خبریں

اقلیتوں کے ماب لنچنگ سے جڑے واقعات کا اعداد و شمار نہیں رکھتا این سی آر بی : حکومت

لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں ریاست کے وزیر داخلہ ہنس راج اہیر نے کہا کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو ملک میں بھیڑ کے ذریعے اقلیتوں کے قتل کےواقعات سے متعلق مخصوص اعداد و شمار نہیں رکھتا ہے۔

Muslims hold banners as they protest against the recent cases of mob lynching of Muslims who were accused of possessing beef, after offering Eid al-Fitr prayers in Ahmedabad, India June 26, 2017. REUTERS/Amit Dave - RTS18NUG

علامتی تصویر : رائٹرز

نئی دہلی : لوک سبھا میں منگل کو ایم بی محمد بدرالدجیٰ خان اور محمد سلیم نے اقلیتوں کو مبینہ طور پر بھیڑ کے ذریعے مار دیےجانے کے واقعات سے جڑا سوال پوچھا۔  جس کے جواب میں حکومت نے بتایا کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی)ایسے واقعات سے متعلق مخصوص اعداد و شمار نہیں رکھتا ہے۔لوک سبھا میں سوال کے تحریر شدہ جواب میں وزیر مملکت برائے داخلہ ہنس راج گنگارام اہیر نے کہا، ‘نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو ملک میں بھیڑ کے ذریعے اقلیتوں کے قتل کے واقعات سے متعلق  مخصوص اعداد و شمار نہیں رکھتا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے آئین کی ساتویں فہرست کے تحت پولیس اور عوامی نظام ریاست کا موضوع ہے۔  قانون اور نظام بنائے رکھنا اور جان و مال کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری خصوصاً ریاستی حکومتوں کی ہوتی ہے۔  ریاستی حکومتیں قوانین کے موجودہ اہتمام کے تحت ایسے جرائم سے نمٹنے میں قابل ہیں۔

اہیر مذیدنے کہا کہ وزارت داخلہ کے ذریعے ریاستوں اور یونین ٹیریٹری ریاستوں کو وقت وقت پر صلاح و مشورہ خط جاری کئے جاتے ہیں۔  اس میں یہ متعین کرنا ضروری ہے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والے لوگوں پر فوراً کاروائی کی جائے اور قانون کے مطابق ان کو سزا مقرر کی جائے۔  ریاستوں کو صلاح دی گئی ہے کہ ایسے لوگوں کے تئیں کسی قسم کی ہمدردی نہ برتی جائے اور بنا کسی استثنا کے ان پر مکمل طور پر قانونی کاروائی کی جائے۔

غور طلب ہے کہ سال 2015 میں 28 ستمبر کی رات میں اتر پردیش میں دادری کے نزدیک بساہڑا گاؤں میں بیف کھانے اور رکھنے کے شک میں بھیڑ نے 52 سال کے محمد اخلاق کا پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا تھا۔اس کے بعد سے ہندوستان میں گائے اور گورکشا کے نام پر ہونے والے تشدد میں اضافہ درج کیا گیا ۔  India Spendویب سائٹ کے مطابق سال 2010 سے 2017 کے درمیان گائے اور گورکشا کے نام پر ہوئے تشدد کے 52 فیصد واقعات میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔  اس کے علاوہ کل 60 واقعات میں مارے گئے 25 لوگوں میں 84 فیصد مسلم تھے۔رپورٹ کے مطابق اس میں سے 97 فیصد واقعات مئی 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت میں آنے کے بعد ہوئے ہیں۔

(फोटो साभार: इंडिया स्पेंड)

انڈیا اسپینڈ کی طرف سے کئے گئے تجزیے میں پتا چلا ہے کہ 25 جون 2017 تک ہوئے ان 60 واقعات میں سے 30 بی جے پی حکومتی ریاستوں میں ہوئے ہیں۔تقریباً آٹھ سالوں (2017۔2010) کے دوران جو 25 لوگ مارے گئے ان میں 21 مسلم تھے۔  ان واقعات میں 139 لوگ زخمی ہوئے۔  تجزیے میں پایا گیا کہ آدھے سے زیادہ (52 فیصد) واقعات افواہوں کی بنیاد پر انجام دیے گئے۔انڈیا اسپینڈ کے مطابق 29 ریاستوں میں سے 19 میں تشدد کے یہ واقعات ہوئے۔

اتر  پردیش میں نو، ہریانہ میں آٹھ، کرناٹک میں چھے، گجرات میں پانچ، راجستھان میں پانچ، دلی میں پانچ اور مدھیہ پردیش میں ایسے چار واقعات ہوئے۔ ان 60 میں سے 12 واقعات (تقریباً 20 فیصد) مغربی بنگال اور اوڈشا کے ساتھ جنوب یا شمال مشرق کی ریاستوں میں رونما ہوئےلیکن ان میں سے آدھے واقعات اکیلے کرناٹک ریاست میں ہوئے۔  گورکشا کے نام پر شمال مشرق سے صرف دو لوگوں کے قتل کا معاملہ 30 اپریل 2017 کو سامنے آیا تھا۔

غور طلب ہے کہ اس سے پہلے گزشتہ سال ایسی خبریں آئی تھیں کہ این سی آر بی بھیڑ کے ذریعے کیے گئے قتلوں کے بھی اعداد و شمار رکھنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق تب این سی آر بی ڈائریکٹر نے بتایا تھا، ‘ ایک بیٹھک ہوئی ہے۔  ابھی یہ منصوبہ کا شروعاتی مرحلہ ہے۔  فی الحال بھیڑ کے ذریعے قتلوں یا ماب لنچنگ کا ابھی ایسا کوئی مرکزی سطح پر سالانہ ڈیٹا دستیاب نہیں ہے جہاں چوری، جادوٹونے، بچوں کی چوری یا گورکشا کے نام پر بھیڑ کے ذریعے قتلوں کے واقعات سے متعلق جانکاری ہو۔  ‘

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)