ادبستان

رقیہ بیگم کا سوال،اس تہذیب یافتہ سماج میں ہماری حیثیت کیا ہے؟

’ہم سنتے ہیں، کہ زمین سے، غلامی کا نظام ختم ہو گیا ہے، لیکن کیا، ہماری غلامی، ختم، ہوئی ہے؟  نہیں نا !  ‘

SultanaDream

’میں جب کرشیانگ اور مدھو پور گھومنے گئی تو وہاں سے خوبصورت پتھر اکٹھے کرکے لائی۔  جب اڑیسہ اور مدراس کے سمندر کنارے پر گھومنے گئی تو الگ الگ رنگ اور ساخت کے شنکھ  سیپ اکٹھے  کرکے لے آئی… اور اب زندگی کے 25 سال سماجی خدمات میں لگاتے ہوئے کٹھ ملّاؤں کی گالیاں اور لعنت و ملامت جمع کر رہی ہوں۔‘

تقریباً 86 سال پہلے لکھے گئے یہ لفظ اس خاتون کے ہیں، جس نے پوری زندگی صرف اور صرف خواتین کے ساتھ ہونے والے سماجی عدمِ مساوات کو دور کرنے کے بارے میں کام کیا۔  جس نے اپنی زندگی ایک ایسے اسکول کو قائم کرنے میں وقف کر دی، جو بنگال کی مسلمان لڑکیوں کو بہتر اور نئی تعلیم کی روشنی سے واقف کرانے کا سب سے اہم ذریعہ بنا۔  ان کو وہ سب کچھ کرنے کا موقع دینے کا کام، جو تعلیم سے ممکن ہے۔  جس نے لکھا تو وہ سب لکھا، جو زندگی کی تلخ اور شرمناک حقیقت تھی پر جس کو خواتین کی زندگی کا حصہ مان لیا گیا تھا۔  جس نے صرف تنقید یا نکتہ چینی نہیں کی، سوال ہی نہیں اٹھائے بلکہ حالات بدلے کیسے جائیں، اس پر مضبوطی سے بات کی۔ ایک ایسی دنیا کا خاکہ پیش کیا جو خواتین کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے اور خود مختار ہونے کی بات کرتا ہے۔

یہ بات بہت پہلے کی ہے اور نہیں بھی۔

بات تب کی ہے جب یہ ملک برطانوی حکومت کے زیرِ سایہ تھا اور ہندوستانی قومیت آج جیسی شکل میں نہیں تھی۔  مغربی بنگال کے رنگ پور ضلع کے پیرابند علاقے کے زمین دار تھے ظہیرالدّین محمّد ابو علی صابر۔  سنہ 1880 میں ان کی پہلی بیگم راحت النّسا صابر چودھرانی کو ایک لڑکی پیدا ہوئی۔  نام ملا، رقیہ خاتون۔  پیار سے اس کو روقو کہا جاتا تھا۔

روقو میں پڑھنے کی زبردست لَلک تھی۔  مگر اس زمانے میں بنگال کے علاقے کے امیر مسلمانوں کے گھروں میں لڑکیوں کو صرف قرآن پڑھانے کا رواج تھا۔  زیادہ سے زیادہ تھوڑی بہت اردو۔  بنگلہ اور انگریزی کی تعلیم ان کے لئے نہیں تھی۔  ایک بڑی بہن بھی تھیں۔  اس بہن کی شادی صرف اس لئے جلدی کر دی گئی کیونکہ اس کو پڑھنا اچھا لگنے  لگا تھا۔

لڑکی کے دو بڑے بھائی تھے۔  کولکاتہ میں پڑھائی کر رہے تھے۔  نئے زمانے کی تعلیم کی اہمیت سمجھ رہے تھے۔  رقیہ کے پڑھنے کی لالچ کو بڑی بہن اور بھائی نے سمجھا۔  بھائی نے بہن کو سب کی نظروں سے چھپا کر پڑھایا۔  رات میں جب سب سو جاتے تو بھائی بہن کو پڑھاتے۔  بہن ذہین تھی۔  اس نے بنگلہ اور انگریزی سیکھی۔  وہ تیزی سے دنیا کے علم کو سمجھ رہی تھی۔  دنیا کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی ۔

ظاہر ہے، اس بہن کی زندگی کی چاہ کو بھائی سمجھ رہے تھے۔  پریشان بھی تھے۔  رقیہ کے لئے ان کو ایک ایسے رفیقِ حیات کی تلاش تھی، جو رقیہ کی ذہن  پر گرد کی تہہ نہ پڑنے دے۔ اسی لئے بھائی نے 1896 میں سولہ سال کی عمر میں رقیہ کی شادی عمر میں کافی بڑے سخاوت حسین سےکر دی۔ سخاوت حسین انگریز حکومت میں افسر تھے۔  وہ ایک ذہین، پڑھےلکھے، ترقی پسند انسان تھے۔  سخاوت حسین بہار کے بھاگل پور کے رہنے والے تھے۔  رقیہ بھی سخاوت حسین کی موت یعنی 1909 تک  یہیں رہیں۔

شادی کے یہ بارہ تیرہ سال ایک نئی طرح کی رقیہ کی تعمیر کے تھے۔  روقو اب آر ایس حسین یا رقیہ سخاوت حسین ہو گئی تھیں۔  رقیہ نے بنگلہ کی دنیا میں اپنے قلم سے اپنی پہچان بنانی شروع کی۔ ان کے مضامین نے بنگلہ ادب میں ہلچل پیدا کر دیے جب انہوں نے سیدھے خواتین سے ہی ایک مضمون میں سوال کر ڈالا؛

’میری، پیاری بہنو،

کیا، آپ نے، کبھی اپنی، خراب حالت کے بارے میں، سوچا ہے؟

بیسویں صدی کے اس تہذیب یافتہ سماج میں ہماری حیثیت کیا ہے؟

خادمہ، یعنی، غلام!

ہم سنتے ہیں، کہ زمین سے، غلامی کا نظام ختم ہو گیا ہے، لیکن کیا، ہماری غلامی، ختم، ہوئی ہے؟  نہیں نا !

تو، ہم خادمہ، کیوں ہیں؟ ‘

’استری جاتر ابونتی ‘جب لکھا گیا ہوگا، تب رقیہ کی عمر بمشکل 22-23 سال رہی ہوگی۔  مردانہ سماج کو کسی خاتون کے منھ سے ایسے سوال سننا کیسے اچھا لگتا۔مگر رقیہ نے اپنا قلم روکا نہیں۔  انہوں نے 1905 میں اپنے ایک کردار سلطانہ کے ذریعے ایسی دنیا کا خواب دیکھا جہاں خواتین کی حکومت ہے۔  خواتین کی یونیورسٹی ہے۔  وہ سائنسدان ہیں۔  وہ امن میں یقین کرتی ہیں۔  وہ begum-rokeya-stamp_092017105140آنے جانے کے لئے ہوائی انجن سے اڑتی ہیں۔  وہ جنگ کے خلاف ہیں۔  سلطانہ کا خواب کروڑوں خواتین کی بدحالی اور درد سے نکلا خواب تھا۔  خواتین کی بدحالی اور درد کی شدّت اوپری طور پر آج بھلےہی کم دکھتی ہو، مگر وہ ختم نہیں ہوئے ہیں۔  یعنی سلطانہ کا خواب زندہ ہے۔

ان کو ہندی / اردو میں رقیہ، بنگلہ میں روکیّا کے نام سے جانا جاتا ہے۔  عام طور پر لوگ کوئی ایک ایسا کام کرتے ہیں، جو دنیا میں ان کو دیوتا بنا دیتا ہے۔  آنے والی نسلیں اسی ایک کام کی وجہ سے ان کو یاد رکھتی ہیں۔  رقیہ ایک شخص کا نام ضرور ہے پر ان کے کام کئی ہیں۔  وہ ادیبہ ہیں۔  مگر ادب کی دنیا میں وہ ناول نگار ہیں۔  افسانہ نگار ہیں۔  طنزنگاری کا بہترین نمونہ ہیں۔  مفکر ہیں۔  مضمون لکھنے میں غضب کی ماہر ہیں۔  وہ لڑکیوں کی تعلیم کی حمایتی ہیں۔  مگر ان کی حمایت لکھنے تک محدود نہیں ہے۔  وہ لڑکیوں کے لئے اسکول قائم کرتی ہیں۔  سب سے پہلے بھاگل پور میں کوشش کرتی ہیں۔  وہاں وہ اسکول نہیں چلا پاتیں کیونکہ چلانے نہیں دیا جاتا ہے۔  پھر 1911 میں کولکاتہ وہ اسکول قائم کرنے کا کام شروع کرتی ہیں۔  اس کام کو زندگی کا مشن بنا ڈالتی ہیں۔  اپنے شوہر سخاوت حسین سے اس کا وعدہ جو کیا تھا۔  ان کی یاد میں کولکاتہ میں جو اسکول قائم ہوا، وہی ہے-سخاوت میموریل گرلس اسکول۔  اس اسکول کے واسطے وہ ادیب سے ماہر تعلیم کی شکل میں بدل گئیں۔  یہ اسکول آج بھی کولکاتہ میں چل رہا ہے۔

رقیہ کی تخلیقات زیادہ تر بنگلہ میں ہیں۔  اکادکا انگریزی میں۔  کچھ لوگوں کا تو ماننا ہے کہ راجا رام موہن رائے اور ایشورچند ودیاساگر کی ہی طرح رقیہ نے مسلمانوں میں خاص طور پر بنگال کی مسلم خواتین میں بیداری پیدا کی۔ اسی لئے آج کے بنگلہ دیش کے اسکول و کالج جانے والی لڑکیاں کہتی ہیں، وہ نہ ہوتیں تو ہم نہ ہوتے۔

رقیہ نے جو کیا، وہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔  اسی لئے بات جہاں سے شروع ہوئی تھی، اسی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔  رقیہ کہتی ہیں،’حضرت رابعہ بصری نے کہا ہے، ‘ یا اللہ! اگر میں دوزخ کے ڈر سے عبادت کرتی ہوں تو مجھے دوزخ میں ہی ڈال دینا۔  اور اگر بہشت یعنی جنت کی امید میں عبادت کروں تو میرے لئے بہشت حرام ہو۔  ‘ اللہ کے فضل سی اپنی سماجی خدمات کے بارے میں میں بھی یہاں یہی بات کہنے کی ہمت کر رہی ہوں۔  ‘

میرا تو رواں رواں گنہ گار ہے۔

رقیہ کا انتقال 9 دسمبر 1932 کو کولکاتہ میں ہوا۔  محض 52 سال کی عمر پائی مگر اتنا کچھ کیا۔  کچھ لوگوں نے رقیہ  کا جنم بھی 9 دسمبر مانا ہے۔  بنگلہ دیش میں یہ دن رقیہ  دن کی شکل میں منایا جاتا ہے۔  وہاں کی قومی پہچان ہیں۔  مگر جو عزّت ان کو ہندوستان میں ملنی چاہیے تھی، وہ کافی دیر سے ملنی شروع ہوئی۔  وہ بھی زیادہ تر بنگلہ دیش کے معرفت مغربی بنگال میں۔

رقیہ  نے جو لکھا، جو کیا، طے جانیے اگر وہ کسی اور ریاست میں ہوتیں یا ان کا لکھا انگریزی میں ہوتا تو وہ دنیا کی چنندہ مفکروں میں گنی جاتیں۔  وہ نسوانی تحریک اور ڈسکورس کی سرخیل ہوتیں۔  رقیہ  کو وہ مقام ملنا باقی ہے۔  خاص طور پر ہندی اور اردو میں تو ان پر توجہ کی خاص ضرورت ہے۔

(مضمون نگاررقیہ کے خیالات کو بنگلہ  سے ہندی / اردو میں لانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔  رقیہ پر لگاتار لکھ رہے ہیں۔  ان دنوں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ رقیہ کی چنندہ تخلیقات کو  ڈرامائی شکل میں پیش کر رہے ہیں۔)