فکر و نظر

ہمارے ’عظیم ‘ کھلاڑی مشکل وقت میں عوام کے ساتھ کیوں نہیں کھڑے ہوتے؟

ہمارے عظیم کھلاڑیوں کو عوام سرآنکھوں پر بٹھاتی ہے، مگر عوام پر جب ایسا کوئی برا وقت آتا ہےجس کے لئے حکومت یا سماج کا ایک طبقہ ذمہ دار ہو تو وہ ایسے غائب ہو جاتے ہیں، گویا اس دنیا میں رہتے نہ ہوں۔

محمد علی، ٹامی اسمتھ، جان کارلوس اور کالن کیپرنک۔ (فوٹو : رائٹرس)

محمد علی، ٹامی اسمتھ، جان کارلوس اور کالن کیپرنک۔ (فوٹو : رائٹرس)

’ میں ایسے ملک میں بڑا ہوا جس کو 25 سال تک خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور میں نہیں چاہتا کہ اگلی نسل کو بھی اس سے گزرنا پڑے۔ ‘

فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف یہ بیان کسی سیاستداں کا نہیں بلکہ کرکٹ کے ایک کھلاڑی کا تھا۔ اور جگہ  تھی، پڑوسی ملک سری لنکا۔اور اب جبکہ فسادات کی آگ کی لپٹیں تھم گئی ہیں، فسادات کے لئے ذمہ دار کہے جانے والے سنہَل بدھ انتہاپسند تنظیموں کے مکھیا اور کارکنوںکو اور دیگر فسادیوں کو جیل بھیجا گیا ہے اور پورا سری لنکائی سماج تمل انتہاپسندی کے خاتمہ کے بعد ملک کے سامنے اس نئے چیلنج سے روبرو ہے، تب فسادات سے جڑی چند ایسی خبریں بھی شائع ہو رہی ہیں جن پر ان دنوں زیادہ گفتگو نہیں ہوئی تھی۔

مثال کے طور پر سری لنکا میں جب فرقہ وارانہ آگ انتہا پر تھی تب فرقہ وارانہ تشدد کی مذمت کرتے ہوئے، قصورواروں کو نسل / مذہب سے پرے جاکر سزا دینے کی مانگ کرتا کرکٹر مہیلا جے وردھنے کا مذکورہ بیان ان دنوں سرخیاں بنا تھا۔

مہیلا کے بعد سری لنکا کے کرکٹ کھلاڑیوں میں اوّل سمجھے جانے والے کمار سنگکارا اور سنتھ جے سوریہ نے بھی عوام سے امن کی اپیل کی اور فسادیوں سے سختی سے نمٹنے کے لئے کہا تھا۔ایسا سوچنا معصومیت کی انتہا ہوگی کہ سری لنکا کے عظیم کھلاڑیوں میں شمار ان تینوں کے بیان کو پڑھ‌کر فسادیوں کا دل پسیجا ہوگا یا سنہلی دبدبے میں پڑے عام لوگ اپنےاپنے گھروں کو لوٹ گئے ہوں‌گے، جنہوں نے تملوں  کے خاتمہ کے بعد اپنے ‘ نئے دشمن ‘ کو ڈھونڈ لیا ہے۔

مگر اس سرحد کے باوجود ان تینوں اہم ترین کھلاڑیوں کے بیان پڑوسی ملک سے آ رہی ہوا کی تازی ہوا کی طرح معلوم پڑتے ہیں۔تصور کریں کہ فساد کی حالت ہندوستان کے کسی حصے میں بنی ہوتی تو کیا یہاں کے عظیم کہے جانے والے کرکٹ کے بلے باز یا بالر ایسا کوئی بیان دیتے، جو اکثریتی کمیونٹی کو نشانے پر لیتا دکھتا۔ یقیناً نہیں!

اپنے یہاں کے ‘ عظیم ‘ پھر چاہے تفریح کی دنیا کے سپراسٹار ہو ں یا کرکٹ کے شہنشاہ ہوں، ایسے تمام نازک مواقع پر خاموشی کو برتری دیتے ہیں۔سلے ہونٹ، کھلی آنکھیں مگر کچھ دیکھتی نہ ہوں، جن کی اب پہچان بنتی جا رہی ہے۔ یوں تو عوام ان کے لئے پلک پاوڑے بچھا لیتی ہیں، مگر عوام پر جب ایسا کوئی وقت آتا ہے-جس کے لئے حکومت یا عوام کا ہی دوسرا حصہ ذمہ دار ہو، تو وہ اس طرح غائب ہو جاتے ہیں، گویا اس دنیا میں رہتے نہ ہوں۔

