خبریں

جنوری تک گنّا کسانوں کی بقایارقم بڑھ‌کر 14 ہزار کروڑ روپے تک پہنچی: شوگر مل ایسوسی ایشن

انڈین شوگر مل ایسوسی ایشن نے کہا کہ وہ وقت پر کسانوں کو گنّا کی قیمت کی ادائیگی کرنے میں نااہل ہیں۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: چینی صنعت سے جڑی اہم تنظیم انڈین شوگر مل ایسوسی ایشن(ISMA) نے گزشتہ سوموار کو کہا کہ جنوری تک گنّا کی بقایا رقم بڑھ‌کر 14000 کروڑ روپے ہو گئی ہے جو اس مہینے کے آخر تک بڑھ‌کر ریکارڈ  کی سطح تک پہنچ سکتی ہے۔  اس کی وجہ چینی کی قیمتوں میں آئی گراوٹ اور چینی کا بھاری اسٹاک جمع ہونا ہے۔آئی ایس ایم اے نے ایک بیان میں کہا کہ چینی کارخانہ کی سیالیت (نقدی) کی حالت میں بہتری لانے کے لئے حکومت کو 20 فیصد کی ایکسپورٹ  فیس کو ختم کرنا چاہئے اور 20 لاکھ ٹن فوراً ایکسپورٹ  کرنے کی اجازت دینی چاہئے۔

آئی ایس ایم اے  کے اعداد و شمار کے مطابق چینی کارخانہ نے18-2017مارکیٹنگ سال (اکتوبر-ستمبر) میں 15 مارچ تک 2.58 کروڑ ٹن چینی کی پیداوار کی جبکہ ہدف 2.95 کروڑ ٹن تھا۔چینی کی تین سرفہرست پیداوار والی ریاست مہاراشٹر، اتر پردیش اور کرناٹک نے بالترتیب 93.8 لاکھ ٹن، 84.3 لاکھ ٹن اور 35.1 لاکھ ٹن چینی کی شراکت کی۔برازیل کے بعد دنیا کے دوسرے سب سے بڑے چینی پیداکرنے والے ملک ہندوستان میں چینی پیداوار17-2016کے مارکیٹنگ سال میں 2.03 کروڑ ٹن تھی۔گرتی قیمتوں پر اپنی بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے، آئی ایس ایم اے نے کہا کہ چینی کارخانہ کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے کیونکہ قیمتیں پیداواری لاگت 3500-3600روپے فی کوئنٹل سے کم ہے۔اس نے کہا، ‘ وہ وقت پر کسانوں کو گنّا قیمت کی ادائیگی کرنے میں نااہل ہیں۔  ‘

اس نے مزید کہا کہ چینی کی ایکس مل قیمتیں ایک بار پھر گرنی شروع ہو گئی ہیں اور وہ مغربی اور جنوبی ریاستوں میں 2900 روپے فی کوئنٹل اور شمالی ریاستوں میں 3000 روپے فی کوئنٹل کے درمیان چل رہی ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال 31 جنوری تک ملک بھر میں کسانوں کے گنّا کی بقایارقم  قریب 14000 کروڑ روپے تھا۔

یہ بھی پڑھیں:راشن چاہیے،بھاشن نہیں

آئی ایس ایم اے نے کہا، ‘ حکومت کو فوراً چینی پر 20 فیصد کےایکسپورٹ  فیس کو ہٹانے کی ضرورت ہے ساتھ ہی Minimum Indicative Export Quotas (ایم آئی ای کیو) کے تحت 20 لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ  کرنے کا اعلان کرنا چاہیے  جیسا کہ سال 16-2015 میں کیا گیا تھا۔’ حکومت کو اگلے سیشن کی شروعات سے پہلے 40 سے 50 لاکھ ٹن کچی چینی ایکسپورٹ کرنے  کا بھی اعلان کرنا چاہئے تاکہ چینی ملیں اگلے سیشن کے آغاز سے کچی چینی کے لئے اسکیم بنا سکیں۔ اس کی پیداوار کریں اور اس کو ایکسپورٹ کر سکیں کیونکہ اس سے چینی کارخانہ پر چینی کے زیادہ زخیرے کو لےکر آگے بڑھنے کا بوجھ کم ہوگا۔

دریں اثنا کسانوں کی ایک تنظیم نے گزشتہ  سوموار کو اپنی تشکیل کی پہلی سالگرہ منا رہی اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت پر کسانوں کے ساتھ دھوکہ کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ حکومت نے انتخاب سے پہلے کاشت کاروں  سے کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا ہے۔حالانکہ بی جے پی نے ان الزامات کو غلط بتاتے ہوئے کہا کہ یوگی حکومت نے ایک سال میں کسانوں کے لئے بہت کام کیا ہے۔’راشٹریہ کسان منچ ‘ کے صدر شیکھر دیکشت نے لکھنؤ میں دیے ایک بیان میں کہا کہ ریاست کے اسمبلی انتخاب کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے ریلیوں میں کسانوں کا قرض معاف کرنے کا اعلان کیا تھا۔  اس کے علاوہ گنّا کسانوں کی ادائیگی، آلو اور دھان کسانوں کو پیداواری لاگت دینے، بجلی قیمتیں کم کرنے سمیت تمام وعدے کئے گئے تھے، مگر بدلے میں کسانوں کو دھوکہ ملا۔  اتر پردیش میں کسان دہشت زدہ ہے اور حکومت اپنی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے منشور میں اس کی حکومت بننے کے 14 دن کے اندر گنّا کسانوں کی ساری ادائیگی کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن ایک سال بیت جانے کے بعد بھی وہ وعدہ پورا نہیں کیا ہے۔  چینی کارخانہ پر اب بھی چھ ہزار کروڑ روپےبقایا ہے۔دیکشت نے کہا کہ یوگی حکومت نے آلو اور دھان کے کسانوں سے بھی وعدہ خلافی کی۔ کسانوں سے ان کی پیداوار رقم دینے کا وعدہ بھی ہواہوائی ثابت ہوا ہے۔اس بیچ بی جے پی کے ریاستی ترجمان منیش شکلا نے دیکشت کے الزامات کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ جتنا کام یوگی حکومت نے ایک سال میں کیا ہے اتنا کام پچھلی حکومتوں نے اپنے پوری حکومت میں نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے ذریعے اٹھایا گیا کسان قرض معافی کا قدم تاریخی تھا۔  اس سے 80 لاکھ سے زیادہ چھوٹے اور مارجینل  کسانوں کو فائدہ ہوا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)