فکر و نظر

جے این یو بدل رہا ہے،لیکن…

بی  جے  پی  کے2014 میں حکومت  میں  آنے کے بعد سے  اس نے جیسےفیصلہ کر لیاہے کہ جےاین یو کو  ٹھیک  کرنے کی  ضرورت ہے۔اس کے لیے  تعلیمی معیار کو بہتر  کر نے کے بجائے ، لیفٹ ونگ اسٹوڈنٹ  پا لیٹکس اور لیفٹ ونگ خیالات  کو ختم کر نے پر ان کا سارا زور ہے۔

Photo : StandWithJNU.org

Photo : StandWithJNU.org

جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) ہندوستان  کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ یہ ہیومینٹیز اور سماجی علوم میں اپنے معیار کے لئے جانا جاتا ہے اور  لیفٹ ونگ سیاست کے  لیے  بھی ، لیکن    جے این یو ان سب سے بہت زیادہ     کچھ ہے۔ گزشتہ سال، مجموعی طور پر 3.77 مجموعی گریڈ پوائنٹس کے ساتھ، نیشنل اسیسمینٹ  اینڈ  اکریڈیشن کونسل نے  اسے ++ A   گریڈ دیا جس   کی وجہ سےہندوستان  بھر کی یونیورسٹیوں میں  جے این یوپہلے نمبر پر رہا ۔  نیشنل انسٹی ٹیوٹ رینکنگ فریم ورک میں، اس نے انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اور آئی آئی ٹیز سےمقابلہ  کر کے ملک کے سب سے اعلیٰ  10اداروں میں نام درج کیا۔

عام طور سے کسی بھی یونیورسٹی کی رینکنگ  اس کے  سائنس، انجینئرنگ اور میڈیشن کی ریسرچ  سے طے ہوتی  ہے۔ ظاہر ہے کہ جے این یو کے   سائنسی اداروں  کی  ریسرچ بہت بہتر ہے، لیکن نسبتاًکم معروف ہے۔ جے این یواپنی   کئی   خامیوں کے باوجود، ملک  بھر میں دو  سے زائد جامع اداروں کے علاوہ  جے این یو کی تعلیمی کارکردگی کا مقابلہ کوئی  دور دور  تک نہی  کرسکتاہے۔

جے این یو کو ایک معروف ادارے کے طور پر جوحیثیت حاصل ہے،میڈیا کا اس کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جانا حیران کن ہے ۔اکثراس وجہ سے  ہے کہ تاریخی اعتبار سے    جے این یو  میں لیفٹ ونگ سیاست کا زور رہا ہے ، اور لیفٹ ونگ کے خیالات جے این یو طلبا اور فیکلٹی کے درمیان مقبول ہیں۔ یونیورسٹی کی تعلیمی کارکردگی کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی تنقید مشکل ہے،  اس کےباوجود  اس کی تنقید موجود ہے۔  ایسا لگتا ہے کہ جے این یو  کے ناقدین  نے یہ فیصلہ کر لیاہے کہ عام تعلیمی اداروں کو اس کی  رینکینگ یا تعلیمی معیار سے ناپا جایگا  اور   جے این یو کو لیفٹ ونگ کی نظریات اور سیاست کے معیار سے ۔

بی  جے  پی  کے2014 میں حکومت  میں  آنے کے بعد سے، مرکز میں اس نے جیسےفیصلہ کر لیاہے کہ جےاین یو کو  ٹھیک  کرنے کی  ضرورت ہے۔اس کے لیے  تعلیمی معیار کو بہتر  کر نے کے بجائے ، لیفٹ ونگ اسٹوڈنٹ  پا لیٹکس اور لیفٹ ونگ خیالات  کو ختم کر نے پر ان کا سارا زور ہے۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے، وائس چانسلر ایم جگدیش کمار نے تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے ناقابل قبول طریقہ کار اپنانے کی  کوشش کی ہے،  اصل مقصد لیفٹ کو  ختم کرنا ہے. جبکہ ان اقدامات کے طویل مدتی اثرات کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی ہے کہ جے این یو، جیسا ہم اسے جانتے ہیں، بدلنے والا ہے بہتر یا بدتر کے لئے ۔

جے این یو انتظامیہ کی جانب سے اس طرح کے تین  قدم اٹھائے جا چکے ہیں ، اس میں فیکلٹی سلیکشن کمیٹیوں کے ساتھ ‘چھیڑخانی ‘ شامل ہے، لازمی حاضری اور یونیورسٹی میں انجینئرنگ اور منیجمنٹ  پروگرام متعارف کرنے کا فیصلہ  شامل  ہے۔سب سے پہلے، پرانی   پریکٹس کو  ختم کر کے   جومبینہ طور پر یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (یو جی سی) ہدایات کی خلاف ورزی کرتاہے، کمار فیکلٹی کی تقرریوں کے ساتھ مداخلت کر رہے ہیں۔ انہوں نے فیکلٹی سلیکشن  کمیٹی کے ساتھ مداخلت کی ہے اس بات کو یقینی بنانے کی لیے  کہ لیفٹ   کی طرف جھکاؤرکھنے والے فیکلٹی ممبران ، خاص طور پر وہ   جن کی پی ایچ ڈی جے این یو سے ہے،بطور فیکلٹی نہ لیے جائیں۔ ان مداخلتوں  کی وجہ  سے یہ  لگتا ہے کہ کم اہل امیدوار کو سلیکشن  کمیٹیوں کا رکن  مقرر  کیا گیا ہے ۔یہاں مسئلہ یہ JNU-VCنہیں ہے کہ سلیکشن کمیٹیوں کی طرف سے لیفٹ ونگ یا انٹرنل امیدواروں کو مسترد کر دیا جارہا ہے۔ اس وجہ سے  میرٹ بھی پیچھے ہو گیا ہے۔

ماضی میں یہ ایک بحث تھی کہ فیکلٹی سیلیکشن  میں انٹرنل لیفٹ  ونگ درخواست دہندگان  کی حمایت کی جا رہی ہے۔، تاہم،  یہ جے این یو کو  ہندوستان  کے سب سے اعلیٰ   10 اداروں میں سے ایک بننے سے  نہ روک پایا،  شایدلیفٹ  ونگ مکمل طور پر میرٹ میں کم نہیں تھے۔ مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ فیکلٹی تقرری میرٹ کو نظر انداز  کر رہی ہے ،ظاہر ہے  اس  سےجے این یو کی تعلیمی کارکردگی کو نقصان پہنچے گا۔دوسرا، اس سال کے شروع میں 75 فیصد لازمی حاضری ،تعلیمی مسائل سے نمٹنے کے لئے  نہیں ہے بلکہ اس کامقصد یونیورسٹی سے لیفٹ ونگ طلباکو ختم کرنا ہے۔ جے این یو انتظامیہ کو لگتا ہے کہ کیمپس سیاست بائیں طرف غالب ہے کیونکہ جو  طالب علم  لیفٹ ونگ پارٹیوں سے تعلق یا  ہمدردی رکھتے ہیں ان کے پاس سیاست میں حصہ لینے کا وقت  ہوتاہے، وہ سوچتے ہیں کہ یہ طالب علم  کلاس اٹینڈ نہیں کرنے کی وجہ سے یہ سب کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر طالب علم  75 فیصد کلاس میں حصہ لیں تو ان کو  اسٹوڈنٹ میٹنگ اور مظاہروں میں شرکت کرنے کا وقت نہیں  ملے گا جس کی وجہ سےنئے طالب علم اس سب سے  متاثر نہیں ہو ں گے۔ اور اگر وہ لیکچرز میں حصہ نہیں لیں گے، تو  آخر میں امتحان  نہیں  دے پائیں گے۔اس طرح وہ نکالے بھی  جاسکتے  ہیں۔ حقیقت  یہ ہے کہ تمام نظریہ پسند  طالب علم لازمی حاضری سے متاثر ہوں گے۔ رائٹ ونگ  جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں کو بھی جلسوں  میں حصہ لینے کے لئے کم وقت ملے   گا، اگر وہ اپنے 75 فیصد لیکچرز میں حصہ لیں گے ۔

طلباکلاس میں شرکت کرتے ہیں کیونکہ ایسا نہیں کرنے سے ان  کے گریڈز پر فرق پڑتا ہے ، جس کا ان  کی زندگی پر چھوٹے یا بڑے طریقے سے اثر  پڑتا ہے۔ جے این یو اور دیگر ہندوستانی  یونیورسٹیوں میں طلباحاضری کو لے کر پرسکون ہیں کیونکہ ان کے لئے کلاس میں شرکت کیے بغیر  بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ممکن ہے ۔ اس طرح،جے این یو میں مسئلہ یہ ہے کہ پوسٹ گریجویٹ کورسز کس طرح  منظم، تعلیم یافتہ ہیں۔ اس پر بات کرنے  کی ضرورت ہے لیکن جے این یو نے ایسا کرنے سے انکار کردیا ہے۔

تیسرا، انجینئرنگ اورمنیجمنٹ  کو متعارف کرنے کے لئے یو جی سی کی اجازت لینے کا فیصلہ  لیفٹ ونگ کی سیاست کو  ختم کرنے کا  ایک طویل مدتی طریقہ ہے۔ چونکہ انجنیئرنگ اور مینجمنٹ کے طالب علم  لیفٹ ونگ خیالات سے زیادہ تعلق نہیں رکھتے ہیں ، کیمپس میں لیفٹ ونگ کی بڑی موجودگی بلاشبہ  کمزور ہوگی   لیکن اس کے ساتھ ہی  جے این یو میں انجینئرنگ اور منیجمنٹ  اس کو  زیادہ متنوع اور ایک بہتر ادارہ بنائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جے این یو کی لیفٹ ونگ سیاست اکثر  بے ترتیب  رول  ادا کرتی ہے،  جو مزید طالب علموں  یا فیکلٹی کو پریشانی کرتی  ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ جے این یو  بہت سی امیدوں پر کھڑانہیں اترا  ہے۔ اس کے باوجود، جے این یو کے تعلیمی ماحول کو ملک میں سب سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔جے این یو کو ضرورت ہے اصلاحات کے  ایک پیکیج کی  جو تعلیمی کارکردگی میں بہتری لا سکے ،جوموجودہ انتظامیہ کا  ارادہ بالکل نہیں ہے۔ مزے کی  بات یہ ہے کہ نئی پالیسیوں میں سے کچھ نئی، جیسے انجینئرنگ اور منیجمنٹ پروگراموں کا تعارف، اگرچہ لیفٹ  کو ختم کرنا ہے ، تو اصل میں  یہ جے این یو کے تعلیمی معیار کو بہتر بنا سکتا ہے. تاہم دیگرعلمی  تدابیر  کو نقصان پہنچائےگی۔مجموعی طور پر، ان اصلاحات میں سے کچھ جے این یو کو تبدیل کردیں گی۔ چاہے بہتر یا بدتر ، صرف وقت بتا سکتا ہے۔

(مضمون نگار دی انٹرنیشنل سینٹر گووا کے ڈائریکٹر ہیں اور یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں)