خبریں

بھیماکورےگاؤں تشدد میں درج تمام معاملے واپس لیے جائیں گے : وزیراعلیٰ

مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیویندر فڑنویس نے اسمبلی میں کہا کہ سنگین معاملوں پر فیصلہ حکومت کی ایک کمیٹی کے ذریعے لیا جائے‌گا۔

پونے ضلع کے بھیما کورے گاؤں میں تشدد کے دوران جلائی گئی گاڑی/ فوٹو: پی ٹی آئی

پونے ضلع کے بھیما کورے گاؤں میں تشدد کے دوران جلائی گئی گاڑی/ فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: مہاراشٹر کے پونے ضلع کے بھیماکورےگاؤں میں اس سال کی شروعات میں ہوئے تشدد سے متعلق درج ہوئےتمام معاملے واپس لئے جائیں‌گے۔  وزیراعلی دیویندر فڑنویس نے  گزشتہ منگل کو اسمبلی میں یہ بھی واضح کیا تھا کہ بھیماکورےگاؤں تشدد سے جڑے سنگین معاملے واپس لینے کا فیصلہ تفتیش کے لئے تشکیل شدہ کمیٹی کے ذریعے ہی لیا جائے‌گا۔حالانکہ وزیراعلی فڑنویس نے تشدد بھڑکانے کے ملزم اور شیو پرتشٹھان ہندوستان کے بانی سمبھاجی بھڑے کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔  معلوم ہو کہ سمبھاجی بھڑے اور ملند ایکبوٹے تشدد بھڑکانے کے ملزم ہیں۔

فڑنویس نے کہا ہے کہ ایڈیشنل ڈائرکٹرجنرل آف پولیس(اے ڈی جی لاء اینڈ آرڈر) کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل کرے‌گی جو تین مہینے میں اپنی رپورٹ دے‌گی اور اس کے بعد فیصلہ لیا جائے‌گا۔  انہوں نے یہ بھی صاف کہا کہ قصورواروں کو بخشا نہیں جائے‌گا۔مراٹھی اخبار لوک ستا کی خبر کے مطابق بھیماکورےگاؤں تشدد معاملے میں 58 معاملے درج کئے گئے تھے اور کل 162 گرفتاری ہوئی تھی۔وزیراعلی نے بتایا کہ بھیماکورےگاؤں تشدد میں ریاست کو تقریباً 13 کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ہے۔  خاص طورپر بھیماکورےگاؤں میں 9 کروڑ 45 لاکھ اور 15 روپئےکا نقصان ہوا ہے جس میں دلتوں کو ایک کروڑ سے زیادہ، مسلم کمیونٹی کو تقریباً 85 لاکھ روپئے کا نقصان ہوا ہے۔انہوں نے یہ بھی صاف کیا ہے کہ تشدد کے دوران جن کا نقصان ہوا ہے ان کو حکومت کی طرف سے اقتصادی مدد دی جائے‌گی۔

نوبھارت ٹائمس کی خبر کے مطابق، فڑنویس نے ایوان کو بتایا کہ اس پورے معاملے کی عدالتی تفتیش کولکاتا ہائی کورٹ کے سابق جج جےاین پاٹل سے کرائی جا رہی ہے۔  تفتیش کمیٹی میں ریاست کے چیف سکریٹری سمت ملک بطور ممبر شامل کئے گئے ہیں۔انھوں نے مزید بتایا کہ بھیماکورےگاؤں تشدد کے بعد 622 معاملے درج کئے گئے اور 1199 لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔  درج معاملے میں 350 لوگوں کے خلاف سنگین معاملے اور 17 کے خلاف ایٹراسٹی ایکٹ کے تحت معاملے درج کئے گئے ہیں۔  رسٹرکٹو کارروائی 2254 لوگوں کے خلاف کی گئی۔  اس میں سے 22 لوگوں کے علاوہ سبھی کو ضمانت مل چکی ہے۔وزیراعلی نے یہ بھی کہا کہ حزب مخالف نے وہاں پر ‘ ایلگار کونسل ‘ کا انعقاد کیا جس میں باہری لوگ آئے۔  ان کے بیانات سے یہاں کا ماحول بگڑا اور حالت تشویشناک بن گئی تھی۔  ایسا ماحول بنایا گیا کہ جیسے سبھی کو لڑائی پر جانا ہے۔

وزیراعلی نے کہا کہ بھیماکورےگاؤں کے پاس ودھو گاؤں میں واقع چھترپتی سمبھاجی مہاراج کے مزار کو ریاستی حکومت اپنے قبضے میں لے‌گی۔  مزار پر تمام ضروری سہولیات دستیاب کرائی جائیں‌گی۔اس کے علاوہ بھیماکورےگاؤں لڑائی کی یادگار کے پاس عقیدت مند کو آنےجانے کے لئے ایک پل بنایا جائے‌گا۔  یادگاری مقام تک جانے کے لئے بہت ہی تنگ راستہ ہےجس کو چوڑا کیا جائے‌گا۔  اس کے لئے زمین حاصل کرنی پڑی تو حکومت کرے‌گی۔

ملند ایکبوٹے/ فوٹو: فیس بک

ملند ایکبوٹے/ فوٹو: فیس بک

بھیماکورےگاؤں تشدد معاملے میں خاص ملزم ملند ایکبوٹے کی پیشگی ضمانت خارج ہو گئی ہے۔  ٹائمس آف انڈیا کی خبر کے مطابق پونے پولیس نے بدھ کو ایکبوٹے کو حراست میں لے لیا ہے۔ملند ایکبوٹے ایک ہندووادی تنظیم سمست ہندو اگھاڑی کے بانی ہیں اور مہاراشٹر میں ایک جنوری کو ہوئے بھیما کورے گاؤں  تشددکے اہم ملزم ہیں۔  پونے ضلع‎ کے بھیماکورےگاؤں جنگ کی 200ویں سال گرہ کے موقع پر ایک جنوری کو بھڑکے تشدد مہاراشٹر کے کچھ دوسرے شہروں تک پھیل گئے تھا۔  تشدد میں ایک شخص کی موت ہو گئی تھی اور کئی لوگ زخمی ہوئے تھے۔سپریم کورٹ کے ذریعے ملند کو 14 مارچ تک پیشگی ضمانت دی تھی جو بدھ کو ختم ہو گئی۔  انہوں نے پیشگی ضمانت کی ایک اور عرضی داخل کی تھی جس کو سپریم کورٹ نے خارج کر دیا۔

بھیماکورےگاؤں کی لڑائی ایک جنوری 1818 کو لڑی گئی تھی۔  اس لڑائی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج نے پیشوا کی فوج کو ہرایا تھا۔  ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں بیشتر دلت (مہار) کمیونٹی کے فوجی شامل تھے۔  اس لئے دلت کمیونٹی کے لوگ ہر سال برٹش فوج کی اس جیت کا جشن مناتے ہیں۔ کچھ مفکر اور دانشور اس لڑائی کو پسماندہ ذاتوں کی اعلیٰ ذاتوں پر جیت‌کے کی صورت میں دیکھتے ہیں۔