خبریں

اگر لینن کی جگہ بھگت سنگھ کا مجسمہ ہوتاتو…

 اگر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسسٹ) نے تریپور ہ میں بھگت سنگھ  کے مجسمے نصب کیے ہوتے، تو کیا   سی پی آئی (ایم) کی شکست کے بعد،  بی جے پی کے کارکن  ان مجسموں  کو   بھی نقصان پہنچاتے؟

lenin-tripura-bjp3

ایک سال پہلے، میں  بینگلور میں  کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسسٹ)؛سی پی آئی (ایم)کے  کا رکن  اورمؤ رخ  کے ساتھ  دوپہر کا کھانا  کھا رہاتھا۔ وہ ایک اچھے دانشورہیں ، کرکٹ  پسند کرتے ہیں،کمیونسٹ نطریات کے باوجود میں ان کو پسند کر تا ہوں۔  ان کی پارٹی  کانفرنس کے دوران میں نے یہ پوچھا تھا کہ انہوں نے  جرمن مفکر مارکس ، اینگلز اور 20 ویں صدی  کےروسی تاناشاہ لینن اور اسٹالن کی تصویریں  ہی کیوں  ڈسپلے پر رکھی تھیں ۔میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ ایک ہندوستانی  پارٹی کے پاس اپنے کچھ ہندوستانی’  آئی کان’ بھی ہونے چاہئے اور کم سے کم بھگت سنگھ کو تو  ہوناہی چاہئے۔

بھگت سنگھ ہندوستانی  ہونے کے ساتھ ایک  مارکسسٹ بھی  تھے۔ ہندوتوادی ان کا احترام  اس لیے   کرتے ہیں  کہ  لیفٹ نے ان کو عام طور  پر فراموش کردیاہے۔ جب میں نے یہ سوال اپنے مؤ رخ دوست سے پوچھا تو   انہوں نے  مجھے سے اتفاق کرتے  ہوئے کہا  وہ اپنی پارٹی کے اعلیٰ ممبران کے ساتھ اس معاملے پر بات کریں گے، لیکن ایسا محسوس ہوتا  ہے کہ وہ  یہ نہیں کر پائے۔بھگت سنگھ کے مقابلے سی پی آئی (ایم)کے لینن اور اسٹالن کو  زیادہ اہمیت دینے کی دو وجہ   ہیں کہ   شروعات سے ہی ان کو(پارٹی کیڈر)  لینن اور اسٹالن کی عبادت کرناسکھایا جاتا ہے، با لکل  ان لڑکوں  کی طرح  جو وشنو  کو پوجتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں اور وشنو (یا ان کے اوتار)  کے سوا کسی اور بھگوان کو نہیں پوجتے  ہیں۔ اسی طرح  مارکسسٹ   بھی بچپن  سے لیکر آخر ی وقت  تک لینن اور اسٹالن کو ہی خدا مانتے ہیں۔

بھگت سنگھ سی پی آئی (ایم) میں ایک معمولی شخصیت اس لیے  بھی ہیں  کیونکہ شروعات میں سی پی آئی (ایم)   غیر منقسم  کمیونسٹ  پارٹی آف انڈیا کا حصہ تھا  اور اس وقت  سکھ انتہا پسندسی پی آئی کے رکن نہیں تھے۔  بھگت سنگھ ہندوستان  سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن  ( ایچ ایس آر اے) کا حصہ تھے۔ سی پی آئی کے زیادہ تر ممبران بمبئی اور کلکتہ میں تھے،دوسری طرف، ایچ ایس آر اے، شمالی ہندوستان میں زیادہ فعال تھا۔ لہذا ، بھگت سنگھ کے مارکسی  ہونے کے باوجود سی پی آئی (ایم) بھگت سنگھ کی  تصویر کو پارٹی  کانفرنس میں رکھنے سے اس لیے ہچکچاتی ہے کہ  وہ  اتفاق سے  سی پی آئی سے نہی بلکہ ایچ ایس آر  اے  سے تعلق رکھتے تھے۔

 تریپورہ  میں لینن کے مجسمے کی موجودگی سے بی جے پی کو اس لیےاعتراض ہے کہ وہ غیر ملکی تھے۔ بی جے پی کے ایک  کارکن نے انڈین ایکسپریس کو بتایا   کہ اگر لینن کے  بجائے تریپورہ کے کمیونسٹ  نریپین چکربرتی کا مجسمہ ہوتا ، تو وہ شاید اس کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ تاہم، مسئلہ یہ نہیں ہے کہ لینن ایک غیر ملکی تھا،جمہوریت پسند نہیں تھا ۔لینن نے اپنے دشمنوں اور حریفوں کا قتل کروا دیا تھا، دانشوروں اور فنکاروں کو اظہاررائے کی آزادی بہت کم  تھی ، اس کے علاوہ اس نے  اسٹالن کی سفاکانہ ڈکٹیٹر شپ کے لیے راہ ہموار کی تھی ۔میں بی جے پی کی طرح  اس مرض میں مبتلا نہیں ہوں کہ غیر ملکی لوگوں کو پسند نہیں کرتا بلکہ میں  رابندر ناتھ ٹیگور کی  اس بات سے اتفاق رکھتا ہوں کہ  دنیا میں  چراغ کہیں بھی ہو اس کی روشنی سے استفادہ کرناچاہئے۔بڑے لوگ   قومیت  کی چہار دیواری میں قید نہیں ہوتے۔  مثال کے طور پر مجھے خوشی ملے گی اگر نیلسن منڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ، اور وکلو ہاول کے مجسمے ہمارے شہروں میں نصب   کیے جائیں، لیکن  جب بات تانا شاہوں  کی آتی ہے تو میں وہاں ایک  لکیر کھینچ لیتا  ہوں۔

لینن،اس ٹوئٹر کے دور میں  سوپر ٹرول بن جاتے کیونکہ وہ ا نتقامی کارروائی میں یقین رکھتے تھے ، وہ اپنی تحریراور تقریر میں دشنام گو تھے۔ ان کی نفرت بورژوازی ‌ تک محدود نہیں تھی، سوشلسٹ جو ان کے ساتھ اتفاق  نہیں  رکھتے تھے  وہ بھی اس نفرت کے حقدار تھے۔ جرمن مارکسسٹ Eduard Bernstein  لینن  کے غصے کا شکار بنے، کیونکہ انہوں نے پر امن جمہوری تبدیلی کے حق میں تشدد کی مخالفت کی ۔شاید  Eduard Bernstein  لینن کے مقابلے  ہندوستانی مارکسسٹ کے لئے  ایک بہتراورمثالی حیثیت کا درجہ رکھ سکتے تھے ۔  سوشلسٹ اصلاح پسندوں  نے    مغربی یورپ میں مستحکم  فلاحی   ریاست قائم کرنے  میں مدد کی۔لینن نے مطلق العنانیت کی جگہ  ایک ایسا نظام کو اہمیت جو بالشیوک کی طرح ہی تانا شاہی پر مبنی ہو۔

