فکر و نظر

گورکھ پور اور پھول پور میں بی جے پی کی ہار پر حیرت نہیں ہونی چاہیے

گورکھ پور سے گراؤنڈ رپورٹ : مارچ 2017 کے بعد یوپی کی سیاست میں نئی تبدیلی کی جوکمزور آوازیں اٹھ رہی تھیں اس کو سنا نہیں گیا۔ یہ آوازیں اس انتخاب میں بہت جارحانہ تھیں لیکن اس کو نظرانداز کر دیا گیا۔ اب جب اس نے اپنا اثر دکھا دیا تو سبھی حیران ہیں۔

Yogi Facebook 2

گورکھ پور اور پھول پور ضمنی انتخاب میں بی جے پی کی ہار کو خاص  رجحان کی میڈیا میں بڑے تعجب خیز اندازمیں لیا جا رہا ہے لیکن یہ اتنا حیرت انگیز بھی نہیں ہے۔مارچ 2017 کے بعد یوپی کی سیاست میں نئی تبدیلی کی جو آوازیں دھیمی آواز میں اٹھ رہی تھیں، اس کو سنا نہیں گیا۔ یہ آوازیں اس انتخاب میں بہت جارحانہ تھیں لیکن اس کو نظرانداز کر دیا گیا۔ اب جب اس نے اپنا اثر دکھا دیا ہے، تو اس کو حیرت سے دیکھا جا رہا ہے۔دیر پااثر والے اس انتخابی نتیجے کی اسکرپٹ 2017 کے اسمبلی انتخاب میں ایس پی اور بی ایس پی  کی کراری ہار‌کے بعد ہی لکھی جانے لگی تھی۔ ‘ بوا ‘ اور ‘ ببوا’ میں نزدیکی بڑھنے لگی تھی۔

ایس پی  نئی سوشل انجینئرنگ کر رہی تھی۔ اس کو بی جے پی اور اس کے اعلیٰ رہنما دیکھ اور سمجھ بھی رہے تھے لیکن لگاتار جیت نے ان کی حد سے زیادہ خوداعتمادی کو تکبر میں بدل دیا تھا اور اس کو چیلنج کے روپ میں لینے کے بجائے وہ اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔میونسپل انتخاب کے نتیجوں میں بھی اس ضمنی انتخاب کے ممکنہ نتیجوں کی جھلک دکھی تھی لیکن بی جے پی ہی نہیں اہم رجحان کی میڈیا نے اس کا غلط تجزیہ کیا۔ڈپٹی سی ایم کی اپنے اڈے میں ہار ہوئی تھی۔ سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ کے وارڈ میں بی جے پی امیدوار ہار گیا تھا۔ نگرپالیکاؤں اور نگر پنچائتوں میں ایس پی ا ور بی ایس پی امیدوار بڑی تعداد میں جیتے تھے لیکن اس کا نوٹس ہی نہیں لیا گیا۔نتیجہ سامنے ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے بعد بی جے پی کے سب سے بڑے پوسٹر بوائے، ہندتوا کے سب سے بڑے برانڈ یوگی آدتیہ ناتھ اور وزیراعلیٰ بننے کا خواب دیکھنے والے بڑبولے ڈپٹی  وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ اپنے ہی گڑھ میں گردوغبار میں گردآلود ہو گئے۔

گورکھ پور اور پھول پور میں بی جے پی کی ہار ایسی ہار ہے جس کا اثر ملک کی سیاست پر پڑنا طے ہے۔ اس ہار‌کے بعد بی جے پی کے اندر یوپی کی سیاست میں نئے داخلی انتشار پنپیں‌گے جس کی شروعات پہلے سے ہو چکی ہے جس کو بی جے پی قیادت کے لئے حل کرنا مشکل ہوگا۔ گورکھ پور، یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی سیٹ تھی تو پھول پور نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کی۔ دونوں جگہوں پر ہار بی جے پی کے لئے بڑا دھکا ہے لیکن بی جے پی کو گورکھ پور کی ہار سے سب سے مہلک چوٹ لگی ہے۔خود یوگی آدتیہ ناتھ کے لئے یہ ہار بڑے صدمے کی طرح ہے۔ بھلےہی وہ اس سیٹ سے انتخاب نہ لڑے ہوں لیکن گورکھ پور میں بی جے پی امیدوار کی ہار، ان کی ہار ہے۔ دو دہائی کی سیاست میں سب سے کم عمر کا رکن پارلیمان بننے سے لےکر وزیراعلیٰ بننے تک کا سفر کرشمائی انداز میں طے کرنے والے یوگی آدتیہ ناتھ کے آگے کے سفر میں اس ہار نے بریک لگا دیا ہے۔

اس ہار کی انہوں نے خواب میں بھی امید نہیں کی تھی۔ جس گورکھ پور سیٹ کے لئے وہ یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ اس سیٹ پر ان کو تشہیر کرنے کی کبھی ضرورت ہی نہیں ہوئی، اسی سیٹ پر وزیراعلیٰ بننے کی بار ہر مہینے آنے، درجنوں منصوبوں کا سنگ بنیاد و افتتاح کرنے، انتخاب کے دوران دھواں دھار تشہیر کرنے کے باوجود وہ بی جے پی امیدوار کو ہار سے بچا نہیں سکے۔

گورکھ پور لوک سبھا سیٹ ملک میں بی جے پی کے ایک ایسے گڑھ‌کے روپ میں تھی جہاں اس کا ہارنا ناممکن مانا جانے لگا تھا۔ اس سیٹ پر 1989، 1991 اور 1996 کا انتخاب مہنت اویدیہ ناتھ جیتے تو 1998 سے 2014 تک لگاتار پانچ انتخاب میں یوگی آدتیہ ناتھ فاتح ہوئے۔ پچھلے تین انتخاب سے یوگی آدتیہ ناتھ کی جیت کا فرق بڑھتےبڑھتے 3 لاکھ سے زیادہ کا ہو گیا تھا۔اس کے پہلے اسی سیٹ پر 1967 میں مہنت دگوجئے ناتھ رکن پارلیمان بنے تھے اور ان کی موت کے بعد 1969 میں مہنت اویدیہ ناتھ رکن پارلیمان بنے تھے۔ مہنت اویدیہ ناتھ اسی لوک سبھا سیٹ کی مانی رام اسمبلی حلقہ سے پانچ بار ایم ایل اے رہے تھے۔

گورکھ پور کی سیٹ ایسی تھی جس پر ایس پی ، بی ایس پی، کانگریس سے انتخاب لڑنے والےامیدوار پہلے سے اپنی ہار طے مان‌ کر لڑتے تھے۔ لوگ جیت ہار کی بات نہیں کرتے تھے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی جیت کتنے فرق سے ہوگی اس پر بحث کرتے تھے۔

11 مارچ کی صبح ووٹنگ کے دن گلرہا باشندہ پھیری لگا کر سبزی بیچنے والے راجمن گپتا سے میں نے پوچھا کہ انتخاب میں کیا ہوگا؟ اس نے چھوٹتے ہی کہا، ‘ بابا ہی جیتیئے۔ ان کے کیہوں نا ہرا پائی۔ ‘

Yogi-KP-Maurya-FB

راجمن کی طرح بابا کے بھکتوں اور حامیوں کے علاوہ اپوزیشن بھی یہی کہتے تھے کہ کچھ بھی ہو جائے گورکھ پور میں بابا نہیں ہار سکتے لیکن 14 مارچ کی شام جب انتخابی نتیجہ کا اعلان ہوا تو بابا ہار چکے تھے۔ کوئی یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ بی جے پی امیدوار اپیندر دت شکل ہارے ہیں۔ سب یہی بول رہے تھے کہ بابا ہارے ہیں۔یہ ناممکن کیسے ممکن ہوا؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ ہے ایس پی کے ذریعے کی گئی سوشل انجینئرنگ۔ سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے 2017 کے اسمبلی انتخاب میں کراری ہار‌کے بعد ہی پارٹی کو یادو پارٹی کی پہچان سے آزادی دلانے کی کوشش شروع کی۔

انہوں نے او بی سی ذاتوں کی یکجہتی کی کوشش کی۔ کچھ رہنماؤں کو آگے کر تری شکتی کانفرنس کے نام سے او بی سی کانفرنس کئے گئے۔ ان کانفرنسوں میں مانگ اٹھائی گئی کہ او بی سی سماج کو اس کی آبادی کے حساب سے 52 فیصدی ریزرویشن دیا جائے۔ ان کانفرنسوں میں او بی سی سماج کو ملک کی تیسری سب سے بڑی طاقت بتاتے ہوئے یادو،نشاد،سینتھوار،پٹیل،راجبھر،موریہ ،وشوکرما،پرجاپتی ،جائیسوال ،گپتا،کرمی وغیرہ ذاتوں کی یکجہتی بنانے پر زور دیا گیا۔ گورکھ پور میں پانچ جنوری کو ہوئے او بی سی کانفرنس میں او بی سی یکجہتی کے لوک سبھا ضمنی انتخاب میں جائزہ لینے کی بات کہی گئی تھی۔

اس کے علاوہ ایس پی نے اسمبلی انتخاب میں اپنی طاقت دکھانے میں کامیاب ہوئی نشاد پارٹی، پسماندہ مسلمانوں کی پارٹی ،پیس پارٹی جیسی چھوٹی جماعتوں سے بات چیت شروع کی اور اس کو اپنے ساتھ لے آئے۔ نشاد پارٹی نے 2017 کے اسمبلی انتخاب میں 72 سیٹوں پر انتخاب لڑا تھا اور اس کو 540539 ووٹ ملے تھے۔تمام سیٹوں پنیرا، کیمپئرگنج، سہجنوا، کھجنی، تمکہی راج، بھدوہی، چندؤلی میں اس کو دس ہزار سے زیادہ ووٹ ملے۔ پارٹی کے قومی صدر ڈاکٹر سنجے کمار نشاد گورکھ پور دیہی سیٹ سے انتخاب لڑے اور 34869 ووٹ پائے۔

SP-BSP-Phulpur-Facebook

انتخاب تو وہ نہیں جیت پائے لیکن وہ ایس پی ، بی ایس پی، کانگریس کو احساس دلانے میں کامیاب رہے کہ نشاد ذات کے ووٹ پر ان کی اچھی پکڑ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایس پی  نے انتخاب کے بعد اس کو اپنے ساتھ لیا اور نشاد پارٹی کے صدر ڈاکٹر سنجے کمار نشاد کے بیٹے پروین نشاد کو امیدوار بنایا۔بی جے پی نے اقتدار میں آنے کے بعد پسماندہ ذاتوں کو بھلا دیا۔ وہ اپنے کو ٹھگا محسوس کرنے لگے تھے کہ ووٹ دینے کے بعد بھی بی جے پی انھیں پوچھ نہیں رہی ہے۔ اسی وجہ سے وہ ایس پی  کے قریب گئے۔ انتخاب میں بی ایس پی  کی حمایت ملنے کے بعد ایس پی  امیدوار کی حالت اور مضبوط ہو گئی۔

ایک طرف ایس پی  نے گورکھ پور اور پھول پور میں مضبوط قلعےبندی کر دی اور اپنے امیدواروں کا نام انتخابی اعلان کے پہلے فائنل کر لیا جبکہ بی جے پی آخری وقت تک تذبذب میں رہی۔ نامزدگی کے آخری دن امیدواروں کے نام طے کئے گئے۔

یہ انتخاب شہر بنام دیہات کا بھی تھا۔ تشہیری مہم میں صاف دکھا کہ ایس پی کے جلسوں میں دلت، پچھڑے دیہی بڑی تعداد میں جٹ رہے ہیں جبکہ بی جے پی کے جلسہ میں شہری چہرے دکھتے تھے۔

بی جے پی کی تشہیری مہم وزیراعلیٰ مرکوز بڑے جلسوں پر تھا جبکہ ایس پی  کی حمایت میں بی ایس پی، نشاد پارٹی، پیس پارٹی اور بی ایس پی کے رہنما گاؤں میں گھوم رہے تھے اور نکڑ سبھائیں کر رہے تھے۔ دلت نوجوانوں نے یونیورسٹی میں جا کر ووٹ مانگیں۔

گورکھ پور میں ایس پی امیدوار کی نامزدگی کے بعد چمپا دیوی پارک میں بڑا جلسہ ہوا تو بی جے پی امیدوار کی نامزدگی کا جلسہ ایک میرج ہاؤس میں ہوا جہاں بمشکل دو ہزار لوگ رہے ہوں‌گے۔  یہی نہیں ایس پی کے صدر اکھلیش یادو نے بھی سات مارچ کو اسی بڑے میدان میں بڑا جلسہ کیا لیکن یوگی آدتیہ ناتھ نے ٹاؤن ہال میں جلسہ کیا جہاں سڑک کو گھیر‌ کر جلسہ کا مقام بنایا گیا تھا۔یہ ایک نکڑ جلسہ جیسا تھا جبکہ یہاں پر ایک بڑا میدان تھا جہاں بی جے پی چاہتی تو جلسہ کر کے اپنی طاقت دکھا سکتی تھی لیکن اس کو یہ جرأت ہی نہیں ہوئی۔  اس بڑے میدان کا استعمال گاڑیاں کھڑی کرنے میں کیا گیا۔

ایس پی  امیدوار کا حوصلہ بلندی پر تھا اور وہ گورکھ ناتھ مندر جا کر اس کو نشاد کا مندر بتاتے ہوئے بابا متسیندر ناتھ کا آشیرواد لے رہے تھے تو دوسری طرف بی جے پی کے جلسہ میں زیادہ تر رہنما مودی،یوگی کی تعریف و توصیف کر رہے تھے۔

بی ایس پی کے ذریعے ایس پی  کو حمایت دئے جانے کے بعد وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا سانپ چھچھوندر والا بیان اور کینبیٹ منسٹر نندی کے ذریعے رامائن اور مہابھارت کے منفی کرداروں سے ملائم سنگھ یادو، اکھلیش یادو اور مایاوتی کا مقابلہ کرنے والے بیان نے بھی اس انتخاب میں اثر ڈالا۔  اس بیان کو ایس پی  نے دلتوں پچھڑوں کے لئے بتاتے ہوئے اپنی حمایت میں بھنایا۔

انتخاب میں ہر طرح سے اشارے مل رہے تھے کہ رخ بدل رہا ہے لیکن بی جے پی اور اس کے رہنما لاپرواہ رہے۔  خود یوگی نے 8 مارچ کے جلسہ میں کہا تھا کہ گورکھ پور شہر میں ووٹنگ کا فیصد 48 فیصدی سے 60 فیصدی تک بڑھانا ہوگا تاکہ یہاں ڈھائی لاکھ کا فیصلہ کن اضافہ مل سکے لیکن رائے دہندگی فیصد بڑھنے کے بجائے 11 فیصدی گھٹ گیا اور بی جے پی کا گورکھ پور شہر سے مارجن بھی گھٹ گئی۔

بی جے پی کا شہری ووٹرووٹنگ  کرنے نکلا ہی نہیں جبکہ ایس پی، بی ایس پی، نشاد پارٹی کے ووٹروں نے جم کر ووٹنگ کی۔  یہی وجہ تھی کہ گورکھ پور لوک سبھا سیٹ کے چار دیگر اسمبلیوں پپرائچ، گورکھ پور دیہی، سہجنواں اور کیمپئرگنج میں بی جے پی آگے ہونے کے بجائے پچھڑتی چلی گئی۔اسی طرح کی صورت حال پھول پور کے شہری علاقے میں دکھی،  وہاں تو گورکھ پور شہر سے بھی کم ووٹنگ ہوئی۔

8 مارچ کے گورکھ پور جلسہ میں یوگی آدتیہ ناتھ کی تقریر میں بی جے پی کے اس انتخاب میں کمزوریوں کے اشارے تھے جس کو میڈیا نے صحیح سے پڑھا نہیں۔  انہوں نے کہا کہ ہمیں آخری وقت میں امیدوار ملا۔  دوسری بات انہوں نے کہی کہ بی جے پی امیدوار سے یہ توقع نہ کی جائے کہ وہ گھرگھر جاکر ووٹ مانگ پائے‌گا۔  تیسری فکر انہوں نے شہری علاقے میں کم ووٹنگ  پر جتائی تھی۔ گورکھ پور میں بی جے پی نے جو امیدوار دیا تھا وہ خود یوگی کی پسند کا نہیں تھا۔  پھول پور میں بی جے پی امیدوار وہاں کے لئے باہری تھا۔  وہاں ایس پی  نے لوکل پٹیل بنام باہری پٹیل کا نعرہ چلا دیا جو چل بھی گیا۔

Mayawati-Akhilesh-PTI

پھول پور میں بی جے پی امیدوار کا سابقہ بیوی سے تنازعہ پورے انتخاب میں گفتگو کی وجہ رہی تو گورکھ پور میں بی جے پی امیدوار عین وقت پر بیمار ہو گئے اور پانچ دن تک انتخابی تشہیر سے دور رہے۔  ٹھیک ہوکر آئے تو صرف جلسوں میں ہی جا سکے۔کانگریس کا انتخاب میں بنے رہنا ایس پی کی حمایت میں گیا۔  کانگریس کے انتخاب کے پہلے ایس پی سے اتحاد کی بات ہوئی تھی۔  کانگریس دونوں میں سے ایک سیٹ مانگ رہی تھی لیکن ایس پی  نے منع کر دیا۔  تب کانگریس نے دونوں مقامات پر امیدوار اتار دئے۔

یہ قیاس لگایا جا رہا تھا کہ اگر کانگریس انتخاب نہیں لڑتی تو حزب مخالف یکجہتی کو اور طاقت ملتی۔  انتخاب کے بیچ میں کانگریس امیدواروں کو ہٹانے کی گفتگو بھی چلی لیکن کانگریس کے انتخاب میں بنے رہنا ایس پی کے لئے ٹھیک رہا۔پھول پور میں کانگریس امیدوار نے بی جے پی کو براہمن ووٹ کا نقصان کیا تو گورکھ پور میں ایس پی امیدوار انتخابی میدان سے ہٹ جاتے تو کانگریس کا ووٹ بینک ایس پی  کے ساتھ آنے کے بجائے کانگریس میں چلا جاتا۔

یہ ضمنی انتخاب مودی حکومت کی چار سال اور یوگی حکومت کی ایک سال کی کامیابیوں کے جائزے کا بھی انتخاب تھا۔  بی جے پی رہنما خوب زور شور سے دونوں حکومتوں کے کاموں کا قصہ سنا  رہے تھے۔  وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ انویسٹرس سمٹ کو تو یوپی کی تاریخ کی سب سے انقلابی کامیابی بتا رہے تھے جبکہ زمینی حالات یہ تھے کہ لوگ بری طرح پریشانی محسوس‌کر رہے تھے۔

یوگی حکومت کے ذریعے اقتدار میں آتے ہی ریت کان کنی پر روک لگانے سے پہلے سے نوٹ بندی کی مار جھیل رہا تعمیری میدان ایک طرح سے ٹھپ ہو گیا۔  ریت کا ریٹ کئی گنا بڑھ گیا۔  مزدوروں کو کام ملنا بند ہو گیا۔

لاء اینڈ آرڈر  کے نام پر پولیس کی کارروائیوں کی زد میں بڑی تعداد میں غریب، دلت، پچھڑے اور اقلیت آئے۔  ان میں پیغام گیا کہ بی جے پی حکومت ان پر ظلم کررہی ہے۔  پینٹ کرنے والے ایک مزدور کا یہ کہنا کہ اس حکومت میں موبائل چارج کرانے پر بھی جی ایس ٹی کٹ رہی ہیں اور تھانوں پر بڑی ذات کے لوگ ہم لوگوں کو ستا رہے ہیں، یوگی حکومت کے بارے میں ایک دلتوں، پسماندہ لوگوں  میں ایک عام رائے بیاں کرتی ہے۔

Nagendra-Pravin-Nishad-PTI

ریاستی حکومت کی اسکیمیں اور ترقیاتی کام  کااعلان اور سنگ بنیاد کی سطح پر ہی ہیں اور لوگوں کو ابھی اس کا براہ راست فائدہ نہیں مل پا رہا ہے۔ اس لئے بھی اس حکومت کے تئیں بی جے پی کے حامی ووٹروں میں بھی کوئی جوش نہیں تھا۔سلاٹر ہاؤس بند کرنے کے نام پر اقلیتوں کا روزگار چھینا گیا اور آئے دن جانچ‌کے نام پر مدرسہ منتظمین کو پریشان کیا گیا۔  اس سے اقلیتوں میں بی جے پی کے تئیں غصہ اور بڑھ گیا۔وہ اپنے ووٹ کے بکھراؤ کے تئیں کافی ہوشیار ہو گئے۔  یہی وجہ ہے کہ گورکھ پور اور پھول پور میں کانگریس امیدوار ہونے کا باوجود ان کا ووٹ تقسیم نہیں ہوا۔  پھول پور میں عتیق احمد بھی انتخاب لڑ‌ کر اقلیت ووٹ کو بانٹ نہیں سکے۔

کل ملا کر گورکھ پور اور پھول پور کا ضمنی انتخاب یوپی میں نئی سوشل انجینئرنگ کا امتحان تھا۔  8 مارچ کو پھول پور میں سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے جلسہ میں صاف کہا تھا کہ 2017 کے انتخاب میں ترقی کے نام پر ووٹ مانگنے آئے تھے۔اس بار انہوں نے اکویشن بھی بنا دیا ہے۔  ظاہر ہے کہ یہ نئی سوشل انجینئرنگ ضمنی انتخاب کی شکل میں ٹیسٹ میں پاس ہو گئی۔  ایس پی ا ور بی ایس پی  اگر اس کو 2019 تک بنائے رکھتے ہیں تو جس یوپی نے 2014 میں بی جے پی کے لئے دلی کا راستہ بنایا تھا وہی یوپی ان کی راہ میں بڑی رکاوٹ کی شکل میں کھڑی نظر آئے‌گا۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور گورکھ پور فلم فسٹیول کے منتظمین میں سے ہیں)