فکر و نظر

رویش کمار کا بلاگ: رام سے کیا کام،چھلکائیے جام ،بی جے پی میں نریش آئے ہیں

بد عنوانی ہندوستانی  سیاست کی روح ہے۔  ا س کے جسم پر راشٹرواد اور سیکولرزم اوڑھ‌کر سب نوٹنکی کرتے ہیں۔

سوموار کو دہلی میں بی جے پی کی رکنیت حاصل کرتے نریش اگروال (فوٹو : پی ٹی آئی)

سوموار کو دہلی میں بی جے پی کی رکنیت حاصل کرتے نریش اگروال (فوٹو : پی ٹی آئی)

’ وہسکی میں وشنو بسے، رم میں شری رام، جن میں ماتا جانکی، ٹھرے میں ہنومان۔ ‘

مذکورہ بیان سنت تلسی داس کے نہیں بلکہ سنت نریش اگروال کے ہیں، جو سماجوادی پارٹی سے نکل‌کر بی جے پی میں آ چکے ہیں۔ جولائی 2017 میں جب راجیہ سبھا میں انہوں نے میٹھے بول کہے تھے تب بی جے پی کے رہنما پر مشتعل ہوئے تھے۔  چینلوں پر ہندو و مسلم ڈبیٹ کی محفل سجی تھی۔  عوام کو بہلانے کا موقع مل گیا تھا۔

وہ بھی غصے میں اصل سوالوں کو چھوڑ کر اس غصے کو پی رہی تھی کہ کیا اس ملک میں رام کے ساتھ اب یہ بھی ہوگا۔  چینل سے لےکر سڑکوں پر برداشت کے باہر کا ماحول بنایا گیا۔اس کا فائدہ اٹھا کر فرقہ پرستی کوٹ کوٹ کر بھری گئی تھی۔  اگروال کو تحریری معافی مانگنی پڑی تھی۔  اس بیان کے آٹھ مہینے کے اندر نریش اگروال بی جے پی میں ہیں۔  ریل وزیر ان کو چادر اوڑھا کر استقبال کر رہے تھے۔

اس وقت کیا کیا نہیں کہا گیا۔  راکیش سنہا نے ٹوئٹ کیا تھا کہ نریش اگروال کی رکنیت مسترر کرنے کی کارروائی کی جانی چاہیے ۔  پارلیامنٹ سے نکال دیا جانا چاہیے۔  نیشنل جانچ ایجنسی این آئی اےاور را پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات کی تفتیش کرنی چاہیے۔

امید ہے این آئی اے نے اپنی تفتیش پوری کر امت شاہ کو رپورٹ سونپ دی ہوگی۔  اس سے ایک بات تو ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی جس کو پاکستان کا ایجنٹ کہتی ہے، غدار وطن کہتی ہے، اس کو بھی اپنی پارٹی میں لے سکتی ہے۔ایک بی جے پی رہنما نے کہا تھا کہ نریش اگروال کا منھ کالا کرنے والے کو ایک لاکھ کا انعام ملے‌گا۔  بیچارا وہ لیڈراب اسی نریش اگروال کے لئے پھول مالا لےکر کھڑا رہے‌گا۔ہم سیاست میں بہت بھولے ہیں۔  یہ سب بیان رہنما بہت دور کی سوچ‌کر دیتے ہیں۔  ممکن ہے اگروال جی نے وہسکی میں وشنو بسے، رم میں شری رام بول‌کر بی جے پی کا ہی کام کیا ہوگا تاکہ ہنگامہ ہو، فرقہ پرستی پھیلے، نفرت پھیلے اور پارٹی کا کام ہو جائے۔  اب وہی نریش اگروال بی جے پی میں ہیں۔

جولائی 2015 میں بی جے پی کی پارلیامانی کمیٹی نے کانگریس کی حکومت والی  ریاستوں میں بد عنوانی پر ایک کتابچہ نکالا۔  پہلے صفحے پر آسام کے ہمنتا بسوا شرما پر الزام لکھا ہوا تھا، ایک مہینے بعد وہی بی جے پی ہمنتا بیسوا شرما کا استقبال کر رہی تھی۔اس سے پہلے بی جے پی ہمنتا بیسوا شرما پر گھوم گھوم کر الزام لگاتی تھی کہ یہ گگوئی حکومت کا سب سے خراب چہرہ ہے۔  ایک مہینے بعد ہمنتا بیسوا شرما بی جے پی میں شامل ہو گئے۔میڈیا نے چالاکی سے اس سوال کو ہلکا کر دیا اور آپ اس وقت کے جتنے بھی تجزیے گوگل سے نکال‌کر پڑھیں‌گے، سب میں لکھا ملے‌گا کہ راہل گاندھی نے ان سے بات نہیں کی اس لئے اس  نے کانگریس چھوڑ دیا۔وہ ہمنتا بیسوا شرما پر لگے بد عنوانی کے الزام نہیں لگا رہے تھے بلکہ راہل گاندھی کے غرور کے سوال کو بڑا بنا رہے تھے۔

وہ وقت تھا جب مودی حکومت یا بی جے پی کے خلاف کہنے پر آئی ٹی سیل اور حمایتی ٹوٹ پڑتے تھے۔  عوام بھی جنون میں ان سوالوں پر غور نہیں کر رہی تھی۔اس نے دھیان ہی نہیں دیا کہ جس ہمنتا بیسوا شرما پر بی جے پی کتابچہ نکال چکی ہے وہ شمال مشرق میں ان کا ہیرو ہے۔  آپ آسام کے وزیراعلیٰ سونووال سے زیادہ اس رہنما کے بارے میں زیادہ سنیں‌گے۔  کہاں ایم ایل اے خریدنا ہے، کہاں حکومت بنانی ہے۔

