حقوق انسانی

پردھان منتری جی ! کیا آپ کی حکومت کا بیٹی بچاؤ ایجنڈا یہی ہے ؟

راجستھان کے جھن جھونو  میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بیٹیوں کو لےکر جو کچھ بھی کہا، اس سے کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔

(فوٹو بشکریہ : پی آئی بی)

(فوٹو بشکریہ : پی آئی بی)

ماننا ہوگا، نریندر مودی کے چار سال کے وزیراعظم کی مدت میں ان کی شخصیت کا کم سے کم اتنا فروغ تو ہوا ہے کہ مسائل کو آسان کرنے  میں ان کی مہارت کا ان کے مخالف بھی لوہا ماننے لگے ہیں۔سو، یہ نظریہ عام ہو گیا ہے کہ اس معاملے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ خدا نخواستہ، اس کو لےکر کسی کے دل و دماغ میں پھر بھی کوئی شک  ہو تو گزشتہ آٹھ مارچ کو عالمی یوم خاتون پر راجستھان کے جھن جھونو ضلع میں قومی غذائی مشن کے افتتاح اور ‘ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ ‘ مہم کی توسیع کے وقت دی گئی ان کی تقریر سے دور ہو جانا چاہیے۔

اس تقریر میں انہوں نے، جیسے کہ ان کی پرانی عادت ہے،تبلیغی انداز میں  اپنے تئیں  ایک بےحد گمبھیر سوال پوچھا ؛وید اور وویکانند کے اس ملک میں ایسی کون سی برائی گھر کر گئی ہے کہ ہمیں اپنی بیٹیاں بچانے کے لئے بھی ہاتھ پیر جوڑنے پڑ رہے ہیں اور بجٹ طے کرکے رقم خرچ کرنا پڑ رہا ہے؟

پھر جیسے خودہی اپنے اس سوال کے بوجھ سے دب‌کر کراہنے لگے ہوں، خود سے نفرت کے جذبے سے بھر‌کر کہنے لگے کہ سوچ اٹھارہویں صدی کی ہو تو ہمیں خود کو اکیسویں صدی کا شہری کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔کراہ پھر بھی کم نہیں ہوئی تو اس کی بیخ کنی کا رام بان ڈھونڈتے ہوئے بیٹیوں کی ساس کے پاس جا پہنچے۔ کہہ دیا کہ یہ ساس آگے بڑھ‌کر بیٹیوں کو بچانے کی ذمہ داری سنبھال لیں تو کوئی مسئلہ ہی نہ رہ جائے۔ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ایک وقت تھا، جب ملکی باشندے وزیر اعظم کے ایسے ‘ رام بانوں ‘ سے بڑی بڑی امیدیں لگا لیتے تھے۔ لیکن چونکہ اب ان کی بےحسی پوری طرح اجاگر ہو چکی ہے، نئی ناامیدی سے بھر جاتے ہیں۔

اسی لئے کئی لوگ تو فوراً ہی پوچھنے لگے کہ ‘ جینئس ‘ وزیر اعظم کے پاس بیٹیوں کی مسائل کا ایسا یک مشت اور آسان سا حل تھا تو انہوں نے اس کو اپنی خوبصورت زبان پر لانے میں چار سال کیوں لگا دئے؟اقتدار میں آتے ہی بتا دیا ہوتا تو کون جانیں ابتک بیٹیاں کتنی ‘ بچ ‘ گئی ہوتیں! کس فائدہ یا لالچ میں ابتک بےکار بجٹ طے کرتے اور خرچ کرتے رہے؟

وزیر اعظم نے بیٹیوں کو خاندان  کی آن، بان اور شان بتایا توبھی ان لوگوں سے پوچھے بنا نہیں رہا گیا کہ اس میں کون سی نئی بات ہے؟  بیٹیوں کو خاندان  کی شان سے جوڑا جاتا ہے اسی لئے تو وہ ‘ آنر ‘ کے نام پر ‘ ہارر کلنگ ‘ تک کا شکار ہوتی ہیں۔

لوگوں کی یہ  پوچھ تاچھ بہت فطری ہے کیونکہ جو پدری نظام ہمارے سماج میں ابھی بھی جڑیں جمائے ہے، کہنا چاہیے اینٹھی، ہے اور بیٹیوں کی بربادی کو لےکر خود کو تھوڑا سا بھی مجرم محسوس نہیں کرتا، وزیر اعظم بھی جانےانجانے طورپر اسی کے ترجمان بن گئے ہیں۔

سارا تکیہ ساسوں پر رکھ‌کر انہوں نے جو کچھ کہا ہے، دوسرے طریقے سے اس کا مطلب یہی تو ہے کہ ساس اپنی ذمہ داری نہیں نبھا رہی ہیں، اسی لئے بیٹیاں نہیں بچ پا رہیں۔سوچیے ذرا کہ ایک طرف پدری نظام کا ایسا قہر پھیل رہا ہے کہ جو مائیں بیٹیوں کو نو مہینے تک یا جب تک اختیار کرنے پاتی ہیں، اپنے پیٹ میں اختیار کرتی ہیں، وہ بھی ان کو بچا نہیں پا رہیں اور دوسری طرف وزیر اعظم ان ساس سے لو لگا رہے ہیں، جو خود بھی پدری نظام کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں اور سب کچھ اسی کی آنکھوں سے دیکھنے کو ملعون ہیں۔

ہماری فیملیوں میں ابھی بھی بےحد فطری مانے جانے والے مرد تسلط کو، جو بیٹیوں کی ساری بربادی کا اصل ہے، نشاندہی کرنے کی کوشش سے پرہیز کرتے ہوئے وزیر اعظم یہ کہنا چاہتے ہوں کہ بیٹیوں کی تقدیر حکومت سے زیادہ ساس کے ہاتھ میں ہے، تو فطری ہی اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ مسئلے سے جڑی تلخ سچائیوں سے شترمرغوں جیسے پیش آنے کی کشمکش میں ہیں۔

ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پدری نظام غلط نہیں کہتا ، ساس کی شکل میں خواتین ہی خواتین کی سب سے بڑی دشمن ہیں۔تھوڑا گہرائی میں جا کر جانچ کریں تو یہ اسی فریبی کھیل کی علامت ہے جس کے تحت دکھیاری بیٹیوں کو کچھ خاتون سیلبرٹیوں کے، جن میں اب کئی بڑی کمپنیوں کی سی ای او بھی شامل ہو گئی ہے، نیا آسمان چھونے کی گاتھاؤں کے بہاؤ میں لا کر سنہرے دنوں کا سبزباغ دکھایا جاتا ہے۔

ادھر کئی لوگ ان سے اس بات پر بھی فخر کرنے کو کہہ رہے ہیں کہ ملک کے ارب پتیوں میں آٹھ خواتین بھی شامل ہو گئی ہیں۔دراصل، اس بہانے وہ بیٹیوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ حکومت ہاتھ پر ہاتھ تھامے نہیں بیٹھی اور ان کے لئے ایسے غالیچہ بچھا رہی ہے، جس پر چل‌کر وہ ارب پتیوں میں اپنا نام لکھا سکتی ہیں۔

گزشتہ آٹھ مارچ کو راجستھان میں بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ پروگرام کے دوران بات چیت کرتے وزیر اعظم نریندر مودی۔  (فوٹو بشکریہ : پی آئی بی)

گزشتہ آٹھ مارچ کو راجستھان میں بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ پروگرام کے دوران بات چیت کرتے وزیر اعظم نریندر مودی۔  (فوٹو بشکریہ : پی آئی بی)

پھر بھی نہیں لکھا پا رہیں تو اس کو نہیں اپنی قسمت کو اور نہیں تو ساسوں کو کوسیں؟  لیکن ایسا ہے تو بیچاری ساس کس کو کوسیں، جو خود بھی ایک دن بیٹی اور بہو ہی تھیں اور پدری نظام نے ان کو ‘ کوئلہ بھئی نہ راکھ ‘ والی حالات میں پھنسا کر ساس اور اس سے بھی زیادہ ‘ کنٹائن ‘ بنا ڈالا تاکہ اپنے سر آئی بلاؤں کے سارے ٹھیکرے ان کے سر پھوڑنے کی سہولیت پا سکے۔

ورنہ وزیر اعظم کو پتا ہے کہ بیٹیوں کی تصویریں سرکاری اعداد و شمار میں بھلےہی سفید ہوں، آزاد اعداد و شمار میں دھندلی ہی نظر آتی ہیں، تو ساس کی نہیں، حکومتوں کی وجہ سے۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ خواتین اور مردوں کے ایک جیسے کام کی تنخواہ میں بیس فیصدی کا فرق ہے، بی سی سی آئی کے ذریعے اعلان شدہ معاہدے میں مرد کرکٹروں کا اے پلس زمرے کا محنتانہ سات کروڑ روپے ہے تو اے زمرے کی خاتون کرکٹروں کا محض پچاس لاکھ، اعلیٰ جمہوری‎ اداروں میں تینتیس فیصدی خاتون ریزرویشن کا معاملہ لمبے عرصے سے رکا ہوا ہے، ہر منٹ 38 خواتین جرائم کا شکار ہو رہی ہیں اور ان کی (وزیر اعظم کے) بدقسمتی سے ان سارے ناانصافیوں میں ساس کے بجائے ان کی حکومت کا ہی کردار ہے۔

