگا۔پرموٹروں کے ذریعے منصوبہ کی لاگت کو کافی بڑھاچڑھاکر پیش کرنا اور اس کی بنیاد پر بینکوں سے بڑے قرض لینا-ہندوستانی کاروباری دنیا کی ایک کھلی ہوئی حکومت ہے۔

بینک گھوٹالوں اور قرض کے ارادتاً ڈفالٹوں (قرض واپس نہ کرنے) کی خاص وجہ یہی ہے۔  اس پیسے کے ایک بڑے حصے کا استعمال پرموٹروں کی ذاتی جائیداد کو بڑھانے میں اور سیاسی پارٹیوں کو چندہ دینے میں کیا جاتا ہے۔  تو کیا ‘ نیو انڈیا ‘ میں نئے اصولوں سے یہ حالت بدل گئی ہے؟

موجودہ وقت میں دیکھیں، تو حالت میں شاید ہی کوئی تبدیلی نظر آتی ہے۔  لاگت کو بڑھاچڑھاکر دکھا کر یعنی اوور-انوائسنگ کے ذریعے کئے جانے والے گھوٹالے آج بھی بنا کسی روک ٹوک‌کے جاری ہیں۔کسی کاروبار کی شروعات ہی جھوٹ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔  نیرو مودی اور میہول چوکسی کے کام کرنے کا طریقہ اس کی مثال ہے۔

کافی پہلے استعفیٰ دے چکے گیتانجلی جیمس لمیٹڈ کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر سنتوش شریواستو نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ کمپنی کے کاغذ پر تو 7000 کروڑ روپے کے ہیرےجواہرات تھے، مگر اصل میں اسٹاک 200 کروڑ روپے سے زیادہ کا نہیں تھا۔اسٹاک اور ہونے والی آمدنی کو بڑھاچڑھاکر دکھا کر ہی کمپنی نے بینکوں سے زیادہ قرض حاصل کیا ہوگا۔

شریواستو کا کہنا ہے کہ انہوں نے چوکسی کا دھیان اس طرف دلایا تھا، مگر چوکسی نے ان کو اپنے کام سے کام رکھنے اور کمپنی کے ریٹیل کاروبار کا دھیان دینے کے لئے کہا گیا، جو وہ تب دیکھ رہے تھے۔  شریواستو کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کے بعد ہی استعفیٰ دے دیا۔اس لئے چاہے یہ ہیراکاروبار کا معاملہ ہو یا بنیادی ڈھانچے کے کچھ بڑے منصوبے، کام کرنے کا طریقہ ایک ہی رہتا ہے-منصوبہ کی لاگت کو بڑھاچڑھاکر دکھانا اور بینکوں اور ٹیکس دہندگان کا زیادہ سے زیادہ پیسہ اینٹھنا۔

یو پی اے حکومت  کے دوران بنیادی ڈھانچہ شعبے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی)سمجھوتے کا خاکہ تیار کرنے میں مہارت رکھنے والے گجیندر ہلدیا نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ سارے منصوبے، پھر چاہے وہ سڑک کے ہوں یا بجلی یا ہوائی اڈوں کے، سرمایہ لاگت کو بڑھاچڑھاکر دکھانے کا کام کرتی تھیں۔  اس لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ منصوبوں کا ڈیزائن تیار کرنا ایک چیلنج بھرا کام تھا کیونکہ ان میں ایسی چالبازی کو روکنے والے اہتماموں کو شامل کرنا پڑتا تھا۔

جن چارٹرڈ اکاؤنٹنٹوں اور ریگولیٹرز پر جیٹلی اب ایسی دھوکہ دھڑی کا وقت پر پتا نہ لگانے کا الزام لگا رہے ہیں، ان کو ہمیشہ سے یہ پتا ہوتا تھا کہ پرموٹروں کے ذریعے منصوبہ کی لاگت کو اس طرح بڑھاچڑھاکر دکھایا جاتا تھا جس سے نہ صرف قرض کی ضرورت پوری ہوتی تھی، بلکہ پرموٹر کو بھی اپنا حصہ مل جاتا تھا۔

مثال کے طور پر، اگر ایک بجلی منصوبہ کی اصل لاگت 100 روپے ہے، تو اس کو بینکوں کو 150 روپے دکھایا جائے‌گا۔  اس کے بعد بینکوں کا کنسورٹیم کمپنی کو عام 2:1 کے قرض-جائیداد تناسب کے حساب سے 100 روپے قرض دے‌گا۔اس طرح سے منصوبہ کو بڑھا کر دکھایا گیا کہ  150 روپے کی لاگت کے حساب سے پرموٹر کو 100 روپے کا قرض مل جاتا ہے، جس سے نہ صرف قرض کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے، بلکہ منصوبہ کی 100 روپے کی اصل لاگت کے حساب سے پرموٹر کو اس کا حصہ بھی مل جاتا ہے۔

یو پی اے حکومتوں کے دوران داغی منصوبوں میں ایسا خوب ہوا اور یہی آج ‘ نیو انڈیا ‘ میں بھی ہو رہا ہے۔  اس لئے وزیر خزانہ نیو انڈیا میں، جس کے بارے میں مودی کافی جوش و خروش سے بات کرتے ہیں، ایسا نہیں ہونے کا دکھاوا نہیں کر سکتے ہیں۔جیٹلی نے کہا ہے کہ محاسب اور  ریگولیٹرز کو ایسی چالبازی کو وقت رہتے اجاگر نہیں کرنے کی ذمہ داری لینی چاہیے۔  انہوں نے اس بات کے لئے بھی افسوس ظاہر کیا ہے کہ اس کی ذمہ داری صرف سیاسی طبقے پر آتی ہے۔

سیاسی طبقہ بھی اس کھیل میں شامل ہے۔  بڑے کاروباری گھرانے در آمدات کو بڑھاچڑھاکر دکھاتے ہیں اور ان کی اوور-انوائسنگ (اصل سے زیادہ بل بنانا) کرتے ہیں۔  اس پیسے کا ایک حصہ سیاسی پارٹیوں کو چندہ دےکر سفید کیا جاتا ہے۔نیرو مودی اور مہول چوکسی گھوٹالے کے بعد ان مدعوں پر ہو رہی بحثوں کے درمیان، وزارت خزانہ نے کسٹم کے  اپیلی ٹریبونل میں کافی زور دے کر اڈانی گروپ کے خلاف 4000 کروڑ کے قریب کی بجلی اوزاروں کے در آمد کا اوور انوائسنگ کے الزامات کے معاملے پر دوبارہ غور کرنے کی اپیل کی ہے۔

دوسرے بھی کئی کاروباری گھرانے ہیں جن کے خلاف اوور انوائسنگ کے معاملے میں ڈائرکٹریٹ آف ریونیو انٹلی جینس نے پوری تفتیش کی ہے۔  انہی اوور انوائسنگ کے معاملوں میں دہلی ہائی کورٹ میں بھی دو پی آئی ایل  پر سماعت چل رہی ہے۔

کم سے کم ان معاملوں میں جیٹلی ریگولیٹرز اور تفتیش کاروں سے مبینہ ہیراپھیری کو اجاگر نہ کرنے کی شکایت نہیں کر سکتے ہیں۔یہ کمپنیاں بھی ہندوستانی بینکوں کے بڑے قرض داروں میں شامل ہیں اور اگر مستقبل میں یہ بھی قرض واپس نہیں کرتی ہیں، تو اس کو در آمد کا اوور-انوائسنگ کے معاملے میں کلین چٹ نہ مل جانے تک عام کاروباری جوکھم کی وجہ سے قرض نہ لوٹا پانے کے  زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔

اگر یہ معاملے ثابت ہو جاتے ہیں، تو ان کی اٹکی ہوئی دین داری کو ارادتاًڈیفالٹ کے زمرہ میں رکھنا ہوگا اور ریگولیٹرز کو اپنی ذاتی جائیداد سے اس کی بھرپائی کرنے کے لئے کہنا غلط نہیں ہوگا۔

اگر در آمد کا اوور انوائسنگ کے الزام ثابت ہو جاتے ہیں، تو یہ بینکوں سے لئے گئے قرض کی رقم کو غیر قانونی طریقے سے دوسری طرف موڑنے کے برابر ہوگا۔  اس لئے ان کو یقینی طور پر ارادتاًڈیفالٹ کے زمرہ میں رکھا جانا چاہیے۔ابھی تک انڈین  ریزرو بینک کے ذریعے درج فہرست کئے گئے ارادتاًڈیفالٹ کے تمام معاملے خاص طور پر روٹومیک پینس، کنگ فشر ایئر لائنس جیسے متوسط درجےکے کاروباروں سے متعلق ہیں۔

یہ تعجب کی ہی بات ہے کہ ملک کے سب سے بڑے 20 کاروباری گھرانوں میں سے کوئی بھی ارادتاً ڈفالٹر کی فہرست میں نہیں ہے، جبکہ ان پر بینکوں کا کافی پیسہ بقایا ہے اور انہوں نے کئی مواقع پر پیسہ نہیں لوٹایا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ بڑے کاروباری گروپ کسی نہ کسی طرح سے خود کو ارادتاً ڈفالٹروں کی فہرست میں آنے سے بچا لیتے ہیں اور اس طرح سے وہ ان کی ذاتی جائیداد پر دعویٰ کئے جانے کی صورت حال سے بچ جاتے ہیں۔

جیٹلی جی کو یہ معلوم ہوگا کہ یہ رسوخ سیاسی طبقے سے قربت سے آتا ہے نہ کہ ریگولیٹرز سے نزدیکی کی وجہ سے۔جب بھاری قرض میں ڈوبے ان بڑے کاروباریوں میں سے کئی غیر ملکی سفر پر ہمارے وزیر اعظم کے ساتھ سفر کرتے ہیں، تب اس سے ریگولیٹرز اور تفتیش کاروں کو ملاجلا اشارہ جاتا ہے۔

اس لئے ریگولیٹرز کو قصوروار ٹھہرانا منطقی تو ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔  ایک انگریزی کہاوت ہے کہ The fish starts rotting from the head یعنی سسٹم  کی گڑبڑی اوپر سے ہی شروع ہوتی ہیں۔