9 اپریل 2016 کو امت شاہ نے کہا تھا کہ ہمنتا بیسوا شرما کے خلاف سارے الزامات کی جانچ ہوگی۔  اپوزیشن کا کوئی رہنما ہوتا ہے تو سی بی آئی اوورٹائم کرتی مگر اپنے رہنماؤں کی تفتیش بھول جاتے ہیں۔سب کو پتا ہے ہمنتا بیسوا شرما کی امیج کے بارے میں۔  ایسے رہنما جب دوسری جماعتوں میں ہوتے ہیں تو بڑے بدعنوان ہو جاتے ہیں مگر بی جے پی میں ہوتے ہیں تو پالیسی میکر ہوتے ہیں۔

آسام میں ملی جیت‌کے بعد ہمنتا بیسوا شرما کو مٹھائی کھلاتے سروانند سونووال (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

آسام میں ملی جیت‌کے بعد ہمنتا بیسوا شرما کو مٹھائی کھلاتے سروانند سونووال (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

لیکن ہمنتا بیسوا شرما کی آمد پر ایک شخص نے مخالفت کی تھی۔  آئی آئی ایم احمد آباد سے سیدھے بی جے پی جوائن کرنے والے پردوت بوہرا نے ہمنتا بیسواں شرما کی بی جے پی میں شامل ہونے پر امت شاہ کو ایک خط لکھا اور دس سال سے زیادہ وقت تک بی جے پی میں رہنے کے بعد پارٹی چھوڑ دی۔امریکہ میں ایک ڈپارٹمنٹ آف جسٹس ہے جس نے 7 جولائی 2015 کو لوئی برجر کمپنی کے خلاف مقدمہ کیا کہ اس نے ہندوستان سمیت کئی ممالک میں رشوت دی ہے۔  سب سے زیادہ رشوت ہندوستان کے افسروں کو دی ہے۔

اس کمپنی کو گووا اور آسام میں پانی کی سپلائی کے معاملے میں کنسلٹینسی کا کام ملا تھا۔  اس چارج شیٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ کمپنی نے افسروں کے ساتھ ایک وزیر کو بھی رشوت دی ہے۔  بی جے پی نے پبلک میں شرما کے خلاف الزام لگائے تھے۔تب سونووال مرکز میں وزیر تھی، انہوں نے ترن گگوئی سے پوچھا تھا کہ وہ کیوں خاموش ہیں۔  آج سونووال خاموش ہیں اور شرما انہی کے ساتھ وزیر ہیں۔  اس معاملے کی جانچ‌ کر رہی سی آئی ڈی تین تین بار کورٹ میں ڈانٹ کھا چکی ہے کہ جانچ میں دیری کیوں ہو رہی ہے۔

نہ کھاؤں‌گا نہ کھانے دوں‌گا۔  2019 میں جب وزیر اعظم نریندر مودی عوام کے درمیان جائیں تو ان کو اپنا نعرہ بدل دینا چاہیے۔  جو کھایا ہے اس کو بلاؤں‌گا، جو دے دے‌گا اس کو بھگاؤں‌گا۔ہمنتا بیسوا شرما پر الزام لگاکر، اپنے ہی الزامات کا تھوک گھونٹ‌کر بی جے پی نے شمال مشرق میں جو کامیابی حاصل کی ہے امید ہے کہ وہی کامیابی وہسکی میں وشنو اور رم میں شری رام کی زیارت کرنے والے نریش اگروال یوپی میں دلا دیں‌گے۔

بد عنوانی کا سوال عوام کو بیوقوف بنانے کا ہوتا ہے۔  اخلاقیات کا سوال ہم قلمکاروں کے پاس ہی بچا ہوتا ہے۔  عوام بھی ان سوالوں کو نظرانداز کر دیتی ہے۔ہر جماعت کا یہی حال ہے۔  آپ حزب مخالف کی بھی گارنٹی نہیں لے سکتے کہ اس کے یہاں ایسے رہنما نہیں ہیں اور ایسے رہنما کہیں اور سے نہیں آئیں‌گے۔  یہ بات از اکوول ٹو کے لئے نہیں کہہ رہا بلکہ یہ بتانے کے لئے آپ رائےدہندگان کے طور پر الو بننے کے لئے مجبورہیں۔

آپ مخالف ہوکر بھی الو بن سکتے ہیں اور حامی ہوکر الو بن سکتے ہیں۔  ہندوستان کی عوام ان دوچار پارٹیوں میں الجھ گئی ہے۔  اخلاقیات کو قائم رکھنے کا سوال بےکار سوال ہے۔رام کو جم کر گالی دو، رام مندر والوں کی پارٹی میں مل جاؤ۔  کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ حزب مخالف جماعتوں کے سارے خراب، بددماغ بی جے پی میں چلے جائیں اور بنا کچھ ہمارے بڑے بدعنوان حزب مخالف جماعت اپنےآپ ایماندار ہو جائیں!

بد عنوانی ہندوستانی سیاست کی روح ہے۔  ا س کے جسم پر راشٹرواد اور سیکولرزم اوڑھ‌کر یہ سب نوٹنکی کرتے ہیں۔سیاست کو بدلنا ہے تو کانگریس اور بی جے پی سے آگے سوچیے۔  کچھ نیا سوچیے اور نیا کیجئے۔  ورنہ از اکول ٹو کرتے رہیے۔  اس انتخاب میں بھی الو بنے، اگلے انتخاب میں بھی الو بنیں‌گے۔

(بہ شکریہ قصبہ )