ہاں، انسانی بنیاد پر ان کی محدود مداخلت کی خبر کبھی آ جاتی ہے۔ مثلاً 1992 میں جب ممبئی میں فسادات ہو رہے تھے، تب کا ایک واقعہ  یاد ہے جب سنیل گاوسکر نے ان کے گھر کے سامنے ہو رہے تشدد سے کسی بچّے کو بچایا تھا۔ اچھا لگا تھا۔ مگر اسٹینڈ لینا، حکومت کی ناکامی پر، لوگوں کے اندر بیٹھی درندگی پر بولنے سے وہ جھجک ہی محسوس کرتے ہیں۔

المیہ ہی ہے کہ اپنا انسانی احساس ظاہر کرنا دور رہا، جس کو مظلوم کیا جا رہا ہے اس کے متعلق ہمدردی ظاہر کرنا دور رہا، اس کے برعکس کئی بار وہ اپنے بیانات سے کشیدگی کو بڑھاتے ہی دکھتے ہیں۔کیرل کے 30 سالہ قبائلی مدھو کا بھیڑ کے ذریعے کیا گیا قتل کے سیاق و سباق کو دیکھ سکتے ہیں، جس کو چاول چوری کے الزام میں اپنی جان گنوانی پڑی۔

اس قتل کے فوراً بعد چندگرفتاریاں ہوئیں، جن میں دونوں کمیونٹیز (ہندو اور مسلم کمیونٹی) کے لوگ ملزم تھے۔ واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر بےحد فعال رہنے والے ایک اہم ترین سابق کرکٹر نے میسیج شیئر کیا جس میں کہا گیا کہ ‘ تمام ملزم اقلیتی کمیونٹی کے تھے۔ ‘

یہ صاف صاف شرارت سے پر کارروائی تھی، جب اس کے خلاف ہنگامہ ہوا تب جناب نے معافی مانگتے ہوئے دوسرا ٹوئٹجاری کیا اور بعد میں معافی والے اس ٹوئٹکو بھی ہٹا دیا۔نشان زد کرنے والی بات تھی کہ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ انہوں نے ایسی  حرکت کی تھی۔ دہلی یونیورسٹی کے ایک کالج میں دائیں بازوں کے ذریعے کئے گئے حملے کے بعد کارگل جنگ میں مارے گئے فوجی کی بیٹی گرمیہر کور نے ان تنظیموں کی مخالفت میں اپنی پوسٹ شیئر کی تو گویا اس کے جواب میں اس سابق بلے باز نے بھی اسی انداز میں پوسٹ جاری کی۔

یہ الگ بات تھی کہ اس معاملے میں ان کی اتنی تھوتھو ہوئی کہ اس وقت بھی ان کو اپنا ٹوئٹڈلیٹ کرنا پڑا۔ جب جے این یو میں سازشوں سے ‘ اینٹی نیشنل ‘ ہونے کو لےکر زبردست ہنگامہ کیا جا رہا تھا، اس وقت بھی اس جناب نے اور کئی اہم ترین کھلاڑیوں نے (جو الگ الگ کھیلوں سے جڑے تھے، نام کما چکے تھے) ایسے بیان دئے تھے جو سرکاری اسٹینڈ کے ہم قدم چلتے دکھ رہے تھے۔

دنیا کی  سب سے بڑی جمہوریت کے عظیم کہے جانے والے کھلاڑیوں کے بالکل برعکس دنیا کے سب سے طاقت ور جمہوریت کی کھلاڑی دکھتے ہیں۔ڈیڑھ سال پہلے امریکہ کے کالن کیپرنک (جو مشہورفٹ بال کھلاڑی ہیں) اچانک سرخیوں میں آئے جب وہ میچ کے شروع میں گائے جانے والے قومی ترانہ کے دوران کھڑے نہیں ہوئے بلکہ بیٹھے ہی رہے۔ اور اس نایاب طریقے سے امریکہ میں سیاہ فام کے ظلم کے مدعے کو لےکر اپنے غصے کو زبان دی، جو مدعا ان دنوں سرخیوں میں تھا۔

کالن کیپرنک۔ (فوٹو : رائٹرس)

کالن کیپرنک۔ (فوٹو : رائٹرس)

ان کا بیان تھا، ‘ میں ایسے ملک کے پرچم کے متعلق اپنی عزّت ظاہر کرنے کے لئے کھڑا نہیں ہو سکتا ہوں، جہاں پر سیاہ فام اور کلرڈ لوگوں پر ظلم ہوتا ہو۔ میرے لئے یہ فٹ بال سے بڑی چیز ہے اور یہ خود غرضی کی حد ہوگی کہ میں اس حقیقت سے نظرے چراؤں۔ سڑکوں پر لاشیں پڑی ہیں اور اس کو انجام دینے والوں کو ادائیگی  کے ساتھ چھٹی مل رہی ہے اور وہ بچائے جا رہے ہیں۔ ‘

ان کے اس ریڈکل قدم سے فٹ بال کی دنیا کے کئی دیگر کھلاڑیوں کو بھی ترغیب ملی اور بعد میں بہتوں نے الگ الگ طریقے سے مخالفت کو ظاہر کیا۔ویسے یہ پہلی دفعہ نہیں تھا جبکہ امریکہ میں کسی کھلاڑی نے رجحان کے مخالف کھڑے ہونے کی جرات کی ہو اور اس کے لئے جوکھم اٹھائی ہو۔

عظیم باکسر ‘ دی گریٹیسٹ ‘ محمّد علی کی موت پر یہی بات انڈرلائن کی گئی تھی کہ کس طرح وہ نہ صرف عظیم کھلاڑی تھے بلکہ اظہار کے تمام خطروں کو اٹھانے کے لئے تیار عظیم شخصیت بھی تھے۔یہ بےوجہ نہیں کہ محمّد علی کے گزر جانے کے بعد ان کو جو خراج عقیدت دنیا بھر سے نذر  کی گئی تھیں، اس میں نہ صرف ان کے باکسنگ کے عظیم ہونے کی تعریف کی گئی، ساتھ ہی ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے، وقت وقت پر امریکی حکومت کی بھی مخالفت کرنے کے قدم کو بھی نشان زد کیا گیا تھا۔

پھر 1960 کے اولمپک میں باکسنگ میں حاصل گولڈ میڈل کو اوہیو ندی میں پھینک دینے کا سیاق و سباق رہا ہو-کیونکہ امریکہ میں ان دنوں جاری رنگ بھید کے چلتے ان کو محض گوروں کے لئے چلائے جارہے ریستوراں میں گھسنے نہیں دیا گیا تھا، یا امریکی حکومت کے ذریعے ویتنامی عوام کے خلاف شروع کئے گئے غیرمنصفانہ جنگ میں شامل ہونے سے انکار کرکے اپنے ہیوی ویٹ تمغہ کو کھو دینے کا مسئلہ ہو، وہ مسلسل باغی بنے رہے۔

معلوم ہو کہ ویتنام جنگ کی مخالفت کرنے کے لئے ان کو پانچ سال جیل کی سزا بھی سنائی گئی تھی-جو چار سال کی اپیل کے بعد بھلےہی ملتوی کر دی گئی تھی اور اس کے بعد تین سال تک نیویارک اسٹیٹ ایتھلیٹک کمیشن نے ان کے باکسنگ لائسنس کو منسوخ کر دیا تھا۔

یقیناً ان تمام خطرہ کو اٹھاتے ہوئے محمّد علی نے اپنے آپ کو گریٹیسٹ بنائے رکھا۔ محمّد علی نے کیشیس کلے نام سے اپنے کھیل کود کی شروعات کی تھی اور 1960 کا اولمپک میڈل اسی نام سے جیتا تھا، مگر بعد میں ‘ غلام ‘ پہچان سے دوری بنانے کے لئے انہوں نے اسلام قبول کیا تھا اور اپنے آپ کو ان دنوں کی ایک ریڈکل تنظیم ‘ نیشن آف اسلام ‘ سے منسلک ہونے کا اعلان کیا تھا۔اور نہ صرف محمّد علی بلکہ باغی کھلاڑیوں کی اس فہرست میں ٹامی اسمتھ، جان کارلوس جیسوں کا نام بھی سنہرے الفاظ میں درج ہیں۔

20 ویں صدی کے اس لافانی فوٹوگراف کو کس نے نہیں دیکھا ہوگا جس میں 1968 کی میکسکو سٹی اولمپکسکے 200 میٹر دوڑ‌ کے میڈل عطا کئے جا رہے تھے اور تینوں فاتحین ٹامی اسمتھ، جان کارلوس (دونوں امریکی) اور پیٹر نارمن (آسٹرلیا) نے مل‌کر امریکہ میں سیاہ فام کے حالات پر اپنی مخالفت کی آواز کو پوڈیم سے ہی انوکھے طریقے سے ارسال کیا تھا۔

1968 کے میکسکو اولمپک میں 200 میٹر دوڑمقابلہ جیتنے کے بعد گولڈ میڈل پانے والے ٹامی اسمتھ (بیچ میں) اور کانسہ تمغہ پانے والے جان کارلوس (دائیں) نے کالے داستانے پہن کر اپنے ہاتھ اٹھاکرسیاہ-فام کے خلاف ہونے والے امتیازات کی مخالفت کی تھی۔  چاندی تمغہ کے فاتح پیٹر نارمن (بائیں) نے بھی دونوں کھلاڑیوں کے ساتھ یکجہتی دکھائی تھی۔  (فوٹو بشکریہ : peconicpublicbroadcasting.org)

1968 کے میکسکو اولمپک میں 200 میٹر دوڑمقابلہ جیتنے کے بعد گولڈ میڈل پانے والے ٹامی اسمتھ (بیچ میں) اور کانسہ تمغہ پانے والے جان کارلوس (دائیں) نے کالے داستانے پہن کر اپنے ہاتھ اٹھاکرسیاہ-فام کے خلاف ہونے والے امتیازات کی مخالفت کی تھی۔  چاندی تمغہ کے فاتح پیٹر نارمن (بائیں) نے بھی دونوں کھلاڑیوں کے ساتھ یکجہتی دکھائی تھی۔  (فوٹو بشکریہ : peconicpublicbroadcasting.org)

افریقی امریکی ٹامی اسمتھ (گولڈ فاتح) اور جان کارلوس (کانسہ فاتح) نے پوڈیم پر کھڑے ہوکر اپنی مٹھیاں تانے مشہور بلیک پاور کا سیلیوٹ دیا تھا اور چاندی تمغہ فاتح پیٹر نارمن ان دونوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سینے پر اولمپکس فار ہیومن رائٹس کا بیچ لگایا تھا۔

یہ ایک کڑوی سچائی ہے کہ اتنی بڑی گستاخی کے لئے تینوں کھلاڑیوں کو  وطن واپسی پر کافی کچھ جھیلنا پڑا تھا، امریکہ جیسی عالمی طاقت کی عالمی سطح پر ہوئی اس ‘ بدنامی ‘ کا خمیازہ ٹامی اسمتھ (گولڈفاتح) اور جان کارلوس کی فیملی والوں کو بھی بھگتنا پڑا تھا۔

آسٹریلیا کی حکومت نے امریکہ کے متعلق اپنی قربت کا اظہار کرتے ہوئے پیٹر نارمن کو بعد میں کبھی عالمی کھیلوں میں کھیلنے نہیں دیا۔  1972 کا میونخ اولمپک میں کوالیفائی کرنے کے باوجود ان کو بھیجا نہیں گیا، یہاں تک کہ 2000 میں جبکہ آسٹریلیا کی سڈنی میں اولمپککا انعقاد ہوا، اس وقت بھی عظیم پیٹر نارمن کو یاد نہیں کیا گیا، وہ گمنامی میں ہی رہے۔

غور طلب ہے کہ اپنے اس قدم کو لےکر پیٹر نارمن نے کبھی افسوس نہیں کیا، ان کو بار بار اشارہ دیا گیا کہ وہ 1968 کی ‘ غلطی ‘ کے لئے معافی مانگ لیں، تو ان کے لئے پھر خوشحالی کے دروازے کھل سکتے ہیں۔

مگر وہ عظیم کھلاڑی آخر تک اپنے اصولوں پر ثابت قدم رہا۔  2006 میں ان کے انتقال کے بعد ان کے جنازہ کو کندھا دینے کے لئے ٹامی اسمتھ اور جان کارلوس دونوں ہی پہنچے تھے۔صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جان کارلوس نے بتایا تھا، ‘ ہمارے ساتھ غنیمت تھی کہ باری باری سے ہم دونوں کو پریشان کیا جاتا تھا، مگر جہاں تک پیٹر نارمن کی بات ہے، ان کے خلاف پورا ملک کھڑا تھا۔  جائیے، دنیا کو بتائیے کہ کوئی پیٹر نارمن جیسا شخص پیدا ہوا تھا۔  ‘

پیٹر نارمن بھلےہی گمنامی میں رہے مگر ان کی انوکھی مداخلت نے اگلی نسل کے لوگوں کو بھی متاثر کیا۔  یاد کریں کہ کناڈا میں 1994 میں منعقد کامن ویلتھ گیمس، جس میں 200 اور 400 میٹر کا فاتح آسٹریلیا کا مقامی باشندہ کمیونٹی کی کیتھی فریمین کو جس نے جیت‌کے جشن میں دوڑتے ہوئے دو پرچم تھامے تھے، ایک آسٹریلیائی پرچم اور دوسرا مقامی باشندہ کا پرچم۔

محمّد علی۔  (فوٹو : رائٹرس)

محمّد علی۔  (فوٹو : رائٹرس)

شاید تب تک آسٹریلیائی حکومت نے بھی پختگی دکھائی اور ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا کہ کیتھی کو پریشان کیا جائے۔ایسا نہیں کہ محمّد علی، ٹامی اسمتھ، جان کارلوس یا پیٹر نارمن جیسوں کی طرح یہاں کھیلوں میں عظیم کہلانے والے لوگ غیر حاضر ہیں، مگر وہ اپنے آپ کو کھیلوں تک محدود رکھتے ہیں اور انہی چیزوں کے بارے میں اسٹینڈ لیتے ہیں جن کے بارے میں سبھی جانتے ہیں مثال کے لئے صفائی کے لئے یا خواتین خودمختاری وغیرہ کے لئے۔

ایسے واقعات آئے دن سنائی دیتے رہتے ہیں، جب ملک میں محروم، مظلوم سرکاری یا غیرسرکاری عوامل کے ہاتھوں ظلم کا شکار نہیں ہوتے۔  دلتوں کا سرعام پیٹا جانا یا قتل عام میں ان کو انصاف نہ ملنا، گویاعام رجحان ہو گیا ہے۔یا کسی ترقی کے منصوبہ کے نام پر ہزاروں آدیواسیوں کی نقل مکانی بھی عام ہو چلا ہے۔  مگر ابھی بھی  ایسے کسی کھلاڑی کے بارے میں سننا باقی ہے، جس نے ایسے واقعات کو لےکر اپنی خاموشی توڑیہو۔

آزادی کے پہلے ہم ایسی مثالوں سے ضرور آشنا ہوتے ہیں جنہوں نے اس وقت کی حکومت کے خلاف اپنی مخالفت ظاہر کی، مگر آزادی کے بعد ایسے کھلاڑیوں کی نسل گویا غائب ہو گئی ہے۔کھلاڑی ‘ عظیم ‘ بتائے جاتے ہیں، ان کو تمام تمغہ، انعامات سے لاد بھی دیا جاتا ہے، شاید اسی چکاچوند میں وہ سماج کے پریشان ہوتے مسائل کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بےخبر اور غیر جانب دار ہوتے جاتے ہیں۔

کاش! کھلاڑیوں کی اس بھیڑ میں کوئی کالن کیپرنک بھی ابھرتا جو اپنا اسٹینڈ ظاہر کرنے کے لئے اسی طرح میڈل حاصل کرتے ہوئے اپنی مخالفت کی آواز بلند کرتا۔

محمّد علی کے انتقال پر انڈین ایکسپریس میں چھپے مضمون میں (7 جون 2016) شاید بہت کچھ کہہ گیا تھا :

’تاریخ علی کو اس بات کے لئے یاد کرتی ہے کیونکہ انہوں نے سانچے کو توڑا۔  وہ ایسا کالا انسان نہیں بننا چاہتے تھے جن کو گورا تبھی پسند کریں جب وہ اولمپک تمغہ لٹکا لیں۔  انہوں نے مساوات کی چاہ رکھی جس کا نتیجہ ہے کہ آج وہائٹ ہاؤس میں ایک مسلم نامی صدر بنا ہے۔  ہمارے عظیم لوگوں  کے اندر اتنی جرات نہیں کہ وہ لیکسے ہٹیں اور ملک کے مستقبل کو متاثر کریں ‘

آخر میں، اپنے سماج اور حکومت کو آئینہ دکھانے والے سری لنکا کے کھلاڑیوں کے بہانے ہم کچھ وقت پہلے ‘ دی وائر ‘ کے ایک مضمون کی سطروں کو حوالہ بنا سکتے ہیں جس میں اس نے، تمام سماجی اتھل پتھل کے درمیان ہندوستان کے عظیم کھلاڑیوں کی خاموشی پر یہی سوال پوچھا تھا کہ ‘ کیا ہمارے دور کے ‘ عظیم ہیرو ‘ بولنا نہیں جانتے یا کم عقل ہوتے ہیں؟ ‘

(مضمون نگار سماجی کارکن اور مفکر ہیں۔ )