خبریں

جھارکھنڈ : ڈی بی ٹی کے خلاف لوگ کیوں کر رہے ہیں احتجاج؟

ایسا نہیں ہے کہ صرف کارڈ ہولڈرہی  اس نئے نظام سے ناخوش ہیں۔ کٹرپا گاؤں میں مہیلا سمیتی کی  ارکان، جو راشن  ڈسٹری بیوشن کا کام کرتی ہیں ،ان کا کہنا  ہے کہ ان کا کام اب بہت زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔

DBT_Nagri

رانچی (جھارکھنڈ): گزشتہ چند مہینوں سے، جھارکھنڈ پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم (پی ڈی ایس) تمام غلط وجوہات سے خبروں میں ہے۔ مبینہ طور پر آدھارکے سسٹم میں لنک نہیں ہونے کی وجہ سے راشن نہیں دینا اور بھوک  سےموت ،اس بات کا ثبوت ہیں کہ  کس طرح سے  لوگوں کی زندگی کو مشکل بنا یا جارہا ہے۔ اور اب، جھارکھنڈ کے رانچی ضلع کے نگری بلاک میں لوگوں کا یہ  کہنا ہے  کہ حکومت پی ڈی ایس کو پوری طرح ختم  کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

غور طلب ہے  کہ اکتوبر 2017 میں، جھارکھنڈ حکومت نے نگری میں پائلٹ پروجکٹ  کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا،جس کے تحت  لوگوں کو فوڈ سیکورٹی اسکیم کا براہ راست فائدہ   ملتا تھا ۔اس سے پہلے، لوگ اپنا راشن کارڈ  مقامی ڈیلر کے پاس لے جاتے تھےاور  ایک  کلوگرام چاول ایک روپے  میں خرید تے تھے ، اس کے ساتھ ترجیحات میں شامل فیملی کے   ہر فردکو پانچ کلو گرام چاول  ملتا تھا۔جبکہ  اب، سب سے پہلے  ہرگھر  کےآدھار لنکڈ  بینک اکاؤنٹ میں پیسہ منتقل  کیا جاتا ہے۔ انہیں پھر اس پیسے کو نکالنا  پڑتا ہے،اور کئی دفعہ مقامی پرگیہ   کیندریا اس کے نمائندے جو  بینک  نہیں سے حاصل کرنا پڑتا ہے  ، اس کے بعد اسے مقامی راشن ڈیلر کے پاس لے جا کر  32 روپے فی  کلوگرام چاول  خریدا جاتا ہے،جس میں سے 1 روپے فی کلو راشن کارڈ ہولڈر سے آتا ہے۔

گزشتہ 26 فروری کو نگری  بلاک کے ایک ہزار سے زائد لوگ رانچی میں جمع ہوئے  اور اس نئے سسٹم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ  پی ڈی ایس ڈیلیوری   پرانے طور  طریقوں سے ہی کی جائے۔اس مظاہرے میں  ہر عمر کے مردوں اور عورتوں نے نگری بلاک سے گورنرہاؤس   تک  مارچ  کیا ۔پانچ سیاسی جماعتوں ؛کانگریس، جھارکھنڈ مکتی  مورچہ ،  کمیونسٹ  پارٹی  آف انڈیا (مارکسسٹ)، کمیونسٹ  پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ،لیننسٹ) اور جھارکھنڈ  وکاس مورچہ سمیت  بہت سے سول سوسائٹی گروپ، رائٹ  ٹو فوڈ  کیمپین اور آل انڈیا پیپلز فورم کے ساتھ  یہ ریلی راشن بچاؤ منچ کے بینر کے تحت منعقد کی گئی تھی ۔

مقامی مہیلا سمیتی کی  ایک رکن اور لاڈا گاؤں کی رہنے والی  سوشیلانے دی دا وائر کو بتایاکہ ؛”لوگوں کو بڑی تعداد میں سڑکوں پراترنے کے لیے کس نے مجبور کیا؟ “اور یہ  نیا سسٹم کیا ہے کچھ نہیں بس مسائل کا مجموعہ ہے۔ “انہوں نے مزید کہا کہ “پہلی بات تو یہ کہ ، ہم نہیں جانتے کب پیسہ ہمارے اکاؤنٹ میں آتا ہے ، ہم  پڑھے لکھےنہیں ہیں ۔ہم آن لائن یا ایس ایم ایس کے ذریعے  یہ سب چیک نہیں کرسکتے ہیں۔ہمیں بار بار  بینک جانا  پڑتا ہے۔   آخر میں نقد رقم حاصل کرتے ہیں اور پھر راشن ڈیلر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اگر ہم ایک ماہ ڈی بی ٹی لینے کے لئے نہیں جاتے ہیں، تو وہ ہم سب کو ڈرانے کی کوشش کر تے ہیں ایک نوٹس بھیج کر کہ وہ  ”ہمیں سبسڈی دینا بندکر  دیں گے” ۔

رائٹ  ٹو  فوڈمہم کے ساتھ کام کرنے والے اسٹوڈنٹ رضاکاروں نے نگری کے 13 گاؤں میں 224 خاندانوں کے حالیہ سروے میں یہ پایا  کہ 97فیصدلوگ وہی  پرانا سسٹم  واپس  چاہتےتھے۔ ڈی بی ٹی  طریقہ  اپنانے  کے بعد سے راشن کی چار قسطوں کے بجائے  اوسطاً صرف 2.1 کے تناسب میں ملتی ہے۔ اس کی وجہ سے لوگ کام  پر نہیں جا پارہے تھے،   کیونکہ اس پروسس کی وجہ سے لوگوں کو   کئی دفعہ بینک کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔سروے میں شامل ہونے والے اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ اس پروسس کے لیے 12 گھنٹےیا تقریباً دو ورکنگ ڈے لگ جاتے ہیں۔

تسمو گاؤں سے دلیپ مہتو، یومیہ  مزدور کے طور پر 400 روپے  کماتے ہیں۔  نگری شہر میں، ان کو  بینک جانے کے لیے  پانچ کلومیٹر جانا پڑتا ہے۔ وہ سب سے پہلے وہاں یہ معلوم کرنے جاتے ہیں کہ  پیسہ  اکاؤنٹ  میں آ چکا ہے یا نہیں ، جس میں کبھی کبھار کئی دن لگتے ہیں، پھر وہ پرگیہ سینٹر  پیسہ نکالنے کے لیے جاتے ہیں ، کیونکہ بینک کے لیے یہ ٹرانزیکشن بہت چھوٹا  کام ہے، پیسہ ملنے کے بعد،  وہ واپس  اپنےگاؤں کی راشن  دکان  میں جاتے ہیں۔ انہوں نے وائر کو بتایا کہ “اس سب کا کیا حاصل ہے،ہم صرف پرانا سسٹم   واپس چاہتے ہیں “۔

ہوتواسی  گاؤں کی  سمیتا دیوی ان باتوں سے اتفاق رکھتے ہوئے کہتی ہیں کہ  “چاول  لینے کے لئے ہمیں اتنا سب کرنا پڑے گا” وہ مزید کہتی ہیں کہ ہر وہ چیز جو ہم راشن کی دکان سے خرید رہے ہیں، اس کی ادائیگی اپنی جیب سے کر رہے ہیں۔ اس کے لئے کوئی ڈی بی ٹی نہیں ہے۔ یہ سب کرکے آخر سرکار کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟ “۔وہ آگے کہتی ہیں کہ  ” حکومت  کسےبیوقوف بنانے کی کوشش کر رہی ہے  ، کیا چاول  32 روپے فی  کلوگرام  ہے ؟ اتنے پیسے میں، ہم مارکیٹ میں بہترین  چاول خرید سکتے ہیں۔ کچھ خواتین  شکایت کر رہی ہیں کہ ان کے شوہر  یہ پیسے شراب جیسی دوسری چیزوں پر، خرچ کر رہے ہیں۔ “

ایسا نہیں ہے کہ صرف کارڈ ہولڈرہی  اس نئے نظام سے ناخوش ہیں۔ کٹرپا گاؤں میں مہیلا سمیتی کی  ارکان، جو راشن  ڈسٹری بیوشن کا کام کرتی ہیں ،ان کا کہنا  ہے کہ ان کا کام اب بہت زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ “اس سے پہلے، سپلائی  آتے ہی  ہم دکانوں  کو ،دوسے تین  دنوں کے لئے کھولتے تھے، سب لوگ آکر خریداری کر لیتے   تھے۔ لیکن اب ہم یہاں پورے مہینے بیٹھنا پڑتا ہیں، اور تب بھی کو ئی نہیں آتاہے۔ ہماری لسٹ میں 120  لوگوں میں سے صرف 80  لوگوں نےاپنا راشن لیا ہے۔ ڈی بی ٹی سے پہلے، کسی بھی مہینے میں  صرف چار پانچ افراد نہیں آتے تھے۔ مہیلا سمیتی کی ایک رکن، للیتا دیوی نے کہا، “اب سامان  یہاں پڑا رہتا ہے ، اور ہمیں ہر وقت  اس کی نگرانی کرنی پڑتی ہے۔”

DBT_Nagri-4

نگری  بلاک کے ڈیولپمینٹ  افسر کلدیپ کمار کے مطابق،” پرانے سسٹم کے مقابلے نئے سسٹم میں زیادہ نقد شامل ہیں-  یہ ریاستی حکومت کی  کیش لیس اکانومی کا حصہ ہے۔ لیکن منصوبہ یہ ہے کہ جلد ہی پیسے کو براہ راست حکومت سے کارڈ ہولڈر اور پھر کارڈ ہولڈر سے راشن ڈیلر کودیاجائے گا، بغیر کسی وڈرال کے۔یہ مکمل طور پر کیش  لیس ہو گا۔ اور یہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ کوئی جعل سازی نہیں ہو رہی ہے۔”

جب اس سے متعلق ہونے والی پریشانیوں  کے بارے میں پوچھا  گیاتو ان کا کہنا تھا ” لوگ ، کسی اسکیم کے  آنےسے پہلے ہی احتجاج شروع کردیتے ہیں۔” آپ اس بارے میں کیا کر سکتے ہیں؟”، اب اپوزیشن پارٹی  اس کو ایک سیاسی مسئلہ بنارہی ہے۔ کچھ مسائل ہوسکتے ہیں، لیکن اگر لوگ   ان کو ہمارے سامنے لائیں تو ہم چیزوں کو ٹھیک کرسکتے ہیں۔ فوری طور پر احتجاج کرنے سے بہتر ہے  انتظارکرنا۔ “

بلاک سپلائی آفیسر سنیل کمار  کو لگتا ہے کہ مسائل بہت زیادہ نہیں ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ “اب تک، ہم نے 84فیصد نگری آبادی  کوڈی بی ٹی پائلٹ پروجیکٹ کے تحت  شامل کیا ہے – یہ بذات خود ایک بڑی حصولیابی ہے۔ لیکن اس  بارے میں کیا اچھا یا برا ہے، یہ  کہنا میرا  کام  نہیں ہے۔ یہ ایک سرکاری منصوبہ ہے، ہمارا  کام اس کو نافد کرنا ہے۔ جی ہاں، مسائل ہیں – لیکن کارڈ ہولڈرز آپ کو اس بارے میں بہتر بتا سکتے ہیں۔”

واضح ہو کہ ریلی میں، ایک اہم مطالبہ یہ تھا کہ یہ منصوبہ نگری سے ہٹا دیاجائے اور ریاست کے دیگر حصوں میں بھی شروع نہ  کیا جائے۔ اس ضمن میں ماہراقتصادیات جیاں دریج کا  کہنا ہے کہ ،جب دارالحکومت سے اتنے قریب لوگوں کو اس طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو فرض کیجیے کہ ان کاکیا ہوگاجو  دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں اور بینکنگ سسٹم سے بالکل ناواقف ہیں۔