 اگرچہ  سی پی آئی (ایم) نے  کئی عشروں سے ہندوستانی انتخابات میں حصہ لے کر  جمہوری طور پر ریاستی حکومتیں چلائی ہیں  اس کے باجود   ابھی تک  سی پی آئی (ایم) نے  باضابطہ طو ر سے لینن کے اصولوں  کو رد نہیں کیا ہے۔لینن کا  یہ خیال تھا کہ  کوئی بھی  حکومت میں  اس لیےشامل ہو تا ہے کہ اس کا دبدبہ قائم ہو اوراس میں ہیر پھیر کرسکیں  ۔ دوسری جماعتوں اور سیاستدانوں کے ساتھ  مل کر کام کرنا  لینن کے نظریات کے خلاف تھا۔ سی پی آئی (ایم)  کی مرکزی کمیٹی نے 1996 میں جیوتی باسو کو ہندوستان کے وزیراعظم بننے کی  اجازت نہیں دی تھی کیونکہ یہ لینن کے وفادارتھے۔اس سے زیادہ بڑی غلطی 2004 میں  کی گئی تھی  جب لینن کے  اصولوں نے  سی پی آئی (ایم) کو مرکزمیں یو پی اے حکومت میں شامل ہونے سے روک  دیا۔ اگر 1996 میں جیوتی باسو  اقلیتی   اتحاد کے سربراہ  ہوتے  تو یہ کافی  کمزور  ہوتا اور یہ  ایک یا دو سال  کے اندر ختم  ہوجاتا۔ تاہم، اگر لیفٹ جماعتوں نے 2004 میں یوپی اے حکومت میں شمولیت اختیار کی  ہوتی ، تو وہ مستحکم اکثریت کا ایک لازمی حصہ بن جاتے  اور پورے پانچ سال کی مدت تک ملک چلا سکتے ۔

سی پی آئی (ایم)منموہن سنگھ حکومت میں شامل نہیں ہوا چونکہ عظیم لینن نے بہت عرصہ قبل یہ حکم دیا  تھاکہ اس کے ماننے والوں  کو دوسری جماعتوں کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے  خود اس غلطی کا جرمانہ ادا کیا اور ان کے ساتھ ہندوستان کے لوگوں نے بھی۔ فرسودہ نظریات کےباوجود ہندوستان میں کمیونسٹ  سیاست داں دوسری  جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین  ہیں ،بدعنوانی میں بھی ان سے کم ملوث ہیں اور ان کی طرح زیادہ لالچی نہیں ہیں  ۔ اگر 2004 میں سی پی آئی (ایم) کے بہترین ایم پی نے یوپی اے حکومت میں شمولیت اختیار کی ہوتی تو  انہوں نے زراعت ، دیہی ترقی، قبائلی فلاح و بہبود،  خواتین اور بچوں کی ترقی جیسے  وزارتوں کی ذمہ داری لے کر  پورے دل سے کام  کیا ہوتا تو غریبوں کی زندگی  سنورگئی ہوتی۔ انہوں نے ٹیلی ویژن اور پارلیامنٹ میں اپنی دانائی  کا استعمال کر کے   اپنی  پارٹی کی عزت کو ہندوستان  میں بڑھا دیا ہوتا۔اس طرح یہ صرف کیرل، تریپورا، اور مغربی بنگال میں محدود نہیں ہوتے۔

بی جے پی کے ٹھگ، جنہوں نے  لینن کی  مجسمے کومسمار کیا اس کی  توہین کی لائق مذمت ہیں۔ دوسری جانب، جنہوں نے ان مجسموں کو وہاں نصب  کیا ، ان پر بھی مجھے ترس  آتا ہے۔ 1920 تک لاہور میں رہنے والے بھگت سنگھ  روس میں لینن اور اسٹالن کےظلم سے انجان تھے۔ 1930 کے اواخر  میں عورتوں کے ساتھ زبردستی ، کیمپوں میں موت، اور سیاسی حریفوں پر تشدد کے  سلسلہ کو اچھی طرح سے دستاویز کی صورت میں محفوظ کیا گیا۔1956میں خودکمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین نےاسٹالن کی مذمت کی۔1989 میں برلن دیوار گر گئی، اور لینن ان ملکوں میں مسترد کر دیا گیا  جن   کا حکمران یہ پہلے رہ چکا تھا۔لیکن ابھی تک ہمارے اپنے کمیونسٹ   کچھ بھی نہیں بھولے ہیں  اور کچھ سیکھا بھی نہیں ہے ۔تریپورہ اور مغربی بنگال  میں شکست کے بعدہم امید کر سکتے ہیں کہ، سی پی آئی (ایم) کی اگلی پارٹی کانفرنس میں، ان روسیوں کے ظالموں میں سے کوئی  ایک بھگت سنگھ کو راستہ دے گا؟