گراؤنڈ رپورٹ

جھارکھنڈ میں آدیواسی کی ’ پتھل گڑی ‘ تحریک کیا ہے؟

گراؤنڈ رپورٹ:جھارکھنڈ کے کئی قبائلی علاقوں میں ان دنوں پتھل گڑی کی مہم چھڑی ہے۔ گرام سبھاؤں میں قبائلی  صف بندی کر رہے ہیں اور پتھل گڑی کے ذریعے  اپنی   حکومت کی مانگ‌کر رہے ہیں۔

فوٹو : نیرج سنہا

فوٹو : نیرج سنہا

جھارکھنڈ میں برسا منڈا کی زمین کھونٹی اور آس پاس کے کچھ خاص آدیواسی علاقے ان دنوں سرخیوں میں ہیں۔کئی گاؤں میں آدیواسی، پتھل گڑی کرکے ‘ اپنا قانون، اپنی حکومت ‘ کی منادی کر رہے ہیں۔گرام سبھائیں مختلف قسم کے فرمان تک جاری کرنے لگی ہیں۔ان کے علاوہ کئی گاؤں میں پولیس والوں کو گھنٹوں بندی بنا لئے جانے کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ان حالات میں پولیس کی کارروائی بھی جاری ہے۔درجن بھر گرام صدور، آدیواسی مہاسبھا کے رہنماؤں اور ان کے مددگاروں کو الگ الگ تواریخ میں گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا ہے۔

ان کارروائیوں کے درمیان 25 فروری کو کھونٹی کے کوچانگ سمیت چھے گاؤں میں پتھل گڑی کر کے آدیواسیوں نے اپنی مبینہ حکومت کی صدا لگائی۔حالانکہ موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے انتظامیہ اورپولیس نے ان پروگراموں میں براہ راست دخل نہیں دیا۔اس کے تین دن بعد یعنی 28 فروری کو کھونٹی ضلع کے صدر دفتر میں منعقد بی جے پی کے کارکن کانفرنس میں شرکت کرنے پہنچے وزیراعلیٰ رگھوبر داس بھی پلٹ وار کرنے سے نہیں چوکے۔وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ پتھل گڑی کی آڑ میں ملک مخالف طاقتیں فعال ہیں۔ان کو حکومت کچل‌کر رکھ دے‌گی۔

وزیراعلیٰ نے یہ بھی کہا: پتھل گڑی جھارکھنڈ کی روایت ہے، لیکن ترقی کے کام روکنے اور راست باز آدیواسیوں کو ورغلانے کے لئے نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ انہی طاقتوں نے بھگوان برسا کو انگریزوں کے ہاتھوں پکڑوایا تھا۔ظاہر ہے نئے تناظر میں حکومت کے تلخ رویے کو قبائلی مہاسبھا اور گرام سبھا سے جڑے لوگ پرکھنے میں جٹے ہیں۔

آدیواسی کمیونٹی اور گاؤں میں طور طریقہ اور سنسکار کے ساتھ پتھل گڑی (بڑا کتبہ گاڑنے) کی روایت پرانی ہے۔ان میں موجا، سیمانا، گرام سبھا اور حقوق کی جانکاری رہتی ہے۔شجرہ، آباواجداد اور مرنی (مرے ہوئے افراد) کی یاد قائم رکھنے کے لئے بھی پتھل گڑی کی جاتی ہے۔کئی جگہوں پر انگریزوں اوردشمنوں کے خلاف لڑ‌کر شہید ہونے والے بہادر وں کے اعزاز میں بھی پتھل گڑی کی جاتی رہی ہے۔

فوٹو : نیرج سنہا

فوٹو : نیرج سنہا

دوسری طرف گرام سبھا کے ذریعے پتھل گڑی میں جن دعووں کا ذکر کیا جا رہا ہے، اس کو لےکر سوال اٹھنے لگے ہیں۔دراصل پتھل گڑی کے ذریعے دعوے کئے جا رہے ہیں کہ:

آدیواسیوں کی خود کی حکومت اور اپنے علاقے میں غیر روایتی رسوم  کی شخصیتوں کی بنیادی حقوق نافذ نہیں ہیں۔لہذا ان علاقوں میں ان کا آزادی سے سفر کرنا، روزگار اور کاروبار کرنا یا بس جانے پر مکمل طورپر پابندی ہے۔

پانچویں  درج فہرست علاقوں میں قانون ساز یا مجلس قانون ساز کا کوئی بھی عام قانون نافذ نہیں ہے۔

آرٹیکل 15 (پارا 1-5) کے تحت ایسے لوگوں کو جن کے گاؤں میں آنے سے یہاں کی بہترین حکومتی قوت کے تحلیل ہونے کا امکان ہے، تو ان کا آنا جانا، گھومناپھرنا ممنوع ہے۔

ووٹر کارڈ اور آدھار کارڈ آدیواسی مخالف دستاویز ہیں اور قبائلی لوگ ہندوستان کے مالک ہیں، عام آدمی یا شہری نہیں۔

آئین کے آرٹیکل 13 (3)  کے تحت  روایت اوررسوم  ہی قانون کی طاقت یعنی آئین کی طاقت ہیں۔

قبائلی مہاسبھا سے جڑے یوسف پورتی کہتے ہیں کہ حکومت پتھل گڑی کو غلط ٹھہرانے میں جٹی ہے، اس سے ہمیں گریز ہے۔دراصل حکومت، عام قانون کو قبائلی علاقوں میں لاکر ہمارے مفادات کی ان دیکھی کر رہی ہے۔جبکہ آدیواسی گرام سبھا کے ذریعے خود کی حکومت چاہتے ہیں۔اس لئے دباؤ اور روک‌کے باوجود پتھل گڑی پروگرام آگے بڑھ رہا ہے۔پورتی کا زور اس بات پر بھی ہے کہ آدیواسیوں کی اجازت کے بغیر کسی بھی قانون میں ترمیم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی نیا قانون بن سکتاہے۔

اس بیچ قبائلی مہاسبھا سے جڑے شنکر مہلی نے میڈیا سے کہا ہے کہ آدیواسی مہاسبھا ایک نظریہ ہے اور پتھل گڑی ایک قدامت پسند نظام۔ اس کے ذریعے گاؤں کے لوگوں کو خود کی حکومت کے لئے بیدار کیا جا رہا ہے۔

فوٹو : نیرج سنہا

فوٹو : نیرج سنہا

مہلی کہتے ہیں اس مدعے پر وہ لوگ حکومت سے بات کرنے کو تیار ہیں لیکن جیل بھیجے گئے ان کے لوگوں کو پہلے چھوڑنا پڑے‌گا۔

جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی سے قریب بیس کلومیٹر کے فاصلے پر قبائلی اکثریتی اور نکسلی متاثر کھونٹی ضلع کی سرحد شروع ہوتی ہے۔جنگل،پہاڑ اور آدیواسیوں کے گاؤں۔محنت کش لوگ،دور دور تک درختوں پر لدے پلاس کےسرخ سرخ پھول اور کسم سال کے کھلتے ہرے پتے۔ان علاقوں میں جائیں تو دل میں اسی زمین کے برسا منڈا کی بہادری بھی آئے‌گی جو محض 25 سال کی عمر میں شہید ہوئے تھے۔

کھونٹی مورہو راستے پر کچھ قبائلی نوجوانوں سے پتھل گڑی پر گفتگو کی تو ان کا جواب تقریباً ٹالنے جیسا تھا:’ کئی گاؤں سے پتھل گڑی کی خبریں تو آتی رہی ہے۔باقی ان لوگوں سے ہی پوچھنا ہوگا ‘۔تھوڑا اور کریدنے پر سائنو منڈا تصویر لینے سے منع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ تہہ میں جائیں‌گے تو زمین کی حفاظت اور ترقی کے سوال بھی اس مسئلے سے جڑے نظر آئیں‌گے۔پانی، جنگل اور زمین ہی ہماری زندگی ہے۔لیکن زمین کی حفاظت کے لئے قبائلی آواز اٹھاتے ہیں تو ان پر گولیاں چلائی جاتی ہیں۔پوری ریاست جانتی ہے کہ سال 2016 میں 22 اکتوبر کو سیکو گاؤں کا ایک قبائلی رانچی کی ریلی میں حصہ لینے کے لئے نکلا تو پولیس کی گولیوں سے مارا گیا۔

سائنو بتانے لگے کہ یہاں کے آدیواسیوں کو اس کا خدشہ ہے کہ حکومت انگریزکے زمانے میں بنا چھوٹاناگپور کاشتکاری قانون میں ترمیم کر کےان کی زمین چھیننے کی کوشش میں جٹی ہے۔تبھی تو برسا منڈا کی جائے پیدائش اولیہاتو کے لوگ بھی کئی مواقع پر حکومت اور بی جے پی کے رخ پر ناراضگی جتاتے رہے ہیں۔ لیکن اس قانون میں ترمیم کو لےکر فی الحال حکومت پیچھے ہٹی ہے، یہ بتانے پر سائنو کا جواب تھا: حکومت کا مقصد اور پالیسیوں پر لوگوں کا بھروسا نہیں قائم رہا۔

غور طلب ہے کہ سال 2016 میں حکومت چھوٹاناگپور کاشتکاری قانون میں ترمیم کرنے میں لگی تھی۔پوری ریاست میں بڑے پیمانے پر مخالفت ہوئی تھی۔حالانکہ ضلع کا درجہ حاصل ہونے کے بعد کھونٹی نے ترقی بھی کی ہے۔خود حکومت کے دیہی ترقی کے وزیر اسی ضلع سے آتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر سرکاری اسکیمیں چل رہی ہیں۔درجنوں عمارت اور پل بنے ہیں۔

ان باتوں پر نوجوان ریگا منڈا کہتے ہیں کہ شہر سے دور جائیے، حقیقت سامنے ہوگی۔یہ پلاس کے پھول، کسم، سال، بیر اوراملی کے درختوں کے بیچ سے بے بسی، غریبی، بھوک، روزگار، دہاڑی کی تکلیف کہیں زیادہ جھانکتی نظر آئے‌گی۔اسکیموں کے نام پر افسر،انجینئر، ٹھیکے دار اور ثالثی کے مبینہ ساٹھ گانٹھ نے قبائلی علاقے کو لوٹنے کا کام کیا ہے۔اسی سلسلے میں اڑکی، کھونٹی، بندگاو ں کے کئی گاؤں کو قریب سے دیکھنے اور سننے پر ایک بات صاف طور پر سمجھ میں آتی  رہی کہ ترقی کے تمام دعوے اور اسکیموں کی لمبی فہرست کے بعد بھی بڑی آبادی روزگار، صحت، تعلیم، سڑک، آب پاشی، بجلی کی مکمل سہولت سے محروم ہے۔

فوٹو : نیرج سنہا

فوٹو : نیرج سنہا

لوگ ندی چواں کا پانی پینے کو مجبور ہیں۔دہاڑی کھٹ‌کر بمشکل پیٹ بھر سکے، تو ایک عدد گھر کے لئے وہ ترستے ہیں۔ناامیدی اور مایوسی کی آواز سنائی پڑتی ہیں۔بیندا علاقے کے پاس ایک بزرگ ایتوا منڈا مقامی لہجے میں کہتے ہیں کہ مبینہ افسرشاہی اور بد عنوانی لوگوں کو پریشان کرتی ہے۔حکومتیں، گاؤں میں کم سے کم پینے اور زراعت کے لئے تو پانی پہنچاتی۔اس لئے اب آدیواسی گرام سبھا کے ذریعے اپنی حکومت چاہتے ہیں۔ایتوا کے سوال بھی ہے کہ کیا یہی دن دیکھنے کے لئے الگ ریاست کی لڑائی لڑی گئی تھی۔

ساکے گاؤں کے رنجیت سوئے گاؤں کی حالت دیکھ بےحد ناراض ہیں۔اس گاؤں میں ایک بھی بیت الخلا نہیں ہے۔لوگوں کی تکلیف ہے کہ اندرا آواس کے لئے سرکاری بابوؤں کو ماضی  میں دئے گئے تمام درخواست نہ جانے کہا ں گم ہو گئے۔صرف تین لوگوں کو رہائش گاہ اسکیم کا فائدہ ملا ہے۔کچّے مکان میں آنگن باڑی مرکز، اسکول چلتا ہے۔

پتا چلا کہ کوچانگ کے علاوہ جن پانچ گاؤں؛سنجڑی، بہنبا، ساکے، تسونگا اور کوکےکورا میں 25 فروری کو پتھل گڑی کی گئی تھی، اس کی تیاریاں پہلے سے اور حکمت عملی کے ساتھ چل رہی تھی۔تبھی تو چائی باسا، مشرقی سنگھ بھوم، سرائےقلعہ اور دوسرے ریاستوں سے بھی لوگ یہاں پہنچے تھے۔ابھی کچھ اور گاؤوں میں بھی پتھل گڑی کی تیاریاں چل رہی ہیں۔البتہ ان دنوں کئی گاؤوں میں ‘  ابوا دھرتی، ابوا راج (اپنی زمین، اپنی حکومت) اب چلے‌گی گرام سبھا کی حکومت ‘ جیسے نعرے گونجتے ہیں۔حالانکہ ان گاؤں میں کسی کے آنے جانے پر سیدھی پابندی تو نہیں پر انجان آدمی کو ٹوکا ضرور جاتا ہے۔تیر کمان سے مسلح جوان، ہر سرگرمی پر نوکیلی نظر رکھتے ہیں۔

ویسے پتھل گڑی کو لےکر کئی گرام صدور منھ نہیں کھولنا چاہتے جبکہ درجنوں گرام صدور کو پتھل گڑی کا یہ طریقہ مناسب نہیں لگ رہا۔ان کا خیال ہے کہ سرکاری اسکیم اورپروگرام کا فائدہ نہیں لیں‌گے تو ترقی کی بات بےمعنی ہوگی۔پنچایت کو بھی ذمہ داری نبھانی پڑے‌گی۔باروبیڑا علاقے کے ایک بزرگ سکھرام منڈا کو اس کی ناراضگی ہے کہ دوسری جگہوں سے آکر لوگ یہاں کے آدیواسیوں کو مغالطہ‌میں‌لانے میں لگے ہیں۔جبکہ کم پڑھے لکھے لوگ حقوق کی بات پر غلط ا ورصحیح کا فرق نہیں کر پاتے۔

رانچی میں پڑھ رہے کھونٹی کے ایک نوجوان منوہر منڈا کا کہنا ہے کہ سسٹم میں اصلاح کے لئے دباؤ بنانا چاہئے نا کہ سسٹم کو سرے سے خارج کرنے کا۔وہ کہتے ہیں کہ ریاست کی ٹرائبل ایڈوائزری کاؤنسل کو اس مسئلے پر مداخلت کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ٹکراؤ بڑھنے سے حالات بگڑتے  چلے  جائیں گے۔

غور طلب ہے کہ سال 2016 میں 25 اگست کو کھونٹی کے کانکی میں دیہاتیوں نے پولیس کے کئی اعلٰی افسروں اور جوانوں کو تیرہ گھنٹے تک بندی بنا لیا تھا۔تب رانچی رینج کے ڈی آئی جی اور کھونٹی کے ڈپٹی کمشنر مداخلت کرنے پہنچے تھے۔دراصل اس گاؤں کے لوگوں نے ایک بیریئر لگایا تھا، جس کو پولیس نے توڑ دیا تھا۔

فوٹو : نیرج سنہا

فوٹو : نیرج سنہا

تازہ واقعہ اس سال 21 فروری کا ہے، جب اڑکی کے کرونگا گاؤں میں روایتی ہتھیاروں سے مسلح دیہاتیوں نے کئی گھنٹے تک پولیس کے جوانوں کو روکے رکھا۔ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور پولیس سپرنٹنڈنٹ کو موقع پر جاکر سمجھانا پڑا۔ادھر 28 فروری کو اڑکی کے کرونگا میں دیہاتیوں نے نکسلی کے خلاف سرچ مہم کرنے نکلے سی آر پی ایف کے جوانوں کو روکنے کی کوششیں کی۔لہذا ماضی میں درج مقدموں کو لےکر 20 فروری کو کھونٹی پولیس نے دو لوگوں کو گرفتار کر کے جیل بھیجا ہے۔ان میں چامڑی گاؤں کے صدر منگل منڈا اور کونوا گاؤں کا باشندہ ولسینٹ سوئی مروم شامل ہیں۔جبکہ 11 فروری کو قبائلی مہاسبھا کے جنرل سکریٹری کرشنا ہانسدا کو گرفتار کیا گیا تھا۔

پتھل گڑی کو لےکر جھارکھنڈ کی سیاست گرمانے کے ساتھ قبائلی کمیونٹی میں بحث بھی چھڑ چکی ہے۔آدیواسی دانشور فورم کے صدر اور آدیواسی موضوعات کے جان کار پریم چند مرمو کہتے ہیں کہ واقعی پتھل گڑی جھارکھنڈی روایت ہے لیکن جس طرح سے آئینی دفعہ اور ذیلی دفعہ کی وضاحت کی جا رہی ہے، وہ غلط ہے۔ظاہر ہے آدیواسی مہاسبھا، راست باز لوگوں کو ورغلانے کا کام کر رہی ہے۔

مرمو کا کہنا ہے کہ پتھل گڑی پروگراموں میں برٹش کے  وقت کے جی او ائی ایکٹ 1935 (گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ) کی وکالت کی جا رہی ہے جس کو آزادی کے بعد ملک کے آئین میں منسوخ کیا گیا ہے۔مرمو کہتے ہیں کہ حکومت کے طریقہ کار پر سوال ضرور کھڑا کیاجانا چاہئے لیکن باہر کے لوگوں کے گاؤں میں داخلہ ممنوع بتانا، پولیس والوں کو جب تب بندی بنانا ٹھیک نہیں ہے۔جبکہ آئین کی دفعہ 19 (ڈی) ملک کے کسی بھی حصے میں کسی شہری کو گھومنے کی آزادی دیتی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ درج فہرست علاقوں میں ماجھی پرگنہ، مانکی منڈا، ڈوکلو سوہور، پڑہا جیسے قدامت پسند نظام تو اب بھی قائم ہیں۔ مرمو دو ٹوک کہتے ہیں: اگر پانچوی درج فہرست کے تحت پیسا قانون (پنچایت راج ایکسٹینشن ٹو شڈیول ایریا ایکٹ، 1996) کو نافذ کرنے میں حکومت کی  منشا ٹھیک ہوتی  تو شاید یہ حالات نہیں بنتے اور نکسلی مسائل سے بھی نہیں جوجھنا پڑتا۔پیسا قانون میں گرام سبھاؤں کو کئی طاقتیں دی گئی ہیں۔جس کی ان دیکھی کی گئی۔

فوٹو : ونود شرما

فوٹو : ونود شرما

آدیواسی سرنا مذہبی سماج کے کنوینر لکشمی نارائن منڈا کہتے ہیں کہ گرام سبھا مضبوط ہوں، یہ بےحد ضروری ہے لیکن پتھل گڑی میں کئی پوائنٹس کی گفتگو بامعنی نہیں لگتی۔باہر کے لوگوں کے گاؤں میں داخلہ ممنوع بتانے، حکومت اور انتظامیہ سے ٹکراؤ بڑھانے کے بجائے حقوق لینے کے لئے یکجا ہوکر آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ زبان، اور تہذیب کے ساتھ ہماری زمین خطرے میں ہے۔سرکاری خزانے کے کروڑوں اربوں خرچ ہونے کے بعد بھی دور دراز علاقوں میں آدیواسیوں کی مشکلیں قائم ہیں۔

ادھر پتھل گڑی کے ساتھ کئی گرام صدور مہر لگا خط سرکاری دفتروں میں بھیج‌کر یہ مطلع کر رہے ہیں کہ ذات، رہائشی، جنم اور موت سرٹیفیکٹس اب ان کے ذریعے جاری کئے جا رہے ہیں۔ ان کے علاوہ ٹرائبل سب پلان کے فنڈ گرام سبھا کو دینے اور مبینہ عوام مخالف پالیسیوں کو فوراً ختم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔کھونٹی ضلع کی ایک خاتون ڈپٹی کلکٹر نے نام نہیں ظاہر کرنے کے ساتھ بتاتی ہیں کہ گرام سبھا کے ذریعے اس طرح کے خط بھیجے جانے سے دیہاتیوں کے درمیان شک وشبہ کی حالت پیدا ہونے لگی ہے۔سرکاری ملازم گاؤں جانے سے ڈر نے لگے ہیں۔کیونکہ کئی گرام سبھا سرکاری اسکیم میں شامل نہیں ہونے اور بچّوں کو سرکاری اسکول نہیں بھیجے جانے کا اعلان کرنے لگی ہے۔

کھونٹی کے چامڑی، بربندا، بھنڈرا، کداٹولی، سلادون پنچایت کے کئی اسکولوں میں اس کا اثر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔سرکاری اسکول کی عمارتوں کی خستہ  حالت، اساتذہ کی کمی پر غصہ ہے۔لہذا گرام سبھا کے ممبر بچّوں کو خود پڑھانے میں جٹے ہیں۔ڈپٹی کمشنر سورج کمار نے حال ہی میں کھونٹی ضلع کی ذمہ داری سنبھالی ہے۔ان حالات پر ان کی نظر بنی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ترقیاتی اسکیموں اور پروگراموں کو وہ آخری پائیدان تک لے جانے کی کوشش کریں‌گے۔اس کے ساتھ سماجی سطح پر بیداری بےحد ضروری ہے، کیونکہ آئین اور قوانین کی غلط وضاحت سے غلط فہمی کی حالت بنتی ہے۔اس لئے بہت جلد ہی وہ ایک پروگرام کرنے جا رہے ہیں، تاکہ پتھل گڑی کے ذریعے جو باتیں سامنے لائی جا رہی ہیں، ان کی حقیقتوں کو واضح کیا جا سکے۔  اس پروگرام میں وہ گرام صدور کو بھی مدعو کریں‌گے۔ادھر، جھارکھنڈ وکاس مورچہ کے مرکزی جنرل سکریٹری اور سابق وزیر بندھو ترکی نے پتھل گڑی کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کی مخالفت کرتے ہوئے پندرہ مارچ کو شاہی محل مارچ کا اعلان کیا ہے۔

فوٹو : نیرج سنہا

فوٹو : نیرج سنہا

ان کا زور ہے کہ پانچویں درج فہرست والے علاقوں میں مقامی زبان، تہذیب کو جاننے والے افسروں اور ملازمین‎ کو تعینات کرنا چاہئے۔جبکہ اپوزیشن لیڈر  ہیمنت سورین کا کہنا ہے کہ تلخی دکھانے کے بجائے اس مدعے کو حکومت سنجیدگی سے سلجھائے کیونکہ پتھل گڑی آدیواسیوں کی روایت ہے۔حکومت اور  انتظامیہ اس کو دوسری شکل میں پیش نہ کرے۔وہیں، سابق آئی پی ایس افسر اور کانگریس کے قومی سکریٹری ارون اورانو کہتے ہیں کہ ریاست کے کئی ضلعوں میں ہو رہی پتھل گڑی کے پیچھے لوگوں کے جذبات کو سمجھنا ہوگا۔اس کے لئے حکومت کو آگے آنا ہوگا۔

ارون اورانو کا کہنا ہے کہ حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ دیہاتیوں کی رضامندی سے اسکیم طے ہوتی ہے لیکن مخالفت کی جو تصویریں سامنے ہیں اس کے اشارے یہی ہیں کہ گاؤں میں بنیادی سہولیات کی کمی ہے اور اس سے ناراض لوگ صف بندی کرنے لگے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پتھروں پر جانکاری لکھے جانے کی تاریخ ہے۔1996 میں کھونٹی کا کرّا میں بیڈی شرما اور بندی اورانو سمیت مقامی رہنماؤں نے پتھل گڑی کی تھی اور اس کے ذریعے پیسا قانون کے بارے میں لکھا گیا تھا۔

جبکہ اسی مہینے کھونٹی اور اڑکی میں دو سرکاری پروگراموں میں شامل کھونٹی کے ایم ایل اے اور ریاست کے دیہی ترقیاتی وزیر نیلکنٹھ سنگھ منڈا نے کہا تھا کہ گرام صدور کو اپنے حق اور طاقت کو پہچاننا ہوگا، کیونکہ تین سالوں میں ہر مکھیا کے کھاتے میں ترقیاتی اسکیم کے 50-50 لاکھ ڈالے گئے ہیں۔گرام سبھا اور گرام صدور کو حق ہے کہ وہ مکھیا سے پیسے اور کام کا حساب لیں۔ساتھ ہی ترقیاتی اسکیموں پر دیہی لوگ نظر رکھیں اور اس کو پورا کرنے میں تعاون کریں۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور جھارکھنڈ میں رہتے ہیں۔)