گزشتہ دنوں وزیر اعظم نے پارلیامنٹ کی خاتون ممبر رینکا چودھری کی ہنسی کا موازنہ  شورپنکھا سےکر ان کا مذاق اڑایا تو اس کے لئے ان کو کسی ساس نے نہیں اکسایا تھا۔پھولپور میں وزیر اعظم کی پارٹی کے انتخابی جلسہ میں اس کے اتر پردیشکے اسٹامپ اور شہری پرواز وزیر نندگوپال گپتا نندی نے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی موجودگی میں مایاوتی کو شورپنکھا بتلایا اور نہایت ذلیل طریقے سے کہا کہ اس زمانے میں بھی تمہاری شادی نہیں ہوگی، توبھی وہ ساس کے ذریعے نہیں حکومت اور پدری نظام کے ذریعے محفوظ تھے۔

بی جے پی کے نائب صدر رہے مشہور دیاشنکر سنگھ کی طرح، جنہوں نے نندی کی ہی طرح مایاوتی کے خلاف بےحد توہین آمیز تبصرہ کیا تھا۔لیکن وزیر اعظم کی ‘ چالاکی ‘ دیکھیے کہ انہوں نے ان ساری حقیقتوں سے تو نگاہیں پھیرے ہی رکھیں، یہ دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا کہ جس راجستھان میں وہ ساس سے بیٹیوں کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہونے کو کہہ رہے ہیں، وہاں کی حکومت بیٹیوں سے کتنی جانبداری کر رہی ہے۔

وہ سرکاری کالجوں میں طلبہ کے لئے ایسا ڈریس کوڈ نافذ کرانا چاہتی ہے، جس میں لڑکے تو پتلون شرٹ اور جوتے موزے پہنیں اور سردیوں میں جرسی ڈال لیں، لیکن لڑکیاں شلوار قمیص ،دوپٹہ یا ساڑی اور سردیوں میں اوپر سے کارڈگن پہنیں۔

وزیر اعظم اس 18ویں صدی کے سرکاری سوچ کے لئے کس ساس کو سزا دے سکتے ہیں یا کون سی ساس بیٹیوں کو اس جانبداری سے نجات دلا سکتی ہے؟ابھی تو جینس پر پابندی کے لئے بےکار کی دلیل دینے والے ان کو یہ کہنے کی بھی اجازت نہیں دے رہے کہ کپڑوں کا آداب اور سنسکار سے کوئی واسطہ ہوتا توزعفرانی سنسکار کو لےکر بار بار سوال نہ اٹھتے۔

وزیر اعظم اس حکومت سے اتنا تو پوچھ ہی سکتے تھے کہ سنسکار کے نام پر بیٹیوں پر پابندیاں تھوپ‌کر وہ کیسا سماج بنانا چاہتی ہے؟  اور کیا ایسا سماج سچ مچ آگے بڑھ سکتا ہے؟انہوں نے نہیں پوچھا تو کئی حلقوں میں یہ سوال پوچھا جانے لگا ہے کہ تب وہ قومی غذائی مشن کے افتتاح اور ‘ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ ‘ مہم کی توسیع کے لئے راجستھان گئے ہی کیوں؟

اس کا  افتتاح دہلییا ہریانہ سے کیوں نہیں کیا، جہاں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے؟چونکہ سوال کرنے والے  لوگ اب ان کے اندازِ حکومت سے آگاہ ہو چکے ہیں، اس لئے جواب آنے میں بھی دیر نہیں لگ رہی،وہ وہاں بیٹیوں کو بچانے کے مقصد کے تئیں سپردگی یا دریادلی کے بھاؤ سے نہیں سیاسی مقصد سے متاثر ہو کر گئے تھے۔

پچھلے سات مہینوں میں تیسری بار وہاں پہنچے تھے، کیونکہ وہاں جلدہی انتخاب ہونے والے ہیں۔  ہاں، وہاں کے ضمنی انتخاب میں بھول بھلیوں بی جے پی کو پھر سے کھڑی کرنے کے لئے آنے والے مہینوں میں کچھ اور مواقع پر وہاں دکھ سکتے ہیں۔

ان کے وہاں جانے سے صاف ہے کہ اقتدار اور حکومتوں میں دریادلی کی کمی اور مسائل کی پیچیدگیوں میں جانے کے بجائے فریب دینے  اورآسان کرنےکا سیلاب لانا ہی بیٹیوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ان اقتدار اور حکومتوں نے بیٹیوں کے درمیان ایک چھوٹاسا ہی سہی، پدری نظام سے احسان مند طبقہ پیدا کر دیا ہے اور اس کی نام نہاد کامیابی کی کہانیوں  سے پیدا ہوئے توقع اور انتظار کی کشتیوں میں پھنسا کر بیٹیوں کو ان کی زنجیروں کے پورے سچ سے آگاہ نہیں ہونے دینا چاہتیں۔

بیٹیوں کے لئے اس کا ایک ہی مطلب ہے-ان کی لڑائی ابھی بھی لمبی ہے اور ان کو وزیر اعظم سے پوچھنا ہی ہوگا کہ پدری نظام کے جس زہر کو ان کی حکومت تک نکالنے کے بجائے پھیلانے میں لگی ہے، بیچاری ساس اس کو کیسے نکال پائیں‌گی؟

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔  )